تعلیم ایک بہت بیش قیمت زیور ہے۔جس سے آراستہ ہونا ہر مرد و خاتون کے لیے ضروری ہوتا ہے، یہ تعلیم انسان کو درجہ بدرجہ اپنے اساتذہ کرام سے ملتی رہتی ہے جس کے حصول میں جہاں کء ساری چیزیں کارفرما ہیں وہیں سب سے اہمیت کی حامل یہ تعلیمی ادارے ہیں۔ یہ تعلیمی ادارے طلبہ کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں جہاں سے طلباء تعلیم و تربیت سے آگاہی حاصل کرتے ہیں۔تعلیم سماج کی دونوں طبقے کے لیے ضروری ہے جن میں امیر غریب دونوں آتے ہیں، آج کل جہاں سرکار کی طرف سے ان گنت تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے تاکہ عوام تک بہتر سہولیات فراہم کی جا سکیں اور غریب امیر دونوں کے بچے تعلیم تک رسائی حاصل کرسکیں،وہیں پر گزشتہ کئی دہائیوں سے سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ اداروں کا قیام بھی عمل میں آیا جہاں پر بچوں کو کافی اچھی اور معیاری تعلیم دی جاتی تھی۔ سرکاری اداروں میں سارا دارو مدار سرکار پر ہوتا ہے اور سرکار تعلیمی قابلیت کے بل بوتے پر وسائل کو دیکھ کر اساتذہ کا تعین کرتی ہے،جس کی وجہ سے کئی جگہوں پر اساتذہ کرام کی آسامیاں خالی ہوتی ہیں اور اساتذہ کی قلت ہونے کی وجہ سے بچوں کو تعلیم صحیح معنوں میں نہیں مل سکتی۔ لیکن اب تیز رفتار کے ساتھ نظام بدلتا جا رہا ہے اور سرکاری اداروں میں اکثر و بیشتر جگہوں پر اساتذہ کی کافی تعداد دیکھنے کو ملتی ہے، وہیں پر اکثر جگہوں پر کبھی کبھار کمی بھی رہتی ہے۔
پرائیویٹ اسکولوں کی آمدنی کا دار و مدار لوگوں کی جیبوں پر ہوتا ہے اور اکثر دیکھا جاتا ہے کہ غریبوں کے بچوں کی رسائی ان اسکولوں تک کم ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی مزدور پیشہ حضرات کافی جدوجہد اور محنت کرکے اپنے بچوں کوان اسکولوں تک پہنچاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اس رغبت اور لالچ نے عوام کا بری طرح استحصال کیا ہے۔ عوام کی شکایات رہتی ہیں کہ اب پرائیویٹ اسکول تجارتی مراکز بن گئے ہیں، جہاں پر غریبوں کے بچوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ان اداروں کے ملازمین کی تنخواہوں اور باقی تمام تر اخراجات کا دارومدار عوام سے حاصل کئے گئے پیسوں پر ہی ہوتا ہے لیکن عوام سے اس قدر مانگ کرنا جو وہ ادا نہ کرسکیں یہ قابل مذمت ہے۔ کیونکہ اس سے سماج میں غرباء اور امراء میں تقسیم ہو جاتی ہے اور غریب اور انکے بچے احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔
آج کل پرائیویٹ اداروں کی جانب سے کئی سارے ایسے منفی اقدامات کیے جا رہے ہیں جن کی وجہ سے عوام کا اعتماد اٹھ گیا ہے،،جن میں بچوں سے فیس اور ماہانہ ٹیوشن کی شکل میں من مانی رقمیں وصول کرنا جو وہ ادا کرنے سے قاصر ہیں، اس کے علاوہ بچوں کو ان کی گنجائش ان کی برداشت سے زیادہ کتابیں لانے کو کہنا اور بچوں کے والدین کو مخصوص جگہوں سے وردی اور دیگر اسٹیشنری کا سامان وغیرہ خریدنا ہوتا ہے، جو عوام کے لئے اذیت اور درد سر سے کم نہیں ہے۔اسٹیٹ لائین کے نیوز اینکر جنید احمد کا کہنا ہے کہ یہ من مانیاں عوام کے لئے درد سر بنی ہوئی ہیں،ارڈر تو نکلتے ہیں لیکن ان کو زمینی سطح پر لاگو نہیں کیا جاتا اور اس چیز کو لے کر والدین کو بھی مستعد رہنا چاہیے کہ اگر کوئی معقول فیس سے زیادہ مانگے یا کتابیں زیادہ خریدنے کا کہے تو اسکے خلاف شکایات درج کروائی جائیں۔وہیں محمد اعظم کا کہنا ہے کہ بچوں کو بیس سے زیادہ کتابیں کاپیاں اٹھا کر لے جانے ہوتی ہیں جو ان کی عمر کے مقابلے زیادہ بوجھ ہوتا ہے اور بعض اوقات ان بچوں کی کمر میں درد ہونے لگتا ہے۔ بچوں کے والدین کو بعض اوقات مخصوص جگہوں پر سے کتابیں لینے کا کہا جاتا ہے۔ بچوں کو بھاری بھرکم بوجھ اٹھانا پڑتا ہے جس کی وجہ سے بچوں کا دل پڑھائی سے اٹھ گیا ہے اور اور وہ سکول جانے سے ڈرتے ہیں۔
سماج میں ایک تقسیم ہوگئی ہے امیروں کے بچے پرائیویٹ اسکولوں میں اور غریبوں کے بچے سرکاری اداروں میں۔ ایک اور سماجی کارکن ذاکر حسین عمر چالیس کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں بالخصوص پرائیویٹ اسکولوں کی من مانییوں نے عوام کا استحصال کیا ہوا ہے اور عوام کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں۔جہاں من مانی رقمیں وصول کی جاتی ہیں۔ بچوں کو ان کی برداشت سے زیادہ کتابیں دی جاتی ہیں حالانکہ وہ کتابیں بورڈ کی طرف سے مقرر شدہ نہیں ہوتی ہیں۔غریبوں کی رسائی پرائیویٹ سکولوں تک رہی نہیں ہے۔ سرکاری حکم نامے کے باوجود ان کو لاگو نہیں کیا جاتا ہے اور ان کا صحیح طریقے سے زمینی سطح پر ان قوانین کو لاگو نہیں کیا جاتا ہے۔یقینا یہ تعلیمی ادارے حصول علم کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن اس دور میں یہ تجارتی مراکز بن گئے ہیں۔ کچھ ادارے جو مخلص اور صحیح طور پر کام کرتے ہیں ان کا نام بھی ایسے فراڈ کرنے والے کچھ اداروں کے منتظمین کی وجہ سے بد نام ہے۔ پڑھائی کے نام پر عوام اور بچوں کا استحصال کیا جاتا ہے۔ بچوں کو صحیح سے تعلیم کے بجائے صرف ان پر کتابیں لاد دی جاتی ہیں اور ان سے رقمیں وصول کی جاتی ہیں۔عوام کو چاہیے کہ سرکاری اداروں میں بھی اپنے بچوں کو داخل کروائیں تاکہ یہ تعلیمی ادارے اپنی من مانییوں سے رک سکیں۔ اس دور میں غریب آدمی کے لیے بچے پیدا کرنا ایک مصیبت سے کم نہیں کیونکہ ان کے تعلیمی اخراجات کی طرف دھیان دیا جاتا ہے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ بچوں کو صرف سوالات و جوابات اور مختلف پروگرامز میں اچھا پرفارم کرنے کے لئے تیار کیا جاتا ہے جب کہ اگر عام آدمی کے بچوں کی حالت دیکھی جائے تو ویسے کے ویسے ہی ہیں اور ان کو صحیح طریقے سے اپنی کتابوں پر اور اپنے مضامین پر عبور حاصل نہیں ہوتا ہے ہے۔ یہ بہت ضروری کام ہے ورنہ عام آدمی پڑھائی کروانے سے بھی دوری اختیار کرے گا اور ناخواندگی کی شرح میں اضافہ ہوگا۔ (چرخہ فیچرس)