
کون آتا ہے کام کسی کے
آدمی تنہا مریض ہوتا ہے
غنی جٹ کے نام سے مشہور نام جو گزرے برسوں میں اہلِ گول کے ہر فرد کی زبان پر عام ہوتا تھا، خاص طور پر وہ حضرات جو اپنا زیادہ وقت بازار میں گپ شپ اُڑانے کے نام کر دیتے ہیں وہ غنی جٹ صاحب کے کو نہ جانتے ہوں ایسا شائد ہی ممکن ہوتا تھا، زیر نظر تصویر جناب غنی جٹ صاحب کی ہے جو آج سے چند برس قبل بازار کی رونق ہوا کرتے تھے، تقریباً 1985سے لیکر ۲۰۱۲ کی طویل مدت تک جناب غنی جٹ صاحب نے گول بازار میں ایک ٹی سٹال چلایا،غنی جٹ صاحب کے ٹی سٹال کی چائے کافی مشہور تھی،کمال کا ذائقہ چائے پینے والوں کو غنی جٹ کے ٹی سٹال پر حاضر ہوجانے کیلئے مجبور کرتا تھا، گپ خوروں کیلئے غنی جٹ کا ٹی سٹال ایک بہترین مقام تھا جہاں زیادہ دیر بیٹھنے پر کوئی قدغن یا اعتراض نہ ہونے کیساتھ ساتھ مزے دار چائے بھی ملتی تھی،ٹی سٹال میں بھیڑ ہونے کے باجود بھی غنی جٹ نے کبھی بھی معیاری چائے بنانے پر سمجھوتہ نہ کیا، بھلے ہی گاہک بغیر چائے پیئے چلا جاتا لیکن غنی جٹ چائے بنانے کے اپنے معیار میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں برتتے تھے، یہی وجہ ہے کہ قریباً ۲۵ برس سے زائد مدت تک ٹی سٹال کا کام کرنے کے بعد بھی غنی جٹ ایک مالدار/امیرشخص نہ بن سکا ـ
حالات بدلتے گئے بازار کی ہیت بھی بدلتی گئے مٹی گارے سے تعمیر شدہ دکانیں پکے شاپنگ کمپلکس بنتے گئے اور نئے نئے ٹی سٹال کھلنے لگ گئے، وقت کے بدلتے معیار نے غنی جٹ سے چائے فروشی کا کام چھین لیا،مٹی سے تعمیر جس کچی دکان میں غنی جٹ صاحب ٹی اسٹال چلا کر اپنا اور اپنے عیال کا پیٹ پالتے تھا وہ کچی دکان جب شاپنگ کمپلکس میں تبدیل ہوگئی تو غنی جٹ صاحب سے ٹی سٹال کا روزگار چھن گیاـ
شومئی قسمت اِدھر سے روزگار چھن گیا اُدھر بڑھاپے نے دستک دے دی، ٹی سٹاک کا روزگار چھن جانے کے بعد ایک دو برس کبھی سبز فروشی کا کام ، کبھی ریڑھی لیکر جوتے چپل فروخت کر کے دن بسر کرنے کی تگ و دو کی ـ
انتہائی غمناک کہ اِس حالتِ غیر میں غنی جٹ پر ایک اور مصیبت آن پڑی، گزشتہ برس غنی جٹ کو اچانک فالج کا اٹیک آیا اور وہ درِبستر ہو کر رہ گئے، کم و بیش ایک برس گزر چکا غنی جٹ صاحب چلنے پھرنے سے معذور ہیں، رفعِ حاجت کیلئے بھی سہارے کی ضرورت پڑتی ہے،قابلِ ذکر ہے کہ اِس مصیبت سے لڑنے کیلئے غنی جٹ صاحب کا ساتھ صرف اُس کی بیٹاں و اہلیہ دے رہی ہیں، غنی جٹ صاحب کے ہاں چار بیٹاں ہیں،کوئی بیٹا نہیں ہے، دو بیٹیوں کا نکاح ہو چکا ہے،دو بیٹاں ابھی گھر میں ہی ہیں اور یہی دو بیٹاں اپنے والد غنی جٹ کی خدمت کررہی ہیں، والد کو اندر باہر نکالنا، رفع حاجت کیلئے بیت الخلاء تک پہنچانا، نہلانا،دوھونا، داڑھی بنانا یہ سب کام وہ دو بیٹاں کر رہی ہیں، گوکہ حلقہ احباب کا ایک بڑا لشکر موجود ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ مصیبت جب آن پڑتی ہے تو اُس کا سامنا تنہا ہی کرنا پڑ رہا ہے ـ
اِس میں کوئی شک نہیں کہ غنی جٹ پر آزمائش کا کٹھن وقت آن پڑا ہے لیکن حقیقی معنوں میں یہ آزمائش ہمارے لئے امتحان ہے کہ ہم مصیبت زدگان کیلئے کس قدر فکر مند ہیں ـ اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہم کوئنٹل وزنی جانوروں کو ذبح کر کے قربانی کر رہے ہیں لیکن یہاں مصیبت زدگان غریب گھرانوں کا چولھا عید کے دن بھی ٹھنڈا پڑا رہتا ہے، بحرحال ہماری قربانیوں کو اللہ ہی قبول کرنے والا ہے لیکن کیا ہی بہتر ہوتا کہ ہم قربانی کا فریضہ ادا کرنے سے قبل اپنے آس پڑوس رہنے والے امداد کے مستحقیق تک اُن کا حق پہنچاتے اور یہ عمل ہمارا اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے ـ
چند روز قبل ناچیز کا گزر غنی جٹ کے دولت خانے کے قریب سے ہوا، دور سے نظر پڑی دیکھا غنی جٹ صاحب گھر کے باہر ایک کرسی پر بیٹھے تھے، میں اُنہیں دیکھ کر اُن کے گھر چلے گیا، دعاسلام کی، قریب بیٹھ کر حال چال پوچھا، چونکہ فالج کی وجہ سے غنی جٹ صاحب کو بولنے میں بھی کافی دِقت ہوتی ہیں جلدی سے اُن کی بات سمجھ نہیں آتی چونکہ فالج ہونے کے باعث زبان طوطلی ہوجاتی ہے ،خیر حال چال پوچھتے پوچھتے ہیں غنی جٹ صاحب کی آنکھیں بھر آئیں اُنھوں نے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سب اللہ کی طرف سے آزمائش ہے اور وہی رب اِس آزمائش سے نجات دینے والا ہے، میں نے حوصلہ دیتے ہوئے غنی جٹ صاحب سے عرض کیا یہ آپ کیلئے نہیں بلکہ ہمارے لئے آزمائش ہے کہ ہم کس حد تک آپ کی مدد کر سکتے ہیں لیکن ہم ناکام ہو رہے ہیں، غنی جٹ صاحب یہ الفاظ سنتے ہی زارو قطار رونے لگے اور اپنی بے بسی پر اشکبار ہوئےـ غنی جٹ صاحب نے اپنی دو بیٹوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا یہی میرے فرزند ہیں جو میری خدمت کر رہے ہیں، غنی جٹ صاحب کہ یہ الفاظ میرے دل پر خنجر کی طرح وار کر گئے ـ گھنٹہ بھر غنی صاحب کیساتھ گزارنے کے بعد میں وہاں سے نکل آیا لیکن ابھی بھی غنی جٹ صاحب کی مصیبت زدہ زندگی میری آنکھوں کے سامنے محوِ گردش ہو کر یہ احساس دِلا رہی ہے کہ ہمارا معاشرہ کس قدر انسان دشمن بن چکا ہے ـ حیرت ناک ہے کہ اِدھر کوٹھی میں آئے روز نئے نئے پکوان پک رہے ہیں اُدھر غریب، مسکین، ضرورتمند مصیبت زدگان کے ہاں کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں، اِدھر سیر و تفریح کے نام پر فضول خرچی کی جارہی ہے اُدھر غریب کے گھر میں ایک وقت کا کھانا تک نہیں میسر ہو رہا ہے، اِدھر چست و تندرست رہنے کیلئے اینرجی ٹانک اور نہ جانے کیا کچھ نہیں کیا جاتا ہے اُدھر غریب مجبور مریض کے علاج کیلئے ایک روپیہ کی امداد کا خیال نہیں، ادھر دو قدم جانے پر بھی مہنگی گاڑیاں میسر ہیں اُدھر معذور مریض کو رفع حاجت کیلئے بیت الخلاء تک پہنچانے کی توفیق نہیں ـ اللہ ہی ہمارا حافظ ہے ورنہ ہمارے اعمال ہمیں ایک ایسے ٹھکانے کی اور لے جانے والے ہیں جہاں سوائے عذاب کے کچھ بھی نہیں ہے ـ
بحرحال حاصل کلام یہ ہے کہ تندرستی کسی کے باپ کی جاگیر نہیں اللہ کی دین ہے وہ جب چاہیے اپنے بندے سے یہ نعمت چھین کر اُسے مریض بنا سکتا ہے اِس لئے تندرستی کو ہزار نعمت سمجھ کر غنی جٹ صاحب کی امداد کریں، گوکہ غنی جٹ صاحب نے کبھی امداد کا تقاضا نہیں کیا لیکن ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ مصیبت کے اِس کٹھن وقت میں ہم سب مل کر غنی جٹ صاحب کا ہاتھ بٹائیں ـ ان شاالله ربِ تعالیٰ اجرِ عظیم سے نوازیں گے ـ آمین!!
