تحریر:سید مجاہد علی
پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اس وقت بھارت کے شہر گوا میں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شریک ہیں۔ تاہم ملک میں اس دورہ کی مخالفت میں آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری نے ایک ٹویٹ میں اس دورہ کی مذمت کی ہے اور اس عذر کو مسترد کیا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کو شنگھائی تعاون تنظیم جیسے اہم فورم میں شرکت کے لئے اس موقع پر گوا میں ہونا چاہیے تھا۔
انہوں نے اس دورہ کو ’مودی کی محبت میں کشمیریوں پر اور اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کو نظر انداز‘ کرنے کے مماثل قرار دیا ہے اور اس کی مذمت کی۔ تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے البتہ متوازن اور ہوش مندانہ طرز عمل اختیار کیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف علاقائی تعاون کے نقطہ نظر سے ایس سی او کے اجلاس میں شرکت کو اہم قرار دیا بلکہ پاکستانی وزیر خارجہ پر زور دیا کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارتی ہم منصب جے شنکر سے غیر رسمی ملاقات کریں اور دونوں ملکوں کے تعلقات میں سرد مہری ختم کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا جائے۔
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اس موقع پر بلاول بھٹو زرداری بھارتی وزیر خارجہ سے انسانی حقوق کی صورت حال اور کشمیر میں ہونے والے مظالم پر بھی بات کرسکیں گے۔ تاہم وزیر خارجہ نے بھارت روانگی سے قبل ہی واضح کر دیا تھا کہ وہ بھارتی ہم منصب سے ملنے کا ارادہ نہیں رکھتے اور نہ ہی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی درخواست کی گئی ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کو گوا روانگی سے قبل یہ بیان ان عناصر کے بیانیہ کو کمزور کرنے کے لئے دینا پڑا جو حکومت پر قومی مفادات اور کشمیریوں کے حقوق پر سودا کرنے کا الزام لگاتے ہیں اور جن کی نمائندگی فواد چوہدری نے اپنے تند و تیز ٹویٹ میں کی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان اختلافات اور تنازعہ کی طویل تاریخ ہے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں موجودہ تعطل کی بنیادی وجہ بھارت کا رویہ اور وزیر اعظم نریندر مودی کی سخت گیر پالیسیاں ہیں۔
تاہم بین الملکی تعلقات کو محض الزام تراشی سے طے کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ کشیدگی کم کرنے اور معاملات کی درستی کے لئے باہمی رابطہ اور مواصلت اہم ترین طریقہ ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے داخلی سیاسی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے ایٹمی اسلحہ سے لیس برصغیر کے یہ دونوں ممالک ایسے مواقع پیدا کرنے کی بجائے انہیں ضائع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پاکستانی وزیر خارجہ نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لئے گوا جانے کا فیصلہ کر کے حوصلہ مندی کا ثبوت دیا ہے۔ اس موقع پر وہ اہم دوست ممالک سے بات چیت کے ذریعے باہمی تعلقات مستحکم کرنے کی کوشش کرسکیں گے اور مناسب موقع پر کشمیر اور دیگر علاقائی معاملات پر پاکستان کی پوزیشن بھی واضح کر سکتے ہیں۔ کسی اہم فورم سے محض بھارت دشمنی میں دوری اختیار کرنا درست خارجہ پالیسی نہیں ہو سکتی۔ بلاول بھٹو زرداری کا یہ بیان مناسب اور قابل غور ہے کہ ’بھارت کو ہر فورم پر پاکستان کو تنہا کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی‘ ۔
اس دورہ پر سیاسی ضرورتوں کے لئے تنقید کرنے والے اور غیر ضروری طور سے عوام کو مشتعل کرنے والے عناصر کو ضرور اس پہلو سے بھی معاملہ کا جائزہ لینا چاہیے۔ کوئی بھی ملک اپنے ہمسائے خود نہیں چنتا۔ بلکہ ہمسایہ ممالک جیسے بھی ہوں، ان کے ساتھ بہتر تعلقات کے ذریعے ہی علاقائی اور عالمی امن میں معاونت کی جا سکتی ہے۔
یہ دلیل فرسودہ اور ناقابل قبول ہے کہ بھارت کی کشمیر پالیسی کی وجہ سے پاکستان کو اس وقت تک نئی دہلی کے ساتھ تعلقات ختم کردینے چاہئیں اور بات چیت کا ہر موقع ضائع کرنا چاہیے جب تک بھارت مقبوضہ کشمیر کے بارے میں اپنی پالیسی تبدیل نہیں کرتا۔ پاکستان کی موجودہ حکمت عملی تحریک انصاف کی سابق حکومت کے دور میں وضع کی گئی تھی۔ 5 اگست 2019 کو مودی حکومت نے یک طرفہ اقدام کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کردی تھی اور اسے وفاق کے زیر انتظام علاقہ قرار دیا تھا۔
عمران خان کا موقف تھا کہ بھارت جب تک اس آئینی تبدیلی کو منسوخ نہیں کرے گا، اس کے ساتھ کسی بھی سطح پر کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ بدقسمتی سے اس بھارتی اقدام سے پہلے بھی دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات تعطل ہی کا شکار تھے کیوں کہ بھارت پلوامہ حملہ کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کرتے ہوئے اسے دہشت گردوں کا سرپرست قرار دیتا رہا ہے۔ 5 اگست 2019 کے بعد پاکستان نے بھی یہ اعلان کرنا شروع کر دیا کہ جب تک مودی حکومت اپنے ظالمانہ اور کشمیر دشمن فیصلے واپس نہیں لیتی، اس وقت تک بھارت کے ساتھ کسی سطح پر مواصلت ہوگی اور نہ ہی تجارت کی جائے گی۔
بھارت اور کشمیر کے سوال پر پاکستان میں چونکہ رائے عامہ ایک خاص ڈھب سے تیار کی گئی ہے اور دونوں معاملات پر دلیل یا حقائق کی بنیاد پر فیصلے کرنے کی بجائے جذباتی نعروں کے ذریعے باہمی تعلقات کو سرد مہری کی طرف دھکیلا جاتا ہے، اس لئے جب گزشتہ سال شہباز حکومت نے اقتدار سنبھالا تو بھارت کے حوالے سے سابقہ حکومت کی پالیسی جاری رکھی گئی۔ حالانکہ نواز شریف دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری لانے اور پاک بھارت تجارت کو وسیع کرنے کی حکمت عملی اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے پاکستان کی نئی حکومت نے بھی ایک ناکارہ اور ناقابل عمل پالیسی کو جاری رکھا۔ سرکاری طور سے اب بھی یہی پاکستان کی پالیسی ہے کہ بھارتی حکومت جب تک کشمیر کی آئینی حیثیت 5 اگست 2019 سے پہلے والی پوزیشن پر واپس نہیں لاتی تو نئی دہلی سے کسی قسم کی کوئی بات چیت نہیں ہو سکتی۔
چار سال کی مدت میں پاکستان کی اس پالیسی سے بھارتی طرز عمل کو تبدیل نہیں کروایا جا سکا۔ اس کے باوجود اسلام آباد کا دعویٰ ہے کہ وہ بھارت کو ’تنہا‘ کر کے اور اس کے ساتھ تعلقات کو تعطل کا شکار رکھ کر نئی دہلی کو پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ اول تو عملی طور سے پاکستان کی یہ کوشش ہی نہیں بلکہ گزشتہ ساٹھ ستر سال کے دوران کشمیر میں استصواب رائے کا مطالبہ بھی پورا نہیں کروایا جا سکا۔ حالانکہ اس معاملہ پر تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں بھی موجود ہیں اور دنیا کے بیشتر ممالک زبانی ہی سہی، اس پوزیشن کو درست تسلیم کرتے ہیں۔
اس کے باوجود نہ تو بھارت کو کسی عالمی فورم پر پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور نہ ہی کسی ملک نے کشمیر پر اس کی پالیسی کی وجہ سے اس سے تعلقات ختم کرنے کی ضرورت محسوس کی ہے۔ بلکہ گزشتہ چند برسوں کے دوران عرب ممالک نے بھارت کی تیزی سے پھیلتی ہوئی معیشت میں حصہ دار بننے کے لئے نئی دہلی سے متعدد اہم منصوبوں کے معاہدے کیے ہیں۔ پاکستان اگر حقائق کے اس آئینے میں صورت حال کا جائزہ لینے کی کوشش کرتا تو اسے ایسی ناکارہ پالیسی کو تبدیل کرنا چاہیے تھا جس کا ابھی تک کوئی فائدہ نہیں ہوسکا اور نہ ہی اس طریقے سے مستقبل قریب میں بھارت کو پاکستان کا کوئی بھی مطالبہ منظور کرنے پر مجبور کرنے کا امکان ہے۔
کسی پالیسی کی ناکامی کو مان لینا اور متبادل طریقے اختیار کرنا ہی عقلمندی کا تقاضا ہوتا ہے لیکن پاکستانی سیاست چونکہ عوام کو حقائق سے نابلد رکھ کر بعض نعروں کی بنیاد پر استوار کی گئی ہے، اس لئے بھارت سے دوستی کی بجائے بھارت دشمنی کا چورن بیچنے کا ہر نسخہ اختیار کیا جاتا ہے اور اسے مقبولیت بھی حاصل ہوتی ہے۔ تاہم پاکستان کے وسیع تر مفادات کا تقاضا ہے کہ اس یک طرفہ اور ناکام خارجہ پالیسی کو تبدیل کیا جائے۔
جو مقصد دشمنی نبھانے اور جنگیں کرنے سے حاصل نہیں ہوسکا، اسے دوستی، مواصلت، سفارت کاری اور تجارت کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ درست طرز عمل ہو گا اور اسی کے نتیجہ میں بھارت پر کشمیریوں یا بھارتی مسلمانوں کے حقوق کے حوالے سے دباؤ بھی ڈالا جا سکے گا۔ کوئی بھی ملک اسی وقت رعایت دینے پر آمادہ ہوتا ہے جب تک نرمی نہ دکھانے کی صورت میں اسے بڑا نقصان اٹھانے کا اندیشہ ہو۔ پاکستان اگر بھارت سے الگ تھلگ ہو کر خود اپنے گھر میں روٹھ کر بیٹھ جائے گا تو نئی دہلی کو اسے منانے اور رعایت دینے کی کیا ضرورت ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ بھارت کے بعض اہم مفادات کو پاکستان کی خوشنودی سے منسلک کیا جائے۔ ان میں اہم ترین علاقائی مواصلت و تجارت کے مفادات ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم اس حوالے سے اہم ترین فورم ثابت ہو سکتا ہے۔ اس تنظیم کے اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کر کے پاکستان نے درست اقدام کیا ہے۔ بلکہ دونوں ملکوں کے تعلقات کو کسی فورم یا تنظیم کا محتاج رکھنے کی بجائے اب براہ راست مذاکرات اور ایک دوسرے کی پوزیشن سمجھ کر کوئی متوازن راستہ تلاش کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ معاشی تعاون کے موجودہ دور میں پاکستان اور بھارت جیسے ممالک ایک دوسرے سے دوستی کی بجائے دشمنی بڑھا کر کسی اور کا نہیں بلکہ اپنے غریب عوام ہی کا نقصان کر رہے ہیں۔