تحریر:ان پڑھ کشمیری
دُور کسی تپتے ریگستان کے ایک اُونچے سے ٹیلے پر ابلیس بیٹھا آج خُوش نظر آرہا تھا۔
سامنے آگ اُگلتی سپاٹ ریت پر اُسکے جنم جہنم کے تابعین شیاطین اُکتائے سے بیٹھے ہُوئے تھے۔۔ اِن میں سے ہی ایک کھڑا ہوکر اِبلیس سے پُوچھ رہا تھا،
” اُستادِ محترم ، ھم لوگوں کا جَنّت میں داخلہ ممنوع ہے۔ آپنے بھی کبھی معروف از *روئے زمین کی جَنّتِ* وادئ کشمیر کا رُخ نہیں کیا۔۔ پھربھی وہاں اب دُنیا کے بد ترین، گھناؤنےاور شرمناک جرائم اور گُناہ کیسے ہونے لگے ہیں؟ جبکہ وہاں مساجد اور عبادتگاہوں کی تعداد پوری دُنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ کیونکہ اُن پر لاتعداد لاؤڈ سپیکروں سے آنے والی کانوں کے پردے پھاڑ دینے والی دن رات کی آوازوں نے ھمارا یہاں پر بھی چئین حرام کر رکھا ھے ! “.
اِبلیس نے فخر سے بانچھئیں پھیلاتے ہُوئے جواب دیا،
” ارے نا سمجھو !! کیا تُم لوگ ابھی بھی خالقِ کُل و آدم کے تخلیق کار کے جذبات کو نہیں سمجھ پائے ہو ؟؟ قیامت کو ٹالتے رہنے کی وجہ نہیں سمجھ سکے ہو، جوکہ اب امکانی معیاد سے بہت زیادہ بڑھ چَکی ھے۔ آخر سوا لاکھ پیغمبروں اور انبیاء(ع،ص) کے برعکس اُمتِ مُسلمہ کی دن رات کی نمازوں، حج، قربانیوں اور دیگر عبادات و ارکان کے باوجود یہ قوم ہر لمحہ بکھر تی اور محکوم ہوتی جارہی ھے۔۔ اب ربُّ العالمین اسی سوچ میں ھیں کہ اب کیکڑا کس کے سَر پھوڑا جائے۔۔ ھم لوگ صاف بَری ہوگئے۔ کیونکہ ابلیس یا اسکے پیروکاروں نے تو آج تک بھی کبھی کسی کو اللَٰلہ کے برابر لائقِ عبادت سمجھا ہی نہیں ہے !!؟
یہ کام بھی خالق کے تخلیق کردہ آدم زاد ہی کر رہے ہیں.