سائنس کی ایجادات کو دیکھ کر پہلے پہل انسانی عقل شششدر ،حیران اور دنگ رہ جاتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہوتا۔اب آئے روز نت نئی ایجادات ہوتی ہیں اور انسان بہتر سے بہترین کی جستجو میں رہتا ہے۔پہلے انسان اکیلا رہتا تھا اب دنیا سے منسلک رہتا ہے۔میڈیا کی بدولت رابطے میں رہنا آسان ہوگیا اور یہ دور بھی ایسا ہے کہ زمانے سے رابطے میں رہنے کے لیے میڈیا کے ساتھ رابطے میں رہنا ضروری ہے۔ہر گھر میں ریڈیو ،ٹی وی ایسے پڑے ہیں جیسے خوشحال گھرانوں میں کھانے پینے کی اشیاء۔میرے گھر میں بھی کم سے کم تین چار ریڈیو ہوں گے۔ بعض لوگوں کو یقین نہیں آیا گا لیکن میں آپ کے ساتھ کسی بھی مقدس جگہ جانے کے لیے تیار ہوں جہاں میں یہ حلف اٹھا سکوں کہ واقعی میرے گھر میں چار ریڈیو ہیں۔گھر میں ریڈیو کا انبار کیوں لگا ہے یہ ایک لمبی داستان ہے۔آپ ناراض کیوں ہو رہے ہیں۔آپ کے پاس فرصت ہے تو میں یہ لمبی داستان سنانے کے لیے تیار ہوں لیکن پہلے عرض کردوں کہ اس انبار میں کوئی بھی موتی ایسا نہیں جو ہار بنانے کے کام آئے۔
بے کاری اور فرصت کے ایام میں وقت کے پہاڑ کو کاٹنے اور دودھ کی نہر نکالنے کے لیے کوئی بھی مشغلہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔کام میں دل لگنے کے ساتھ ساتھ مزہ بھی آئے تو اس سے بڑی خوش بختی ایک بے شغل کے لیے اور کیا ہو سکتی ہے۔جو کام کی بوری آپ کاندھوں پر اٹھانے کی ٹھان لیتے ہیں پہلے اس کا خوب چرچہ کرتے ہیں تاکہ دوستوں دشمنوں کو پتا لگ سکے۔ویسے بھی کام کے چرچے چار دانگ ہوتے ہیں چاہیے راز داری سے کیا جائے۔چپ چاپ کسی بھی کام کا بس ارادہ کرنے کی دیر ہوتی ہے دوستوں اور دشمنوں کو پتا لگ ہی جاتا ہے۔ان کا کام ہی ہوتا ہے کہ وہ یہ جانکاری رکھے کہ کون کیا کر رہا ہے۔ہاں اگر کوئی فرصت کے لمحات گزار رہا ہے اور دوستوں کو پتا چلتا ہے تو تناؤ سے بچانے کے لیے وہ اس پر طرح طرح کے نسخے ویسے ہی آزماتے ہیں جیسے آج کے ڈاکٹر مریض کو سو طرح کی طبی تشخیص کے بعد بھی سو قسم کی دوائیاں کھلاتے ہیں۔یہ سوچ ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی دوائی سے ٹھیک ہوہی جائے گا۔مریض ٹھیک نہ بھی ہوا تو چہارم پر ہمسائیوں اور رشتہ داروں کے لیے ضیافت کا انتظام کرکے ہی جائے گا۔ بے کار شخص کو مختلف قسم کے وسوسے ہوتے ہیں ۔ ان سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان خود کو مصروف کر لے۔میں بے کار تھا تو دوستوں نے مجھے مصروف اور پریشانی سے دور رہنے کے لیے جو جو دوائی تجویز کی ایک ایک کرکے کھائی پر ذہنی خفلشار دور نہ ہوا۔غرض مزید پریشانی سے بچنے کے لیے ڈاکٹر کے پاس جانے کا ارادہ کیا ۔جوں ہی گھر سے تیار ہوکر نکلا راستے میں ایک پرانے عزیز سے ملاقات ہوئی۔اس کی سب سے اچھی عادت یہ ہے کہ جب تک سو سوال نہیں کرتا تب تک جان نہیں چھوڑتا۔سلام کو رہنے دیا اور سیدھے گلے لگا کر ایک سانس میں پوچھا کہ کیسے ہو،کہاں جا رہے ہو، کیوں جا رہے ہو ۔ان سوالات کے جوابات دینے ہی والا تھا کہ اس نے ایک اور سوال کیا کہ اتنے پریشان کیوں ہو ۔اس کیوں کا میں بھی جواب تلاش کرنے نکلا تھا۔سارا معاملہ بیان کیا۔صورتحال کو جاننے کے بعد توقف کیا اور گہرے خیالات میں ڈوب گیا۔قوی امکان ہے کہ بڑے بڑے فلسفی اسی انداز سے ایک انگلی گال پر رکھ کر دور آسمان کی وسعتوں کو دیکھ کر مسائل کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہوں گے۔اس سے پہلے میں کچھ کہتا سنجیدگی اور سکوت توڑتے ہوئے گویا ہوئے کہ ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔میرے پاس ایک ترکیب ہے۔میں بھی ویسے ہی متوجہ ہوا جیسے اتھینز میں افلاطون کے شاگرد ان کی باتوں کو سننے کے لیے ہم تن گوش ہوتے تھے۔قبلہ نے علاج بتایا کہ ایک عدد ریڈیو خرید لو۔ریڈیو میں موسیقی ، کھیل کے متعلق پروگرام ، صحت ، طب ،فلاسفہ ، حال کے ساتھ ساتھ موسم کی جانکاری سب کچھ ملتا ہے۔ادبی پروگرام ہو یا تاریخی قصے ،مذہب ہو یا سیاست بڑے بڑے سورماؤں کو سننے کے لیے ریڈیو سے بہتر کچھ نہیں۔تفریح کی تفریح اور علم کا سمندر مفت ملے گا۔میں اس تجویز پر غور کرنے کی والا تھا کہ پھر گویا ہوئے کہ ریڈیو کو دن بھر سننے سے وقت کا پتا ہی نہیں چلتا۔مزید کہنے لگے کہ ریڈیو سننے سے بڑے بڑے ڈاکٹروں کے پاس نہیں جانا پڑتا چونکہ انسان ذہنی انتشار سے دور رہتا ہے۔انسان ڈاکٹر کی لکھی ان قیمتی دواؤں کو کھانے اور خریدنے سے بھی بچ جاتا ہے جو وہ انتشار اور غم کو دور کرنے کے لیے لکھ لیتا ہے۔ہر فرد پریشانیوں اور ذہنی انتشار کا شکار ہے اگر دن میں صرف ایک آدھ گھنٹہ انسان ریڈیو سن لے تو دل اطمینان اور ذہن سکون میں رہے گا۔ مجھ سے رخصت لینے سے پہلے وعدہ لیا کہ ریڈیو ضرور سنو گے۔مجھے مرزا بے تحاشہ یاد آئے۔مرزا کہا کرتے تھے کہ ریڈیو سننے کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ بکواس کرنے والے کی شکل نہیں دکھائی دیتی اور انسان ان گناہوں سے بچ جاتا ہے جو پروگرام سماعتوں کی نذر کرنے والے کی شکل کو دیکھنے کے بعد گالیاں دینے سے اس کے سر چڑھ جاتے ہیں۔
ڈاکٹر کے پاس جانے کے بجائے میں نے غنیمت جانا کہ گھر واپس آیا جائے۔ریڈیو تو گھر میں تین چار تھے اس لیے سیدھے گھر آیا اور جتنے بھی ریڈیو پشتنی تھے جو پڑ دادا ،دادا والد اور میں نے خریدے تھے ڈھونڈنے کی سعی کرنے لگا۔ دس منٹوں میں چار ریڈیو جمع کئے۔ایک کا سوچ آن کرنے کی کوشش کی تو ہاتھ میں آگیا۔ماتھے پر شکن تک نہ آئے اور باقی تین کی طرف بڑی فخریہ انداز میں دیکھا۔دوسرے ریڈیو کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔فون اٹھایا تو دوست کی پرجوش آواز آئی کہ بھائی فلاں ایف ایم اسٹیشن پر ادبی پروگرام چل رہا ہے سنو لو مزہ آئے گا۔پروگرام سننے کے لیے دوسرے ریڈیو کی طرف بڑھا جو دادا جان کی آخری نشانی تھا تو پتا چلا کہ یہ قدیم زمانے کا ریڈیو ہے اس میں ایف ایم وغیرہ نہیں چلتا۔اس کو معتبر نشانی جان کر الگ رکھا اور تیسرے ریڈیو کی طرف ہاتھ بڑھایا۔سوچ رہا تھا کہ دادا جان کا ریڈیو پرانا ہے والد صاحب نے جو ریڈیو لایا تھا اس میں ایف ایم ضرور ہوگا۔ادبی پروگرام سننے میں لطف آئے گا۔تیسرے ریڈیو کو گرم جوشی سے آن کیا۔ریڈیو تو نہیں چلا البتہ یہ انکشاف ہوا کہ ریڈیو کے بیڑی موجود نہیں وہ خراب ہوگئی تھی۔مختصر یہ کہ اس ریڈیو سے بھی تسکین نہ ہوئی اور باری اپنے ہاتھوں خریدے ہوئے ریڈیو کی آئی۔ابھی غصے کا پارہ اتنا بھی نہیں چڑھا تھا کہ اپنے دانت پیس کر گھر سے لے کر ہمسائی اور پھر دنیا کو گالیاں دوں ۔امید کی کرن چوتھے ریڈیو کی صورت روشن تھی۔
جو ریڈیو میں نے خود خریدا تھا اس کو بڑے اہتمام سے الماری میں رکھا تھا۔غلاف صاف ستھری چڑھا کر رکھی تھی۔الماری کھولی ریڈیو کو اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا لیکن حیرانگی ہوئی جب ہاتھ میں خالی غلاف آیا۔غلاف موجود تھی ریڈیو ندارد۔اب ماتھے پر شکن اور خون کی گردش تیز ہوگئی تھی۔اوپر سے یہ خیال پریشان کر رہا تھا کہ ادبی پروگرام کا بڑا حصہ نکل چکاہوگا۔زور دار آواز دے کر گھر والوں کو بلایا اور پولیس کی طرح گھر والوں سے ریڈیو کے غائب ہونے کی پوچھ تاچھ کرنے لگا۔پولیس کے سامنے جوان بھاگے ہوا جوڑا جس طرح مختلف بیانات دیتا ہے ویسے ہی گھر والے مختلف قسم کی دلائل دینے لگے۔سچ ہاہر نکل ہی آتا ہے ۔بار بار کے سوالات سے آخر کار یہ انکشاف ہو ہی گیا کہ ریڈیو کو اغوا کرنے میں بچوں کا ہاتھ تھا۔کھیل کیھل میں بچوں نے ریڈیو کی چیر پھاڑ کر دی تھی اور ایک ایک پرزے کو الگ الگ کر دیا تھا۔دکھ ریڈیو کے ٹونٹے کا نہیں کہ گھروں میں چیزیں ٹوٹتی رہتی ہیں افسوس اس بات کا تھا کہ ایک ادبی پروگرام سن نہ سکا۔پروگرام جوں ہی اختتام ہوا تو دوست نے فون پر یہ جانکاری دی کہ حال ہی میں اپنے پیسوں اور مروت کے دم پر مشہوری پانے والے شاعر بدحالی صاحب کو ادبی پروگرام میں بلایا گیا تھا۔سن کر بڑی مسرت ہوئی اور اللہ کا شکر بجا لایا کہ ریڈیو خراب تھا ورنہ پروگرام سن کر ذہن خراب ہوجاتا۔