جمعہ کو دی انڈین ایکسپریس میں شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت نے اگلے سال کشمیر میں جی 20 کے اجلاسوں کی میزبانی کا فیصلہ کیا ہے اور اس تقریب کوحتمی شکل دینے کے لیے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔واضح رہے کہ ، دوہزار تئیس جی 20 ممالک کے کشمیر میں منعقد ہونے والے اجلاس کے سلسلے میں جموں وکشمیر سرکار کی جانب سے اقدامات کرنے کا عمل شروع ہوچکاہے۔ یوٹی انتظامیہ نے اس سلسلہ میں کل ایک آڈر جاری کرکے پانچ ممبران کی ایک کمیٹی تشکیل دینے کا حکم جاری کیا ہے۔ مکانات اور شہری ترقی محکمے کے پرنسپل سیکرٹری دھیرج گپتا کی سربراہی والی یہ کمیٹی میٹنگوں کو احسن طریقے پر منعقد کرانے کے لئے متعلقہ محکموں کے ساتھ تال میل انجام دے گی ۔
ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ میں الگ سے یہ کہا گیا ہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت جموں و کشمیرکی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد منعقد ہونے والا یہ پہلا بڑا بین الاقوامی ’’اجلاس‘‘ہوگا۔جو جموں کشمیر میں منعقد ہو رہا ہے ۔
جبکہ ادھر اسلام آباد میں دفترخارجہ کی جانب سے ہفتے کے روزجاری کردہ ایک بیان میں پاکستان نے ان منصوبوں کی مذمت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ جموں وکشمیر دونوں ملکوں کے درمیان بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ’’متنازع‘‘علاقہ ہے۔یہ علاقہ 1948ء سے بھارت کے غیر قانونی قبضے میں ہے اور یہ تنازع کشمیر گذشتہ سات دہائیوں سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے میں شامل ہے۔
مزید کہا گیا ہے کہ کشمیر میں جی 20 سے متعلق کسی بھی اجلاس/تقریب کے انعقاد پرغور’’علاقے کی عالمی سطح پر تسلیم شدہ متنازع حیثیت کو یکسرنظرانداز کرنے کے مترادف ہے اور اسے عالمی برادری کسی بھی صورت میں قبول نہیں کرسکتی‘‘۔توقع کی جاتی ہے کہ بھارت کی جانب سے ایسی کسی بھی متنازع تجویزکو،جوسات دہائیوں سے جاری غیرقانونی اور ظالمانہ قبضے کو بین الاقوامی قانونی جواز عطاکرنے کے لیے تیار کی جائے گی، جی 20 کے قانون اور انصاف کی ضروریات سے پوری طرح آگاہ رکن ممالک یکسرمسترد کر دیں گے
دفترخارجہ کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا میں پائیدارامن کا واحد راستہ یہ ہے کہ جموں و کشمیر کے عوام کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق ان کا ناقابل تنسیخ پیدائشی حق خودارادیت دیا جائے تاکہ وہ یہ فیصلہ کرسکیں کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔
قارئین! بھارت اقوام عالم اور اس فورم کی عالمی معیشت کے حامل ممالک کو دکھانا چاہتا ہے جموں کشمیر کی عوام بھارت کو پسند کرتے ہیں ، مودی سرکار کے اس اقدام کو انہوں نے بخوشی قبول کیا ہے اور یہ ٹھیک فیصلہ ہے جس کی وجہ سے حالات یہاں معمول پر ہیں ۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ بھارت 5 اگست 2019 کے اقدام میں کامیاب ہو چکا ہے اور اب ایک نئی پیش رفت کی جانب ہے جس میں دکھائی دیتا ہے کہ اس میں بھی کامیاب ہو جائے گا۔ اس گروپ میں دنیا کے 19 ممالک شامل ہیں جس میں یورپی یونین بھی شامل ہے ، اس کانفرنس میں کامیابی پر بھارت اپنی نئی سازش میں بین الاقوامی طور پر کامیاب ہو گا ۔
بھارت کا جموں و کشمیر میں جی 20 ممالک کی میٹنگ منعقد کروانا ہندوستان کے لئے سفارتی سطح پر ایک بڑی جیت ہوگی۔
ہندوستان عالمی سطح پر پاکستان کے مقابلے میں مضبوط ہوکر ابھرے گا۔ یہ قدم عالمی سطح پر کشمیر سے متعلق پاکستان کے موقف کو کمزور کرے گا ۔ اور جموں کشمیر اس متنازعہ خطہ کہ بیج الاقوامی حیثیت مجروع بھی کرے گا ۔ ماضی میں مختلف ممالک کے سفارت کار وقتاً فوقتاً کشمیر کا دورہ کرتے رہے ہیں، تاہم وہ الگ مشنوں کے تحت کشمیر آیا کرتے تھے، لیکن حکومت ہند کی جانب سے منعقد ہونے والے اس عالمی اجلاس کی میٹنگوں میں جی 20 ممالک کے لیڈران کی شرکت سے ہندوستان کے اس موقف کو مضبوطی ملے گی جموں وکشمیر ہندوستان کا ہی حصہ ہے ۔بھارت کے دوہرے معیار کا بھی یہ عالم ہے کہ ایک طرف سے جی 20 کانفرنس منعقد کرنے جا رہا ہے تو دوسری طرف بین الاقوامی فورم ،تنظیموں اور کمیشن کو انسانی حقوق کی پامالیوں پر شرکت، شمولیت ، دورے کی اجازت نہیں دیتا ہے ۔
قارئین! یہ کانفرنس بہت خاص ہے ، اس کی اہمیت کو اور ریاست کے بین الاقوامی سوال ، صورت حال بارے خیالات و خدشات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ کیوں کہ جی 20 کا مقصد عالمی معیشت کے حوالے سے بنیادی امور پر تبادلہ خیال کرنا اوردنیا کو درپیش معاشی مسائل کا حل تلاش کرنا ہے ۔ 20 اہم معیشتوں کی حکومتوں اور مرکزی بینک کے گورنروں کا ایک بین الاقوامی فورم ہے۔ اس کے ارکین میں 20 انفرادی ممالک ارجنٹائن، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، چین، فرانس، جرمنی، بھارت، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، جنوبی کوریا، میکسیکو، روس، ہسپانیہ،سعودی عرب، جنوبی افریقا، ترکی، مملکت متحدہ، ریاست ہائے متحدہ امریکا اور یورپی یونین شامل ہیں۔ یورپی یونین کے دیگر رکن ممالک انفرادی طور پر اس کے رکن نہیں ہیں ۔یاد رہے کہ اس سے قبل بھی یورپی یونین کی ایک وفد کو کشمیر کا دورہ کرایا گیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کشمیر میں سب کچھ اوکے ہے ۔ حالات نارمل ہیں ۔ دنیا کو جو دکھایا جاتا ہے ویسا حقیقت میں کچھ نہیں ۔
اس کانفرنس پر پاکستان جو شور کر رہا ہے اس کی پالیسی یہی رہی ہے کہ کشمیر میں جب بھی بھارت سے یا یا عالمی وفد آیا تو پاکستان نے پراکسی وار کرائی اور دہشت گردوں کی سپورٹ کی۔ پاکستان صرف پراکسی وار کراتا ہے جس سے بھارت کو فائدہ پہنچاتا ہے اور تحریک آزادی جموں کشمیر کو نقصان ہوتا ہے ۔ پاکستان گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر جو اسی ریاست کا حصہ ہیں کے بارے خاموش ہے اور صرف کشمیر ہی کو مقبوضہ قرار دے کر سلامتی کونسل کی قراردادوں کا کہہ رہا ہے ، اور انھیں بھی حق خود ارادیت کا محدو حق یعنی بھارت یا پاکستان مشروط حق ادائیگی دئیے جانے کا مطالبہ کر رہا ہے جس سے پاکستان کے موقف کی عالمی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔پاکستان سری نگر کو متنازعہ خطہ قرار دیتا ہے ، اور بین الاقوامی طور پر پاکستان نے بھی اسی ریاست کے بڑی حصے پر قبضہ کر رکھا ہے ۔ بھارت اور پاکستان غاصب فریق ہیں ۔ پاکستان کی بیان بازی بھی محض روائیتی ہی تصور کی جائے گی۔ کیوں کہ کہ دونوں ممالک نے آپسی پالیسیوں کے مطابق جموں کشمیر کے قومی سوال کو ختم کرنے کے لیے متعدد معاہدے کیے ہوئے ہیں اور ڈیل کی ہوئی ہے یہ سب دونوں اطراف میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ انہی توسیع پسندانہ منصوبوں کی کڑیاں ہیں ۔ شملہ معاہدہ ، سندھ طاس معاہدہ ، فاؤنڈ معائدہ اور آپسی دیگر معاہدے ، تبادلے بڑے اشارے ہیں ۔ گلگت بلتستان سے قانون ریاست باشندہ ختم کیا گیا اور پھر بھارت نے 2019 میں یہی اقدام کیا۔ اب پاکستان بھی جی 20 کانفرنس کے بعد اگلا قدم اٹھائے گا ۔ ایسی کانفرنس وغیرہ پر پاکستان سے کسی بہتری کی امید رکھنا فضول ہے ۔