تحریرـ:عابد حسین راتھر
جی بلکل ڈریم _11ایک آن لائن جوا ہے اور اس سے کمائی ہوئی دولت اسلامی نقطۂ نظر سے بلکل حرام ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اِس قسم کی بہت ساری دوسری آن لائن قمار بازیوں میں حصہ لینا بھی بلکل حرام ہے۔ ہمارے معاشرے کے اکثر لوگ خاص کر نوجوان طبقہ اس وقت آن لائن قمار بازی جیسے ڈریم-۱۱، فن-۸۸ کسینو وغیرہ میں بُری طرح مبتلا ہے اور اپنا پیسہ اور وقت بُری طرح سے ضائع کر رہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ کم علمی اور غفلت کی وجہ سے اُن میں سے اکثر لوگ اِن چیزوں کو حرام سمجھنے کیلئے تیار ہی نہیں ہے۔ بحثیت مسلمان ہم سب پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم خود کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی ان حرام کاموں سے دور رہنے کی تلقین کرے۔ ہمارے معاشرے کے والدین کو بھی چاہئے کہ اپنی اولین فرصت میں اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرکے ان کو ان جدید سماجی برائیوں سے دور رکھے تاکہ وقت گزرے کے بعد ان کو پچھتاوے کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ لیکن اِسی معاشرے کا دوسرا پہلو کچھ اور ہی ہے۔ خدارا مجھے کوئی یہ بتائے کیا رشوت سے کمائی ہوئی دولت حلال ہے ؟ کیا ایسی دولت کو دینی تعمیرات کیلئے یا اپنے بچوں کی پرورش کیلئے استعمال کرنا جائز ہے ؟ کیا سود کی دولت حلال ہے ؟ کیا بیوپار اور دوکان داری میں ناجائز منافع خوری سے کمائی ہوئی دولت حلال ہے ؟ کیا باقی دوسرے غلط طریقوں سے کمائی ہوئی دولت حلال ہے ؟ کیا ہم نے کبھی اس بات پر غور و خوض کیا ہے کہ جن ذمہ داریوں کے عوض ہم تنخواہیں لیتے ہے کیا ہم ان ذمہ داریوں کو پوری ایمانداری سے نبھاتے ہیں یا نہیں۔ اگر ہم ان ذمہ داریوں کو نبھانے میں کوئی کوتاہی کرتے ہیں تو کیا پھر ہم پر ہماری تنخواہیں حلال ہے یا حرام ؟ اگر ہم خود کو مسلم معاشرے میں رہنے والے باشندے کہتے ہے تو آج جس طرح ہم سب ڈریم _۱۱ سے پیسے جیتنے والے اپنے معاشرے کے ایک فرد کے خلاف کھڑے ہوگئے اور اس کی کمائی ہوئی دولت کو سب نے حرام قرا دیا، اسی طرح ہم باقی حرام طریقوں سے دولت کمانے والوں کے خلاف کھڑے کیوں نہیں ہوتے۔ اس معاملے میں ہم خاموش کیوں ہے اور ان لوگوں کیلئے ہمارے معاشرے میں اتنی عزت کیوں ہے اور وہی لوگ ہر جگہ اکثر دینی اور سماجی تنظیموں اور کمیٹیوں کے سربراہان کیوں ہوتے ہیں ؟ ہمارے مسلم معاشرے میں شرافت اور ایمانداری کے بجائے مکاری اور حرام کی دولت کے مقدار کو عزت کا معیار اور پیمانہ کیوں بنایا گیا ہے ؟ ہم لوگ حرام کی کمائی سے اپنے بچوں کی پرورش کرکے انہیں حلال روزی کا درس کیسے دے سکتے ہیں اور پھر ہم کیسے اس بات کی توقع رکھ سکتے ہیں کہ کل مستقبل میں ہماری اولادیں نیک اور صالح اولادیں بنے گی؟ ہم کیوں قران و احادیث کے اصولوں اور مقرر کردہ قوانین کو چھوڑ کر اپنی مرضی کے مطابق حلال و حرام کیلئے خود اپنے معیار اور قوانین بناتے ہیں۔
کیا یہ ہمارا منافقانہ اور دوہرا رویہ نہیں ہے ؟
کیا یہ ہمارے مسلم معاشرے پر ایک سوالیہ نشان نہیں ہے ؟
بات اگر کڑوی ہے مگر سچ ہے !!!