تحریر:مشتاق شمیم
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے
۵ ۔مئی ۲۰۲۲ء کا دن تھا ماہ شوال کی تیسری تاریخ ۔میں حسب روایت عید الفطر کی مبارک باد پیش کرنے کی غرض سے ایک عزیز کے گھر سرینگر گیا ہوا تھاکہ اچانک بوقت مغرب کسی رفیق نے فون پر یہ افسوس ناک خبرمجھے گوش گزار کردی کہ وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک معروف قلم کار اور مشہور ناول و افسانہ نگار نذیر جوہر صاحب جملہ عزیز و اقارب کو داغِ مفارقت دیکر ہمیشہ کیلئے اپنے مالک حقیقی سے جا ملنے دارالبقاء کی طرف رخصت ہوگئے۔اس غمناک خبر نے مجھے ذاتی طور پربہت زیادہ دکھ اورصدمہ پہنچا دیاکیونکہ مرحوم کے ساتھ مجھے اور میرے والد صاحب کو گزشتہ کئی دہائیوں سے خاص مراسم و گھریلو تعلقات رہے ہیں۔ ویسے تو نذیر صاحب گزشتہ دو تین ماہ سے بہ حالت علالت بستر مرگ پر اپنی زندگی کے آخری لمحات بڑی دلیری سے گن گن کر گزار نے میںمشغول تھے لیکن اتنی جلدان کے سانسوں کی ڈور آپ کے روح سے کٹ جائے گی کسی کو گمان بھی نہیں تھا۔میں ایک دن قبل ہی یعنی ۴ مئی کوآپ کے گھرواقع فرنڈس اینکلیو ائیرپورٹ ہومہامہ سے آپکی عیادت اور آخری ملاقات کی شرف حاصل کرکے لوٹ چکا تھا۔ خیریہ تو ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر ایک زندہ شئے کو ایک نہ ایک دن کسی نہ کسی بہانے موت کا کڑوا گھونٹ پینا ہی پڑتا ہے ہاں مگر اس صداقت سے بھی کسی کو شاید انکار نہیں ہوسکتاکہ کسی انسان کی موت صرف ایک فرد واحدکی موت ہوا کرتی ہے جبکہ کسی شخص کی موت پورے خاندان یا پھر پورے قوم کی موت ثابت ہوتی ہے۔ نذیر جو ہر صاحب کا نام بھی ایسے ہی اشخاص کی فہرست میں شامل ہوگیا جن کی موت عوامی سیاسی سماجی اور ادبی حلقوں میں ایک ایسا خلا ء پیدا کرگئی جس خلاء کو پُر کرنااب مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہے۔ اللہ مرحوم جوہر صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عنایت فرمائے آمین یا رب العالمین۔
چناچہ مرحوم نذیر جوہر صاحب صرف ایک فرد واحد نہیں بلکہ وہ اپنے آپ میں ایک انجمن کی طرح تھے۔آپ کے جسم و جان میں ایک ساتھ کئی با صلاحیت اور ہمہ جہت اشخاص جی رہے تھے۔آپ بیک وقت ایک پُروقار قلم کار ایک با کمال شاعر ایک بے لوث سیاست دان ایک ہمدرد سماجی کارکن اور ایک ایماندارسرکاری افسر رہ چکے ہیں۔سادگی دیانتداری دینداری نیستی ندیمی شرین کلامی اور خوش اخلاقی جیسے اعلیٰ اوصاف ِ انسانیت ان کے خون کے قطروں میں رچ بس رہے تھے۔ علم و دانائی اور پیار و محبت کی بے پناہ دولت آپ کو اپنے جد و اجداد سے وراثت میں مل چکی تھی۔سیاسی تدبُردور اندیشی بالغ النظری خود داری اور انسان دوستی آپ کی زندگی کا طرہ امتیاز رہا ہے۔ الغرض نذیر جوہر صاحب کو ربِ تعالیٰ نے اُن تمام بیش بہاخوبیوں سے آراستہ کر رکھا ہوا تھاجو خوبیاں گوشت و پوست میں لپٹے ایک مٹی کے مادھو کو انسانیت کے اعلیٰ منصب پر فائض کرنے میں پیش پیش رہا کرتے ہیں۔
بہر حال مرحوم نذیر جوہر صاحب کی پوری زندگی ایک پُرا عظم سپاہی پُر جوش ادیب اور بے تاج بادشاہ کی طرح گزر گئی۔انہوں نے یوم تولد سے لیکر یوم وصال تک یعنی اپنی ستاسٹھ سالہ دور زندگی میں ایسے نشیب و فراز اور اُتار چڑھائو دیکھے ہیں جن کا صرف احساس کرنا بھی ایک عام انسان کیلئے مشکل کام ثابت ہوسکتا ہے۔آزمائشوں اور امتحانات کی پُر درد ہوائیں قدم قدم پر جوہر صاحب کا تعاقب کرتی رہیں تاکہ ان کے مضبوط ارادوں اور بلند حوصلوں کو توڑ مروڑسکیں لیکن ان بے مروت باد مخالف کو جوہر صاحب کے عظم سلیم سے ٹکرا کر ہمیشہ نامرادو ناکام ہوکرہی لوٹ کے آنا پڑا۔آپ ہمیشہ منزل مقصود کی طرف اپنی نگاہیں عقاب کی مانندمرکوز کرکے آگے بڑھتے رہے اور کبھی بھی پلٹ کر دیکھنے کی حماقت نہیں کی۔مایوسی بزدلی اور نا امیدی کے سائے میں بیٹھنے کی زحمت انہوں نے کبھی گوارہ نہیں کی۔ اپنے گھر پریوار اور تعلق داروںکی ذمہ داریوںکابوجھ اپنے مضبوط کاندھوں پر اُٹھانے میں وہ فخر محسوس کیا کرتے تھے اور انہوں نے کبھی بھی ان لا محدود اور مشکل ترین ذمہ داریوں کا سامنا کرنے سے منہ نہیں موڑا۔
نذیر جوہر صاحب گلستانِ ادب کا ایک ایساشا ہکار رہ چکاہے جس نے اپنی ذہانت ولولہ انگیزی اور محنت سے ارد وشعرو ادب کو بام عروج تک لیجانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔انہوں نے اردو ادب کے شائقین کو گزشتہ تین دہائیوں کے دوران کئی ایسی خوبصورت تصانیف فراہم کرنے میں کامیابی حاصل کی جن نگارشات سے نہ صرف اردو ادب بلکہ اردو زبان اور تہذیب و تمدن کو ایک اعلیٰ مقام حاصل ہوچکا ہے ۔جوہر صاحب کے گلدستہ تصانیف میں ’’۱۔یہ نہ تھی ہماری قسمت (ناولٹ) ۲۔مہربان کیسے کیسے(ناول)۳۔زندگی یوں تمام ہوتی ہے (سوانح حیات) ۴۔اور بھی غم ہیں ( افسانوی مجموعہ) ۵۔ باتیں ہیں باتوں کا کیا (سرگزشت ) ‘‘ جیسے رنگا رنگ پھولوں کی ڈالیاں شامل ہیں ۔اس گل دستہ تصانیف کی خوشبو سے ادبی دنیا کی خوبصورت وادیاں مہک اُٹھی ہیں اور بہت دیر تک مہکاتی رہیں گی انشاء اللہ۔ چناچہ ان کی تحریرات پر مبنی کافی سارا سرمایہ نذیر صاحب کی بے وقت موت کے سبب کتابی شکل اختیار کرنے سے رہ گیا جس کا ادب نواز اور قلم کارحضرات کو ملال رہے گا۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ کے فرزندان پہلی فرصت میں اپنے مرحوم والد صاحب کی طرف سے پیچھے چھوڑ چکے ادبی مسودے کو کتابی شکل دینے کی طرف پورا دھیان دینے کی کوشش کریںگے تاکہ یہ قیمتی خزانہ جوہر صاحب کے ادبی رفقاء اور ساتھیوں تک بغیر کسی تاخیر کے پہنچ پائے۔
نذیر صاحب کے افسانے کہانیاں اور ناولٹ وقتاََ فوقتاََ معروف قومی اور مقامی روزنامہ جات ہفتہ روزہ جات اور معروف میگزینوں میں شائع ہوتے رہے جن کو قارئین حضرات بہت زیادہ پسند کیا کرتے تھے۔جوہر صاحب کی نگارشات کا مطالعہ کرنے سے پڑھنے والوں کے روح کو سکون اور ذہن کو فرحت محسوس ہوا کرتی ہے۔آسان زبان اور خوبصورت الفاظ ان کی نگارشات کی خوبصورتی کو دھوبالا کرنے میں اہم کردار ادا کیاکرتے ہیں۔جوہر صاحب کے تحریر کردہ افسانوں اور ناولوں کی پھلواڑیوںمیں آپ نے ایسی لا تعداد سبق آموز کہانیاں سجاکے رکھی ہوئی ہیں جن سے سماجی برابری انسانی ہمدردی معاشرتی یگانگت تعلیم نسواں کی اہمیت رسومات بد کے مضر اثرات اورقومی یکجہتی وغیرہ جیسے اہم پیغامات عام کرنے کی سعی کی جاچکی ہے تاکہ ایک بہتر سماج کی تعمیرممکن ہو پائے۔جوہر صاحب کے تحریرات میں ایک خاص خوبی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ آپ نے غلطی سے بھی زیر استعمال اردوزبان میں کسی دوسری زبان کے الفاظ کو متبادل کے طور پر استعمال نہیں کیا ہے۔آپ کئی ادبی تنظیموں کے ساتھ وابستہ رہ کرتا دم مرگ ادبی دنیا کی خدمت بھی کرتے رہے۔
۱۹۵۵ء میں نذیر جوہر صاحب سوگام لولاب کے ایک با اثر سیاسی خانوادے اور خوشحال زمیندار گھرانے میں تولت ہوگئے۔کشمیر یونیورسٹی سے اردو مضمون میں ماسٹرس ڈگری حاصل کرلی۔محکمہ خوراک اور سیول سپلائیز میں نوکری اختیار کرکے عوام الناس کی خدمت کی۔نیشنل کانفرنس نامی سیاسی پارٹی کے ساتھ ابتداء سے ہی آپ کے خاندان کے بزرگوںکو سیاسی وابستگی رہی۔ آپ کے برادر اصغر مرحوم مشتاق احمد لون صاحب وزارت کے منصب پر بھی فائض رہے اور فرزند ارجمند جناب قیصر جمشید لون صاحب قانون ساز اسمبلی اور قانون ساز کونسل کے رُکن رہ چکے ہیں۔۲۰۰۲ء میں اپنے برادر اصغر مشتاق احمد لون کی شہادت کے بعد اگر چہ نذیر جوہر صاحب کو میدان سیاست میں کامیابی کے ساتھ قدم رکھنے کا موقع مل گیا تھا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا ۔ انہوں نے اپنے کم سن فرزند قیصر جمشیدلون کوعوام کے اصرار پر یہ ذمہ داری اُٹھانے کیلئے پیش کیا۔
’’زندگی یوںتمام ہوتی ہے‘‘ نامی سوانح حیات پر مبنی تصنیف میں مرحوم نذیر جوہر صاحب نے اپنے خاندان کا شجرہ نصب وادی کشمیر کے مشہور و معروف ولی کامل حضرت محبوب العالم شیخ ہمزہ مخدومی صاحب ؒ کے ساتھ جوڑدیا ہے۔ اگر مرحوم مصنف کی طرف سے پیش کئے گئے شجرہ نصب کو صحیح مانا جائے تواسکے مطابق ان کے اجداد ہندو دھرم کے ساتھ وابستہ رہ چکے تھے۔سلطان رنچن شاہ کے دور اقتدار میں جوہر صاحب کے جد امجد راون چندر مشرف بہ اسلام ہوگئے اور رنچن شاہ نے انکا نام بدل کر راون چندر کے بجائے راون رینہ رکھ دیا۔تجر شریف میں رنچن شاہ نے راون رینہ کو ایک بڑی جاگیر فراہم کرلی تھی ۔ راون رینہ کا فرزندجہانگیر رینہ تھا جس کو حسن شاہ کے دور حکومت میںبغاوت کے الزام میں قتل کردیاگیا۔والد کا قتل ہونے کے بعد جہانگیررینہ کا چھوٹا فرزند زیتی رینہ بہ حالت مجبوری تجر شریف روانہ ہو گئے اور وہیں پر سکونت اختیار کرلی اور یاد الٰہی میں مگن ہوگئے۔بے پناہ یاد خدا کے سبب زیتی رینہ پھر بابا زیتی رینہ بن گئے۔بابازیتی رینہ کا فرزند بابا عثمان رینہ بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چل کر یاد حق میں اپنی زندگی گزارنے لگے۔با با عثمان رینہ کے دو فرززند تھے ۔بابا علی رینہ اورحضرت محبوب العالم شیخ ہمزہ مخدومی ؒ ۔حضرت شیخ ہمزہ مخدومی صاحب ؒ یاد الٰہی میں اس قدر محو ہوگئے کہ انہوں نے کبھی ازدواجی رشتے کے بندھن میں بندھ جانے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔بابا علی رینہ اپنے والد بابا عثمان رینہ کے بعداپنے قبیلے کے سردار بن گئے اور ’’ لون ‘‘ لقب سے مشہور ہوگئے کیونکہ سردار کو اُس زمانے میں لون بھی کہا جاتا تھا۔حضرت محبوب العالمؒ کے برادر اکبربابا علی رینہ لون کا خاندان آگے بڑھتا گیا۔ ایک سردارہونے کے ناطے وقت کے حکمران نے حضرت بابا علی کو ایک بڑی جاگیرسوگام لولاب میں فراہم کی تھی۔انہوں نے اپنے ایک فرزند لوح رینہ لون کو یہ جاگیر سنبھالنے کیلئے تجر شریف سے لولاب روانہ کردیا۔لوح رینہ لون نے وہیں پر مستقل طور پرسکونت اختیار کرلی اور ان کا خاندان وہیں پر آگے بڑھتا گیا۔مرحوم نذیر احمد لون ’’جوہر‘‘ اسی خاندان کے چشم چراغ ہیں۔
آیا ہے پھر اِک بار وہی موسم گل بار ۔۔۔۔ نغمہ تو ہے بلبل کا پر جوہر کی زبان ہے۔لولاب جہاں ہے
مضراب کے تاروں کے طلاطم کو ذرا دیکھ۔۔۔۔
مشتاق کا نغمہ ہے تو انور کی اذاں ہے ۔ لولاب جہاں ہے