تحریر:سیدہ عطیہ تبسم
"حال ہی میں ضلع کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک بارہویں جماعت کے طالب علم کی ماں کو پڑا دل کا دورہ اور اس دنیائے فانی سے چل بسی۔ اچانک موت کی وجہ بیٹے کی امتحانات میں ناکامی بتائی جا رہی ہے”۔
اس طرح کی سرخیاں پڑھ کر ہر شخص کی روح کانپ اٹھتی ہے اور دل مچل جاتا ہے۔ ان واردات کی وجوہات کو تلاشنا اور جڑ سے ختم کرنا شاید آج کے انسان کی معراج ہے۔ آج کل مختلف امتحانات کے نتائج سامنے آرہے ہیں چاہے وہ بارویں جماعت کے نتائج ہوں یا پھر نیٹ کے ریزلٹس results ہوں ۔ ہر بار کی طرح رزلٹ شاندار رہا ہے ۔ اکثر طالب علم مبارکبادیاں وصول کرنے میں مشغول ہیں۔ کوئی بچہ پہلی پوزیشن حاصل کرنے پر نیوز چینل کی رونق بنا بیٹھا ہے، تو کوئی اپنے گھر میں اچھے نمبرات حاصل کرنے کی وجہ سے موضوعے گفتگو ہے۔ جو بچے محنت کرتے ہیں اور پھر ٹاپ پوزیشنز( top positions) حاصل کرکے اپنے گھر والوں کا نام روشن کرتے ہیں وہ بے شک مبارکباد کے حقدار ہیں اور انہیں سرہانہ ہمارا فرض ہے- مگر موجودہ حالات نے ان نمبرات کو ملک الموت بنا رکھا ہے ۔استاد والدین گھر کے بڑے اور ہر شخص اپنے بچوں کا مقابلہ کروانے میں لگا ہوا ہے ۔ اپنے بچوں کی مارکس شیٹ کو (نعوذ باللہ) وہ درجہ دیا جا رہا ہے جو اللہ تبارک و تعالی قیامت کے دن ہمارے نامہ اعمال کو دیں گے۔ یہی نہیں اب تو یہ تقابلی منظر والدین میں دیکھا جا رہا ہے۔ یہ ٹاپر کے پیرنٹس ہیں اور وہ فیلیئر کے۔ اس طرح کے جملے عام ہو رہے ہیں۔
جب میں چھوٹی تھی تو ہمارے ہمسایہ میں ایک دسویں جماعت کے طالب علم نے خودکشی کر لی تھی ،صرف اس وجہ سے کہ اس کے گریڈس تھوڑے سے کم تھے ۔ وہ دن ہم سب کے لئے کسی سیاہ شب سے کم نہیں تھا۔ ہر کوئی سوگ منا رہا تھا ، آنسو بہا رہا تھا اور اس بچے کی صلاحیتوں کا تذکرہ کیے جارہا تھا۔ تب مجھے سمجھ نہیں آئی تھی کہ پورا گاؤں کیوں دکھ میں ہے مگر آج غور کرتی ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب کہیں نہ کہیں اس لڑکے کے قتل میں شامل تھے ۔ وہ خودکشی نہیں تھی بلکہ سماج کی طعنوں اور باتوں سے کیا گیا قتل تھا۔
نہ جانے کیوں ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم اکیسویں صدی میں ہیں۔ جہاں انسان کو اس کی مارکس شیٹ سے کوئی مقام نہیں دیا جاتا بلکہ صلاحیتوں کو پرکھا جاتا ہے ۔یہ سکل اورینٹڈ (skill oriented) دور ہے۔ یہاں نہ ماضی میں حاصل کیے گئے نمبرات دیکھے جاتے ہیں نہ ہی کسی شخص کی عمر دیکھی جاتی ہے، بس حال میں میں ایک شخص کیا کر سکتا ہے اور کیا کر رہا ہے یہ اس کے مستقبل کو سنوارنے کے لیے کافی ہے۔ اچھے نمبرات حاصل کرنا گناہ نہیں ہے مگر ان حقیر نمبرات کو زندگی اور موت کا فیصلہ کرنے دینا ایک احمقانہ حرکت ہے۔ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ چند دنوں کے بعد ہمارے گریڈس کسی کو یاد تک نہیں ہوتے۔ یہ ایچ ڈی ورلڈ(HD world ) ہے۔ یہاں کس کو فرصت ہے کہ ہمارے گریڈ یاد رکھتا پھرے ۔ میں نے 12ویں جماعت میں پوری وادی میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی اور بے شمار مبارکبادیاں وصول کی تھی۔ مگر آج شاید میرے گھر والوں کو بھی یاد نہ ہو گا کہ میری پرسنٹیج کیا تھی۔ ہاں میں نے اس کے بعد کیا کیا ، اب کیا کر رہی ہوں اور آگے کیا کر سکتی ہو یہ ان کے لئے اہم ہے۔
کسی کا نیٹ کوالیفائی نہیں ہورہا ہے وہ خود کشی کر رہا ہے ، کسی کے گریڈس اچھے نہیں ہیں وہ انزائٹی اور ڈپریشن کا شکار ہو رہا ہے، کوئی بارہویں جماعت میں میں ناکام ہو جاتا ہے تو اس کی ماں دل کا دورہ پڑنے سے مر جاتی ہے۔یہ کم سے کم دور جدید کے انسانوں کی حرکتیں نہیں ہونی چاہیے۔ یہ زندگی ایک عظیم نعمت ہے اور اس کی قدر کرنا ہر انسان پر فرض عین ہے ۔ ایک مارکس شیٹ کسی انسان کی قابلیت کو ڈیفائن نہیں کرسکتی ہے۔ زندگی کی کامیابی اور ناکامی چند مارکس کی محتاج نہیں ہے ۔ زندگی کوئی ریس تو نہیں ہے جہاں ہر شخص دوسرے سے مقابلہ کرتا پھرے۔ یہ تو ایک لمبی میرستھون (marathon) ہے جہاں ہم خود سے لڑ کر جیتنے کی سعی کر رہے ہوتے ہیں۔ اس میں کی اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔ اپنے اندر کی صلاحیتوں کو کھوجنا اور پھر محنت کرتے رہنا، یہ انسان کے بس میں ہیں اور یہی کرنے کا حکم خالق کائنات نے خلیفۃالارض کو دیا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا تقدیر پر ایمان ہے اور خود کشی کرنے والا تو تقدیر پر ایمان سے منکر ہو جاتا ہے۔ بعض دفعہ ہم جس تقدیر کے فیصلے پر شکوہ کر رہے ہوتے ہیں وہ ہماری زندگی کا سب سے حسین پہلو بن جاتا ہے۔ نیوٹن اور اس طرح کے باقی انسان اس کی زندہ مثالیں ہیں ۔ انسان اتنا ورتھلس( worthless) نہیں ہے , کہ وہ کسی معمولی سے رزلٹ کی وجہ سے سے خود کو یا کسی اور کو ڈی گریڈ (degrade) کرے.
والدین اور اساتذہ کو اس نمبر کلچر (number culture)کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ام پیتھی کلچر (empathy culture) ایڈوپٹ کرکے اپنے بچوں کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ خاص طور پر یہ مرض خواتین میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ان کا موضوع گفتگو ہی بچوں کے نمبرات ہوتے ہیں۔ ماں تو زندگی کا نام ہے، اس کو کم سے کم موت کے کھیل کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ بلکہ اپنے اور دوسروں کے بچوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے ۔ ان کے مارکس زیادہ ہوں یا کم ہر حال میں ان کے ساتھ کھڑا رہنا چاہیے۔
خیر مجھے لگتا ہے کہ اس نمبر کلچر کو اگر کوئی جڑ سے اکھاڑ کر پھینک سکتا ہے تو وہ ہم طالب علم ہیں ۔ چونکہ لوہے کو لوہا ہی کاٹ سکتا ہے ہم سب کو مل کر یہ جنگ لڑنی ہو گی اور ان معصوم جانوں کو بچانا ہوگا جو ہماری قوم کا کل اثاثہ ہیں ۔ دسویں جماعت کے وہ معصوم طالب علم جن کا نتائج منظرعام پر آنے والے ہیں ۔ ہمیں ان کےلئے امید کی کرن بننا ہے ۔ انہیں یہ احساس دلانا ہے کہ انہیں جج (judge) کر کے رسوا نہیں کیا جائے گا۔ صرف کامیاب ترین طلباء کی حوصلہ افزائی کرنا اور بچوں کے اس ہجوم کو نظر انداز کر دینا جو ٹاپ پوزیشنز حاصل نہیں کر پاتے ہیں ، سراسر زیادتی اور احمقانہ حرکت ہے۔ کم سے کم ہمارے معاشرے کو اب ان حرکتوں سے باز آجانا چاہئے۔
