تحریر:راجندر کول پریمی
شوراتری دنیا کے ہندوئوں کا ایک مذہبی تیوہار ہے اور تمام دنیا میں رہنے والے ہندو اس متبرک تیوہار کو بہت ہی جوش و خروش اور رات بھر کے پوجا پاٹھ میں مناتے ہیں۔ اس متبرک تیوہار کو شوراتری ہَر راتری اور کشمیر میں عام اصطلاع میں ’’ہیرتھ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہیرتھ دراصل ہر راتری کا بگڑا ہوا کشمیری روپ ہے۔ شو راتری کے لفظی معنی ہیں شو کی راتری یا بھگوان شو کی رات۔ شو کے معنی ہیں کلیان اور کلیان، امن ، شانتی، خوشحالی اور بہتری کے ہیں۔ یہ رات کلیان ، خوشحالی کی ضامن سمجھی جاتی ہے۔ اس رات کو جاگرن کرنا اور رات بھر بھگوان کی یاد، پوجا پاٹھ، آرادھنا اور دھیان میں گذارنا ایک انسان کے لئے توفیق و برکت، کلیان و خوشحالی کی ضمانت مانا جاتا ہے۔ اس رات مذہبی کتابوں کا مطالعہ اور عالم انسانیت کے لئے بلا لحاظ مذہب و ملت، قوم اور ملک بھگوان سے ہر لحاظ سے بہتری خوشحالی، شانتی اور اچھائی کے لئے پرارتھنا کرنا ایک سچے ہندو کا فرض بن جاتا ہے۔ چونکہ ایک ہندو عبادت اور پوجا پاٹھ کے آخر پر خدائے برتر مالک دو جہاں سے ان الفاظ سے التجا کرتا ہے۔
سروے بھونتو سُکھنا، سروے سنتو نرا میہا۔ یعنی میرے بھگوان سب سکھی ہوں۔ سب صحت مند ہوں۔ کسی بیماری میں مبتلا نہ ہوں، سب خوشحال ہوں۔ اور کسی کو بھی کسی قسم کا دکھ نہ ہو۔ اس پرارتھنا پر ہر ایک کے لئے بھلائی کی دعا کی گئی ہے۔ اسکے علاوہ آخر پر ایک اور دعا بھی کی جاتی ہے وہ ہے راجا سستے ، پر جاسستے دیش سستے تتھے وچہ ہ۔ یعنی ملک کا راجا ہر طرح سے خوش ہو، سکھی ہو اور بے غم ہو۔ رعایا (پرجا) بھی خوشحال ہو سکھی اور بے غم ہو۔ اور دیش یعنی ملک بھی خوش حال ہو۔ ہر طرح سے کامیاب ہوں اور کامران ہوں۔ یہاں پر بھی ملک اور قوم کے لئے بلا لحاظ و مذہب و ملت ہر ایک بنی نوع انسان کے لئے دعا کی گئی ہے۔ یہ اس رات کی اہمیت اور تقدس ہے۔
اب سماجی طور پر اس تیوہار کو منانے کے کچھ ایسے طریقے ہیں۔ جن سے اس متبرک دن کے تقدس کو بڑھاوا ملتا ہے۔ یہاں پر میں کشمیر کے سماجی رسم و رواج کا تذکرہ کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ کشمیری پنڈت جو کہ تمام کے تمام برہمن ہیں۔ اس روز اپنے گھروں کو پھاگن مہینے کے اندھیرے پکھواڑے کی پہلی تاریخ یعنی اوکدہ سے صفائی کا آغاز کرتے ہیں مکانوں کی لپائی، صفائی، رنگ و روغن کے علاوہ کپڑوں ں وغیرہ کو دھونے اور دھلانے کا کام شروع ہوتا ہے۔ اور اس پکھواڑے کی تیرہویں کو شو راتری کا مقدس تہوار منایا جاتا ہے۔ شو راتری کا یہ مقدس تہوار منانے کا تذکرہ کشمیر کی سب سے قدیم پہلی تواریخ ’’نیلمت پران‘‘ میں ملتا ہے۔ کشمیر وادی میں یہ مقدس تہوار ہزاروں سال پہلے یعنی ستی سر میں بستی کے آباد ہونے کے وقت سے منایا جاتا رہا ہے۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس مقدس تہوار نے قومی یکجہتی کی شکل بھی اختیار کی ہے۔ دوسرے مذاہب کے لوگ مسلمانوں کے بڑے بڑے مذہبی تہواروں یعنی دو عیدوں اور عید میلاد وغیرہ کے دنوں میں جس طرح ہندو بھی خوشی کا اظہار کرکے اپنے ہم وطنوں کو مبارک باد پیش کرتے ہیں اور خوشی میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح کشمیر میں یہاں کی اکثریت یعنی مسلمان بھائی اپنے ہندو بھائیوں کو اس متربک بڑے دن کے دوسرے دن یعنی رات کے وقت پوجا پاٹھ سے فارغ ہونے کے دوسرے دن مبارک دینے کے لئے ہندوئوں کے گھروں میں جاتے ہیں۔ اور دعا و سلام پیش کرتے ہیں۔ کئی صدیوں سے اس دوسرے دن کو عام کشمیری اصطلاع میں ’’سلام‘‘ کہتے ہیں۔ یعنی یہ دوسرا دن دعا سلام کا دن تصور کیا جاتا ہے۔ اور آج تک یہ رسم ملی جلی روایت صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ جو کہ ہماری قومی یکجہتی اور آپسی میل و ملاپ اور بھائی چارے کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہے۔
کئی ہندو شو راتری کو بھگوان شو کی شادی (وواہ) کی رات سے بھی منسوب کرتے ہیں۔ اور گھروں میں طرح طرح کے دیوی دیوتائوں وغیرہ کا آواہن (استقبال) کرنے کے لئے مختلف روایات کے مطابق کئی قسم کے برتنوں کی ترتیب دیتے ہیں۔ ایک گھڑے میں اخروٹ بھرتے ہیں دوسرے برتنوں میں بھی مختلف قسم کی دوسری مقدس اشیاء بھر کر پوجا پاٹھ کیا جاتا ہے دو دو تین تین دن (اپنی اپنی نیجی روایت کے مطابق پوجا پاٹھ کے بعد سِسر جن (الوداع) کیا جاتا ہے۔ مختلف برتنوں کے اس رکھ رکھا و اور سجاوٹ کو ہندو اصطلاع میں وٹک کہا جاتا ہے۔ اور اس رسم کو وٹک راز بھر نا یا وٹک بھرنا کہتے ہیں۔ آخری دن ان پانی میں رکھے ہوئے اخروٹوں کو تبرک یعنی نوید کے طور پر رشتہ داروں ہمسایوں اور دوستوں وغیرہ میں بانٹا جاتا ہے۔ خوشحالی ، سکھ اور شانتی کی دعا کی جاتی ہے۔
کشمیر کے ایک مشہور و معروف مسلمان حاکم علی مرداں خان کے اس وٹک کا درشن خواب میں کرکے فارسی زبان میں دعا (نعت) یا لیلا قلم بند کی ہے۔ جو کہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی زندہ جاوید ہے۔ اور جس کا مطلع ہے اوما اصل مہیشور بود۔ شب شا ہے کہ من دیدم۔ یعنی آج میں نے اوما اور مہشیور (بھگوان شو اور اسکی رفیق حیات اوما کے درشن میں نے آج رات کئے وغیرہ وغیرہ) اسی طرح ایک اور واقعہ کا ذکر بھی کرنا برمحل ہوگا۔ روپہ بھوانی کے والد مادھو جو دھر کو نواکدل کے اس پار اس وقت کے مسلمان قلندر اور محویت خدائی میں مست ٹھگ بابا صاحب نے شورارتری کے دن اپنے مکان کے ایک کمرے میں ہی بھگوان شو، اوما اور اس کے پروار (کنبہ) کے تمام افراد کے درشن کرائے۔ یہ ہے ہماری شو رارتری کا مقدس اور قومی یکجہتی کی اہمیت۔
