
گورنمنٹ آف انڈیا کی جانب سے سال 2006 میں فارسٹ رائٹ ایکٹ قانون بنائی گئی تھی جس کا مقصد یہ ہے کہ درجہ قبائل جو لوگ جنگل میں رہتے ہیں اور ان کی زندگی کا دارومدار جنگلات پر ہے اور جنگلات کے عارضی پر قابض ہیں ان کے حقوق کو تسلیم کرکے وہ زمین ان کو وقف کرنی ہے اگر ان کے پاس پختہ ثبوت ہیں کہ وہ جنگلات کی زمین پر قابض ہیں اور یا ان کی زندگی کا دارومدار جنگلات پر ہے ان لوگوں کے لئے یہ ایکٹ سرکار نے لاگو کی ہے
اس ایکٹ کے تحت دو قسم کے لوگ اہل ہیں
پہلا ایک خانہ بدوش لوگ جو جنگلات کی زمین پر قابض ہے یا ان کی زندگی کا دارومدار جنگلات پر ہے مگر اس کے پاس ثبوت ہونا چاہیے کہ وہ 13 دسمبر 2005 سے پہلے ان جنگلات پر قابض ہیں ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو مشتر کہ ڈھوک میں جاتے ہوں اور وہ ان کی مشتر کہ ملکیت ہو
دوسرا او ٹی ایف ڈی روایتی جنگل کے رہائشی ہیں یہ وہ شیڈول ٹرائب لوگ ہیں جو جنگلات کی زمین پر قابض ہیں یا ان کی زندگی کا دارومدار جنگلات پر ہے مگر ان کے پاس ثبوت ہونا چاہیے کہ وہ 13 دسمبر 2005 سے پہلے ان جنگلات پر 75 سال سے قابض ہیں ان میں وہ بھی شامل ہیں جو مشترکہ کی بہک ڈھوک میں جاتے ہیں اور وہ ان کی مشترک مملکیت ہو
جموں کشمیر UT میں اس ایکٹ کو 2020 میں نافظ عمل کیا گیا ہے یعنی کہ حکم دیا گیا ہے جس کے سنتے جنگل میں رہنے والے لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی کہ فارسٹ رائٹ ایکٹ سے اب جنگل میں پائی جانے والی زمینں بچا سکیں گی اور ان لوگوں نے سرکاری اس حکم نامے کا بڑے پیمانے پر شکریہ بھی ادا کیا لیکن سرکار اس ایکٹ کو لاگو کرنے کے بعد کئیں غائب ہو گئی ہے غائب کیوں ہوگئی اس بات کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک طرف سے فارسٹ رائٹ ایکٹ باضابطہ طور پر لاگو کی گئی ہے لیکن دوسری جانب سے زمینی سطح پر سرکار اس ایکٹ کو لاگو کرنے میں سستی سے کام لے رہی ہے فارسٹ رائٹ ایکٹ اس قانون میں سب بات کا خلاصہ کیا ہے یعنی یہ ایکٹ کیا ہے لیکن زمینی سطح پر اس ایکٹ کے برعکس ہو رہا ہے ایک طرف سے فارسٹ رائٹ ایکٹ اور دوسری جانب سے جموں وکشمیر کے مختلف پہاڑوں میں مقیم گجر بکروال لوگوں کو اس قانون کے نافذ ہوتے بھی ستایا جا رہا ہے اور کئی جگہوں پر محکمہ جنگلات کے ملازمین نے نشاندہی کر کے جنگلاتی زمین کو نکالا بھی گیا ہے اور کئی جگہوں پر گرام سبھاہوں میں ان لوگوں کو ان باتوں پر تھاک دیا جاتا ہے کہ آپ کو صرف دو کنال جنگلاتی کی زمین فراہم کی جائے گی اور آپ میں سے جو ملازم ہے ان کو فارسٹ رائٹ ایکٹ کے تحت جنگلات کی زمین سے برطرف ہونا ہے ان باتوں سے گرام سبھاہوں میں ان لوگوں کو دبوچ دیا جاتا ہے جن لوگوں کو فارسٹ رائٹ ایکٹ کا کوئی علم نہیں ہوتا ہے اور وہ لوگ یہ باتیں سن کر پریشان حال ہو کر سوچ میں پڑ جاتے ہیں ادھر جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ کے ترال علاقے کے مختلف دیہات میں ایسا لوگوں کے ساتھ ہو چکا ہے اور کچھ علاقوں میں نشاندہی بھی لگائی گئی ہے گرام سبھاہوں میں لوگوں کو فارسٹ رائٹ ایکٹ کے ۔برعکس دکھایا جاتا ہے بنا فارمیلٹی اور بنا نوٹس کے گرام سبھا رکی جاتی ہے فارسٹ رائٹ ایکٹ میں جیسے کہ دکھایا ہے کہ گرام سبھا میں 50 فیصد کی اکثریت ہونے چاہئے تب ہی کوئی ریزولیشن پاس ہو سکتی ہے لیکن کچھ جگہوں پر ١٠ ہی لوگ ہوتے ہیں وہ ریزولیشن پاس کر لیتے ہیں ایسے میں فارسٹ رائٹ ایکٹ کی گرام پنچایت یا پنچایت سیکٹری یا پھر جنگلات کے ملازمین کو پوری طرح سے اس کے بارے میں اویرنس نہیں ہے یا پھر یہ لوگ ان لوگوں کو دبوچ کر ان کے حقوق کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں اگر فارسٹ رائٹ ایکٹ ہے تو پھر ان لوگوں کی زمینوں میں نشاندہی کیوں لگائی ہے اور اگر اس ایکٹ میں یہ ادکار باضابطہ طور دکھایا گیا ہے کہ ایک شخص 80 کنال تک جنگلات کی زمین پر قبضہ جما سکتا ہے لیکن ان لوگوں کو بولا جاتا ہے کیا آپ کو دو ہی کنال مل پائے گی اسی طرح ان لوگوں کے ساتھ کی دھوکے اور ان کی شرافت کا ناجائز فائدہ اٹھا کر سرکار کی کئی سکیموں سے دور رکھا گیا ہے اس ایکٹ کے تحت ان لوگوں کو کئی طرح کے حقوق دیے گئے ہیں لیکن حکومت اور محکمہ جنگلات اس قانون کو باظابطہ طور جنگلوں میں نافذ کرنے میں کیوں لیتو لیل سے کام لے رہی ہے جنگلات کے تحفظ کے لیے ایک اہم اور اٹوٹ انگ کے طور پر آباد شیڈولڈ ٹرائب (fdst) اور دیگر روایتی جنگلات کے باشندے (otfd) اور اس طرح جنگلات کے تحفظ کا ہدف انہیں ان کی زمینوں پر رہنے دے کر پورا کیا جاتا ہے نہ کہ انہیں بے دخل کر کے۔ اس ایکٹ کے تحت دیگر روایتی باشندوں کے ساتھ جنگلات میں رہنے والے درج فہرست قبائل کے ارکان کو جنگل کی زمین پر حق حاصل ہوگا۔ جموں و کشمیر میں اس ایکٹ کے نفاذ کے فوراً بعد، جموں و کشمیر میں کئی رپورٹیں منظر عام پر آئیں جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جنگلات کے مالکان کو ان کے حقوق ٹھیک سے نہیں مل رہے ہیں۔ گجر اور بکروال خاندانوں نے الزام لگایا کہ انہیں ان کے روایتی جنگلاتی علاقوں سے زبردستی بے دخل کیا جا رہا ہے اور ut کے مختلف حصوں سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بہت ساری ویڈیوز اور تصاویر سامنے آئیں، جنہوں نے حقوق کارکنوں کی توجہ مبذول کرائی اور میڈیا کی شدید جانچ پڑتال کی۔ جموں و کشمیر میں جنگلات کے حقوق کے قانون کو صحیح طریقے سے نافذ کیا جانا چاہیے۔ اس ایکٹ سے قبائلی آبادی کو باوقار زندگی کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔ حکومت اور محکمہ جنگلات کا فرض ہے کہ وہ تمام ضروری اقدامات اٹھائے جن سے لوگ اس ایکٹ سے مستفید ہو سکیں۔ میری گزارش ہے ڈپٹی کمشنر پلوامہ سے بھی کہ وہ ملازمین اور محکمہ جنگلات کے افسران کو ہدایت دیے کہ پلوامہ کے مختلف دیہات میں مقیم گجر بکروال لوگوں کے ساتھ ہمدردانہ سے پیش آ کر تاکہ ان کو جنگلات کی حقوق صحیح سے مل سکیں ۔
