تحریر:کنیز فاطمہ
ایک ایسا ملک یا معاشرہ جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ موجود ہوں ، اسے مہذب اور ترقی یافتہ بنانے میں جو خوبیاں موثر کردار ادا کرتی ہیں ان میں ایک رواداری ہے ۔
رواداری کیا ہے ؟
اصطلاح میں رواداری کا مفہوم یہ ہے کہ کسی تعصب وعناد اور بغض وحسد کے بغیر صبر و تحمل سے کسی دوسرے کی بات کو ٹھنڈے دل سے برداشت کرنا۔ رواداری عدم تحمل کی ضد ہے یعنی کہ یہ صبر وتحمل اور برداشت کرنے کا دوسرا نام ہے۔
اسلام میں رواداری کا تصور یہ ہے کہ متضاد خیالات کے حامل لوگوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔ اس رواداری کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے جذبات کا لحاظ کرتے ہوئے ان پر کسی قسم کی ایسی نکتہ چینی نہ کریں جو ان لوگوں کو رنج پہنچائے جو مختلف خیالات، عقائد یا افکار رکھتے ہیں۔ اسی طرح انھیں ان کے مذہبی عقائد و اعتقاد سے پھیرنے یا انہیں ان کے اپنے مذہبی عمل سے روکنے کے لئے جبر کا طریقہ کبھی اختیار نہ کیا جائے۔
اسلام ہمیں صاف لفظوں میں رواداری کی تعلیمات دیتا ہے ۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ کے مطالعہ سے یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ انسانیت اور رواداری کے فروغ میں اسلام نے متعدد دلیلیں قائم کر دی ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ انسانیت کے ساتھ اخلاص کے ساتھ حسن سلوک ، انسانوں کی خدمت اور ان کی بہتری کا جذبہ لوگوں کے دلوں میں راسخ کر دے ۔
رواداری نہ صرف قوم کی ضرورت ہے بلکہ اس کی افادیت عالمی سطح پر محیط ہے ۔ کسی ملک میں داخلی سطح پر رواداری کا ماحول ہو تو اس سے عالمی اور بین المذاہب تعلقات کو خوشگوار بنانا آسان ہوتا ہے ۔ اس عمل سے نہ صرف اخلاقی اور انسانی اقدار نشو و نما پاتی ہے بلکہ دیگر ممالک کے ساتھ اعتماد کی بحالی ہوتی ہے اور پھر ملک کی معیشت بھی مضبوط ہوتی ہے ۔
رواداری کے جذبے کے ساتھ سماجی طرز عمل، خواہ وہ قومی اور علاقائی سطح کا ہو یا بین الاقوامی نوعیت کا، باہمی اختلافات اور رنجشیں پیدا نہیں کرتیں، بلکہ معاشرے میں خوشحالی کی نئی راہیں کھلتی ہیں اور ریاستی نظام اچھی طرح چلتا ہے۔ یوں تو اسلامی نقطہ نظر سے رواداری معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن اس کا عالمگیر پھیلاؤ باہمی محبت و الفت کی فضا فراہم کرتا ہے اور یہی وقت کا اہم ترین تقاضا اور ضرورت ہے۔
اسلام صبر اور برداشت کا مذہب ہے۔ اس میں کسی قسم کے جبر کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ دعویٰ کرنا کہ اسلام تلوار اور طاقت کے زور پر پوری دنیا میں پھیلا ہے، سراسر جھوٹ اور بہتان ہے۔
اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:’’دین میں کوئی زبردستی نہیں۔‘‘ (البقرة:۲۵۶)
اس مبارک آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم ہمیں عالمگیر کامیابی و خوشحالی اور عزت و وقار کو برقرار رکھنے کے لیے اعتدال اور توازن کا درس دیتا ہے۔ لہٰذا اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام اعتدال اور توازن کا دین ہے جہاں افراط و تفریط کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔
اصل اسلامی تہذیب درحقیقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال ہیں۔ قرآن نے امت مسلمہ کے لیے کہا:
’’اور (اے مسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا۔‘‘ (البقرة:۱۴۳)
قرآن مجید میں مختلف مقامات پر رواداری، اعتدال اور توازن کو بیان کیا گیا ہے۔ درج ذیل کچھ مقامات ملاحظہ ہوں:
امن اور ہم آہنگی
قرآن پاک ہمیشہ امن، ہم آہنگی، رواداری، باہمی محبت، درگزر، تحمل اور عفو و درگزر کی تلقین کرتا ہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
‘‘اور (جو لوگ) غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں۔’’ (آل عمران:۱۳۴)
ظلم اور زیادتی کے بجائے اعتدال اور رواداری
اسلام میں اگرچہ دشمن کے ظلم اور زیادتی کا بدلہ لینے کی اجازت ہے لیکن اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ جو زیادتی کی گئی ہے اس کے مطابق بدلہ لیا جائے۔ حد سے تجاوز کرنے کی بالکل اجازت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عفو و درگزر کی تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
‘‘اور برائی کا بدلہ اسی برائی کی مِثل ہوتا ہے، پھر جِس نے معاف کر دیا اور (معافی کے ذریعہ) اصلاح کی تو اُسکا اجر اللہ کے ذمّہ ہے۔ بے شک وہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘(الشوریٰ:۴۰)
کسی کی بدتمیزی اور برے برتاؤ پر اچھا رویہ اختیار کرنا
دین اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اس بات کی اجازت نہیں دیتیں کہ ہم کسی کے برے سلوک اور برتاؤ پر برا برتاؤ کریں۔ بلکہ ہر موقع پر تحمل اور برداشت کا درس دیا گیا ہے۔ اس حکمت عملی سے دشمن بھی دوست بن جاتا ہے۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
‘‘اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتی، اور برائی کو بہتر (طریقے) سے دور کیا کرو سو نتیجتاً وہ شخص کہ تمہارے اور جس کے درمیان دشمنی تھی گویا وہ گرم جوش دوست ہو جائے گا۔’’ (۴۱:۳۴)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نرم طبعیت پر قرآن کی گواہی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نرم طیعتپ کی مدح کرتے ہوئے قرآن پاک میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :
‘‘(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لئے نرم طبع ہیں اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے، سو آپ ان سے درگزر فرمایا کریں۔‘‘ (آل عمران:۱۵۹)
ان قرآنی احکامات سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں زندگی کے ہر قدم پر درگزر اور رواداری کا حکم دیا ہے.
بشکریہ :نیو زیج اسلام
