ایوشمان بھارت کے تحت سرکار نے عوام کو گولڈن کارڈ فراہم کئے ہیں ۔ ایسے کارڈ کے استعمال سے ہر شہری کوپانچ لاکھ روپے تک کا مفت علاج معالجہ فراہم ہوتا ہے ۔ یہ کارڈ مجموعی طور ملک کی پوری آبادی کو فراہم کئے گئے ہیں اور بغیر کسی تفاوت کے تمام لوگ ہسپتالوں میں جاکر گولڈن کارڈ کا فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ خاص طور سے جان لیوا بیماریوں میں ملوث افراد کو اس کے استعمال سے کافی سہولیات میسر آئی ہیں ۔ پچھلے کچھ عرصے سے کشمیر میں گردوں کی ایسی بیماری پھیل گئی ہے جس کے لئے مریض کو ہفتے میں ایک دو بار ہسپتال جاکر ڈائیالسز کی ضرورت پڑتی ہے ۔ ایسا کرنا جب ہی ممکن ہے کہ مریض کے پاس گولڈن کارڈ ہو ۔ بصورت دیگر بیشتر مریضوں کے لئے اس پر آنے والا خرچہ برداشت کرنا ممکن نہیں ۔ گولڈن کارڈ سے پہلے بہت سے ایسے مریض علاج میسر نہ آنے کی وجہ سے موت کا شکار ہوئے یا بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئے ۔ اس سے پہلے یہاں رواج بن گیا تھا کہ ایسے مریض کے ٹیسٹ رپورٹ اور فوٹو گاڑی پر چسپان کرکے گلی گلی اور گائوں گائوں جاکر لوگوں سے امداد مانگی جاتی تھی ۔ اس طرح سے کچھ معمولی خیرات حاصل ہونے کے عوض بیمار کی شہر و گام بدنامی ہوتی تھی ۔ اس کے علاوہ ایسے فرضی مریضوں کی آڑ میں کئی لوگ رقم جمع کرکے اس کو اڑا لیتے تھے ۔ بلکہ منشیات کے عادی لوگ اس طرح رقم جمع کرکے اس کو نشہ آور اشیا خریدنے پر اڑا لیتے تھے ۔ جب سے گولڈن کارڈ اجرا ہوئے علاج کے لئے بھیک مانگنے کا طریقہ کم ہوگیا اور مریض بڑی آسانی سے اس کارڈ کا سہارا لے کر اپنا علاج کرتے ہیں ۔ تاہم کچھ جگہیں ایسی ہیں جہاں اس کارڈ کا استعمال بہت مشکل بلکہ کئی موقعوں پر ناممکن بھی ہوجاتا ہے ۔ بچوں کے معاملے میں گولڈن کارڈ کی فراہمی کا تاحال کوئی طریقہ کار نہیں بنایا گیا ۔ اس وجہ سے بچوں کے لئے ایسی سہولیت بہم پہنچانا ممکن نہیں ۔اسی طرح پرائیویٹ سیکٹر تک اس کا دائرہ کار بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ بہت سے ہسپتالوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو اسکے دائرے میں آتے ہیں ۔ لیکن وہاں بھی اطمینان بخش فائدہ مل نہیں پاتا ۔ اس وجہ سے کئی حلقے گولڈن کارڈ میں مزید وسعت لانے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں ۔ خاص طور سے جموں کشمیر میں اس حوالے سے مطالبات سامنے آرہے ہیں ۔
یہ بات واضح ہے کہ جموں کشمیر کے دیہات بلکہ ڈسٹرک اور سب ڈسٹرک سطح کے ہسپتالوں میں شافی و کافی علاج میسر آنا ممکن نہیں ہے ۔ ایسے ہسپتال نام اور تعمیراتی ڈھانچے کے لحاظ سے ہسپتال ہیں ۔ او پی ڈی کے ظاہری علاج معالجے کے سوا یہاں کوئی دوسرا کام نہیں ہوتا ۔ ان ہسپتالوں میں حاملہ خواتین ، پسماندہ طبقے کے مریضوں اور دوسرے ایسے بیماروں کو سخت مشکلات اٹھانا پڑتی ہیں جن کی یہاں کام کررہے عملے سے کوئی جان پہچان نہیں ہوتی ۔ ایسے مریضوں کو عین موقعے پر کسی پرائیویٹ ہسپتال کا رخ کرنا پڑتا ہے ورنہ جان سے سے ہاتھ دھونے کا خدشہ رہتا ہے ۔ ایمرجنسی کی حالت میں پرائیویٹ ہسپتال آنے والے مریضوں کو گولڈن کارڈ کے بجائے نقدرقم ادا کرنے کے لئے کہا جاتا ہے ۔ ایسے موقعے پر ہسپتال عملے سے بحث مباحثہ یا قانون سکھاناممکن نہیں ۔ وہ سیدھے رخصت ہونے کے لئے کہتے ہیں ۔ اس وجہ سے بہت سے مریض قرضہ لینے یا اپنے قیمتی اثاثے فروخت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ جب ہی انہیں علاج معالجے کی سہولیات میسر آتی ہیں ۔ ایسے حقایق کو مد نظر رکھ کر ہی کئی حلقے چاہتے ہیں کہ گولڈن کارڈ کا استعمال عمومی بنایا جائے تاکہ بغیر کسی تفاوٹ کے سارے سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتال اس کے دائرے میں لائے جائیں تاکہ کارڈ کے عوض علاج معالجہ فراہم ہونا یقینی بن جائے ۔ بلکہ اس حوالے سے یہ بھی مطالبہ کیا جاتا ہے کہ کارڈ قبول کرنے سے انکار کرنے والوں کو سزا کا مستحق قرار دیا جائے ۔ اسی طرح علاج معالجے کے لئے بھیک مانگنا ممنوع قرار دیا جائے ۔ جب گولڈن کارڈ موجود ہے اور مریض کے لئے خاطر خواہ رقم مہیا کرنے کی یقین دہانی کی جاتی ہے تو اس کے لئے بھیک مانگنے کی ضرورت کیونکر ہے ۔یہ بڑا حساس معاملہ ہے جس پرسنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ آج بھی کئی لوگ ڈاکٹروں یا ہسپتالوں کے نسخے لے کر مسجدوں کے دروازوں ۔ زیارت گاہوں کی سیڈھیوں اور دوسرے عوامی مقامات پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں ۔ ا س عمل سے نجات دینے کے لئے ضروری ہے کہ گولڈن کارڈ کے بہتر استعمال کو آسان بنایا جائے ۔ جب ہی اس سہولیات کو عوام کے لئے صحت کی ضمانت قرار دیا جاسکتا ہے ۔ یہ مرکزی سرکار کی طرف سے فراہم کی گئی سب سے آسان اسکیم ہے ۔ دوسری اسکیموں کا فائدہ اٹھانے کے لئے پاپڑ جھیلنے پڑتے ہیں ۔ اس کے بجائے صحت بیمہ اسکیم بڑی آسان اسکیم ہے ۔ تاہم اس میں مزید بہتری اور آسانی پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔
