
تواریخ گواہ ہے کہ خطہ کشمیر میں اسلام کی اشاعت بزرگان دین و اولیاء کاملین کی محنت و مشقت کی وجہ سے ہی ممکنہو پائی ہے ۔ ان اللہ کے نیک بندوں کی اکثریت بیرون ممالک سے یہاں تشریف لائیں ہیں ۔ لیکن ان کی اچھی خاصی تعداد نے اس خطے میں ہی جنم لیا ہے ۔ شیخ نور دین ولی رح ، شیخ حمزہ مخدوم رح ، علامہ بابا داوود خاکی رح وغیرہ وغیرہ نے یہاں کی پرفضاء و پر رونق جنت بےنظیر کہلانے والے خطے میں ہی جنم لیا ہے ۔ ان گنت دشواریوں اور کٹھن حالات کے باوجود بھی یہ اللہ کے برگزیدہ بندے اپنے مشن پر چٹان کی طرح مستقل طور قایم رہے اور اللہ کا کلام اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات لوگوں تک اور گھر گھر پہنچانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی ہے ۔ اس میں کوئی شک ہی نہیں ہے کہ اللہ نے اس سرزمین کو اولیاء اللہ اور دوستان خدا کے زریعہ ہی دارالاسلام بنایا ۔ اولیاء اللہ جہاں کے مالک ہیں ، آسمان سے بارش اور رحمت ان کے قدموں کی برکت سے نازل ہوتی ہے اور ان ہی کی صفائی قلب اور اخلاص عملکی بدولت زمین سے نباتات اگتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں اس خطے کو اپنی بے مثال قدرتی خوبصورتی کی وجہ سے پورے آفاق میں اپنا ایک منفرد مقام حاصل ہے وہیں اس خطے کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ یہ خطہ پچھلے کئی صدیوں سے صوفی سنتوں اور ریشیوں کا مسکن رہا ہے ۔ ان ہی کی بدولت یہاں کی آبادی مشرف بہ اسلام ہوئی ہے ۔ کشمیر کے جس علاقے اور کونے میں جاییں وہاں ان اللہ کے نیک بندوں کے مزارات موجود ہیں ۔
اسلام آباد قصبہ میں بھی ایک باکمال ولی اللہ کی زیارت موجود ہے جو پچھلے چار سو سالوں سے مسلمانوں و فرزندان توحید کے عقیدت کا مرکز رہا ہے ۔ یہ زیارت حضرت بابا حیدر ریشی المعروف ریشہ مول صاحب رحمۃ اللہ کی ہے ۔ بابا حیدر ریشی رح ایک بلند مرتبہ بزرگ اور اولیاء گزرے ہیں ۔ ریشہ مول صاحب رح آہنگر قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے اور ضلع اننت ناگ کے دانتر نامی گاؤں میں پیدا ہوئے ۔ وہ ایک مادر زاد ولی اللہ تھے ۔ ریشہ مول صاحب رح کے بارے میں حضرت شیخ نورالدین نورانی رح نے برسوں پہلے پیشنگوئی کی تھی کہ ان کے وصال کے ایک سو سال بعد ایک بلند پایہ بزرگ پیدا ہوں گے جو مادر زاد ولی اللہ ہوں گے ۔ ریشہ مول صاحب کو بچپن سے ہی خدا پرستی کا زوق وشوق تھا ۔ ریشہ مول صاحب درویشوں کے اس فرقے سے تعلق رکھتے تھے جو نفس کشی اور اللہ کی یاد جنگلوں اور بیابانوں میں اور آبادی سے بہت دور رہ کر کرتے ہیں ۔ ریشی کے تمام فرقے سلسلہ کبروی سہروردی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ریشہ مول صاحب ایک بڑے عابد اور زاہد تھے ۔ کسی شیخ سے بظاہر ارادت نہیں رکھتے تھے ۔ ریشہ مول صاحب رح نے حضرت سلطان العارفین شیخ حمزہ مخدوم رح سے بیعت کی تھی اور ان کے خاص خلیفوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ اس مرد قلندر کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ حضرت شیخ حمزہ رح خود ان کی تربیت کے لیے ان کے پاس اننت ناگ تشریف لائے۔ جب الہام کے ذریعہ ریشہ مول صاحب کو پتہ چلا کہ حضرت ان کے ہاں تشریف لا رہے ہیں تو خود استقبال کے لئے نکلے ۔ غالباً کھنہ بل کے قریب جب دو دوست خدا ملے تو ریشہ مول صاحب نے ایک پیالہ جس میں دودھ تھا پیش کیا یعنی موصوف ایک مکمل ولی اللہ ہیں ۔ اس پر شیخ حمزہ نے گلاب کا ایک پتا نکال کر دودھ پر رکھ دیا۔ ریشہ مول صاحب رح تمام رات قیام اور اللہ کی یاد میں گزارتے تھے اور دن میں بھی محو عبادت رہتے تھے ۔ ریشہ مول صاحب رح کو خلق محمدی اور مہمان نوازی کا رتبہ کمال درجہ کا حاصل تھا ۔ تواریخ دان رقمطراز ہیں کہ ایک دفعہ ان کے بچپن کے زمانہ میں ایک مہمان ان کے گھر تشریف لے گیا ۔ مہمان کے لئے ریشہ مول صاحب رح کی والدہ نے بازار سے ایک مچھلی خریدکر لائی ۔ اچانک ایک چیل وہاں سے گزری اور اس مچھلی کو لے گئی ۔ ماں نے اس واقعہ کا زکر آپ سے کیا ۔ ریشہ مول صاحب رح نے فرمایا رذق دینے والے نے اگر یہ مچھلی ہمارے مقدر میں رکھی تھی تو چیل نے کیوں اسے لیا ۔ یہ بات ماں بیٹے کے درمیان ہو ہی رہی تھی کہ چیل نے واپس آکر مچھلی طشت میں رکھ دی ۔ ایک دفعہ آپ اپنے مرشد حضرت سلطان العارفین شیخ حمزہ مخدوم رح کے ساتھ ان کے دوسرے اور خاص خلیفہ حضرت میربابا حیدر تولہ مولی رح کے پاس تولہ مولہ گاندربل تشریف لے گئے ۔ راستے میں شیخ حمزہ مخدوم رح کو خیال آیا کہ آج کھانے میں ایک تازہ تلی ہوئی مچھلی ہونی چاہیئے اور اس کا زکر ریشہ مول صاحب رح سے بھی کیا ۔ جب دونوں حضرات تولہ مولہ گاندربل پہنچے تو میر بابا حیدر رح نے علیک سلیک کے بعد ہی دونوں حضرات کے لئے طشت میں دو تلی ہوئی تازہ مچھلیاں رکھی ۔ یہ ہوتا ہے کمال ان اللہ کے پیارے اور نیک بندوں کا جو صرف اور صرف محبت ، پیار ، اخوت اور بھائی چارے کا درس دیتے ہیں ۔ حضرت شیخ حمزہ مخدوم رح کے خلیفہ اول حضرت بابا داوود خاکی رح نے اپنی شہکار تصنیف وردلمریدین میں ریشہ مول صاحب رح کے کمالات، حکایات اور کرامات کا زکر کیا ہے ۔جب بابا داوود خاکی رح نے وردلمریدین مکمل کی تو اپنے مرشد پاک کو دکھائی ۔ شیخ حمزہ رح نے کتاب دیکھ کر بابا داوود خاکی کو کہا ” اتنی بڑی کتاب لکھنے کی ضرورت نہیں تھی بس اتنا لکھنا تھا کہ حضرت بابا حیدر ریشی المعروف ریشہ مول صاحب ان کے خلیفہ ہیں ۔ ریشہ مول صاحب کے بلند مرتبہ ولی اللہ ہونے کا تب پتہ چلا جب وہ ایک لوہار کے دوکان پر کام کر تا تھا۔ ایک دن ایک عمر رسیدہ عورت دوکان پر کوئی چیز خریدنے کی غرض سے آیی ۔ دوکاندار نے اسے دودھ مانگا اور ریشہ مول صاحب کو اس کے ساتھ بھیجا۔ گھر میں گاے تھی لیکن دودھ نہیں دے رہی تھی۔ عورت نے کافی کوشش کی لیکن گاے نے دودھ نہیں دیا ۔ ریشہ مول صاحب نے خود گاے کو چھوا اور دودھ نکالنا شروع کیا۔ عورت کے گھر میں جتنے بھی مٹی کے برتن تھے وہ دودھ سے بھر گئے اور یہ کرامت پورے علاقے میں جنگل کے آگ کی طرح پھیل گئی ۔ ریشہ مول صاحب رح کا وصال مبارک یکم زی قعدہ ٩٨٦ ھ میں ہوا ۔ آپ اسلام آباد قصبہ کے وسط میں مدفون ہیں اور زیارت شریف پر ہر روز دن بھر عقیدت مندوں کا تانتا بندھا رہتا ہے ۔ ان کے عرس کے ایام کے دوران پورے خطے میں احترام” گوشت وغیرہ پر مکمل قدگن رہتی ہے کیونکہ انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی گوشت تناول نہیں کیا تھا ۔ اپنے مرشد پاک شیخ حمزہ مخدوم رح کی طرح نکاح نہیں کیا تھا ۔ اللہ ہمیں ان اللہ کے نیک بندوں کے دکھائے ہوئے رستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔۔۔۔۔