از: شاہد شبیر حسین مخدومی
تنازعات کے حل کے لیے بھارت اور پاکستانی حکومتوں کو مذاکرات کی راہ پر آگے بڑھنے کے لیے راہیں ہموار کی جا رہی تھیں۔ کشمیر میں عسکریت پسندی اپنے عروج پر تھی، بھارت اور پاکستان نے کامیابی سے اپنے جوہری تجربات کیے تھے اور ارد گرد کا منظر نامہ بدل رہا تھا۔ بھارت کے وزیر اعظم شری اٹل بہاری واجپائی اپنے ہم منصب نواز شریف سے ملاقات کے لیے لاہور کے لیے بس میں سوار ہوئے تاکہ مسائل پر غور و خوض اور ان کو پرامن طریقے سے حل کیا جا سکے۔ لاہور میں شری واجپائی کا تاریخی استقبال کیا گیا اور لاہور اعلامیہ دونوں رہنماو ¿ں کے درمیان پاکستانی سرزمین پر ہونے والے مذاکرات اور غور و خوض کا نتیجہ تھا۔ اس سے آر پار یہ پیغام ضرور گیا کہ بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے ساتھ امن قائم کرنے جا رہے ہیں لیکن یہ ایک وہم تھا کیونکہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بھارت کے خلاف سازشیں کرنے اور کرگل کی بلندیوں پر قبضہ کرنے اور بھارت کے خلاف جنگ چھیڑنے کے لیے دوسرے دراندازوں کے ساتھ اپنی فوج بھیجنے میں مصروف تھی۔ اس سارے آپریشن کا ماسٹر مائنڈ پاکستان کے کچھ اعلیٰ فوجی افسران تھے جنہوں نے یہ سب کچھ وزیراعظم نواز شریف کی مشاورت سے کیا۔ مئی کے مہینے میں یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ کرگل کی بلندیوں پر قبضہ کرنے والے پاکستانی فوج اور درانداز کسی بھی لمحے حملہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ پاکستانی افواج کو اس بات کا فائدہ تھا کہ وہ اونچائی والے پہاڑوں کے ساتھ بھارتی فوج کے لیے اہم چیلنجز کی حیثیت رکھتی تھیں۔
پاکستان کے اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کی قیادت میں اس مہم جوئی کا بنیادی مقصد سیاچن کی سپلائی لائنوں کو منقطع کرنا اور اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کے علاوہ کشمیر میں ملی ٹنٹوں کو اپنی کارروائیاں تیز کرنے میں مدد دینا تھا۔ ابتدائی طور پر پاکستان نے کرگل جنگ میں اپنے ریگولر اور دیگر فوجی یونٹوں کی شمولیت کو قبول نہیں کیا اور اسے ”مجاہدین“ سے منسوب کیا۔ بعد ازاں جب بھارت نے دراندازی میں پاکستانی فوج کے ملوث ہونے کے ثبوت کے طور پر پاکستانی فوج کے اعلیٰ حکام کے درمیان ہونے والی بات چیت کو جاری کیا تو اس طرح پاکستانی فوج کے فرار کے تمام راستے مسدود ہوگئے۔
دشمنوں کے حملے کو ناکام بنانے کے لیے بھارت نے آپریشن وجے شروع کیا۔ یہ جنگ 60 دن تک جاری رہی اور 26 جولائی 1999 کو بھارت نے کامیابی کے ساتھ اس اعلیٰ چوکی کی کمان سنبھال لی جس پر پاکستان کا قبضہ تھا۔ دونوں طرف سے جانی نقصان ہوا لیکن اس کہانی کا المناک حصہ یہ ہے کہ پاکستان نے اپنے لڑنے والے فوجیوں کی لاشیں واپس لینے سے انکار کر دیا اور بھارتی فوجیوں کو پکڑ کر قتل کر کے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا اور بعد میں ان کی لاشوں کو مسخ کر دیا جو کہ جنیوا کنونشن اور جنگ کے دیگر قوانین کے خلاف تھا۔ بھارتی افسروں اور جوانوں نے بہادری سے پاکستان کا مقابلہ کیا اور بلند ترین پہاڑی چوٹیوں پر پاکستانی فوج کی پوزیشنوں کو ختم کرکے اپنی طاقت کا ثبوت پیش کیا۔
کرگل جنگ جیسا کہ پاکستان کے بعض جرنیلوں اور سیاست دانوں نے بیان کیا ہے ایک غلطی تھی اور ان غلطیوں کا تکرار تھا جو پاکستان نے 1965 میں کی تھیں۔ پاکستانی فوج اور حکومت کو اس غلط مہم جوئی پر بھارت کے ردعمل کا اندازہ نہیں تھا۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ کرگل جنگ نے پاکستان کو بدنام کیا اور دنیا میں اس کی شناخت کو نقصان پہنچایا کیونکہ ایک طرف وہ بھارت کے ساتھ مختلف معاملات پر مذاکرات میں مصروف تھا اور دوسری طرف کرگل کے مشن کو آگے بڑھا رہا تھا۔ جنگ کی حکمت عملی اور حربے کے حوالے سے پاکستان کے دوہرے معیار نے اسے ایک ایسی قوم قرار دیتے ہوئے بدنام کیا جس پر کسی بھی طرح سے اعتبار نہیں کیا جانا چاہیے۔ کارگل کی جنگ بھارت کے لیے ایک فوجی اہمیت اور سفارتی فتح تھی۔ اس نے بھارت کو امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے اور مغرب کے ساتھ بہتر افہام و تفہیم کے فوائد سے فائدہ اٹھانے میں مدد کی۔
26 جولائی 1999 کو پاکستانی فوجیوں کو پیچھے دھکیل دیا گیا اور کارگل کی بلندیوں سے مکمل طور پر بھگا دیا گیا، اور بھارتی فوج نے لداخ میں کرگل کی برفیلی بلندیوں پر تقریباً 3 ماہ کی طویل جنگ کے بعد فتح کا اعلان کرتے ہوئے ”آپریشن وجے“ کے کامیابی سے اختتام کا اعلان کیا۔
اس دن کو کارگل کی فتح کی یاد میں ”کرگل وجے دیوس“ کے طور پر منایا جاتا ہے۔
اونچائی پر لڑی گئی کرگل جنگ کے دوران، بھارتی فوج کے افسروں اور جوانوں نے اپنی بہادری اور پیشہ ورانہ عزم کا مظاہرہ کیا جیسا کہ بھارت کی صدر دروپدی مرمو نے بجا طور پر کہا ”کرگل وجے دیوس“ مسلح افواج کی غیر معمولی بہادری کی علامت ہے اور لوگ ہمیشہ ان بہادر فوجیوں کے مقروض رہیں گے جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے بھارت ماں کی حفاظت کی۔
جنگ کے دوران تقریباً 490 بھارتی فوجی افسران، سپاہیوں اور جوانوں نے عظیم قربانیاں دیں۔
کرگل کے چند بہادر:-
کیپٹن انوج نیئر
کیپٹن انوج نیئر 17ویں بٹالین، جاٹ رجمنٹ کے ایک بھارتی فوجی افسر تھے، جنہوں نے کرگل جنگ کے دوران 7 جولائی 1999 کو ٹائیگر ہل پر لڑتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ جنگی کارروائیوں کے دوران ان کی مثالی بہادری پر انہیں بعد از مرگ مہا ویر چکر سے نوازا گیا۔
لیفٹیننٹ کیشنگ کلفورڈ نونگر
جموں و کشمیر لائٹ انفنٹری کی 12ویں بٹالین کے لیفٹیننٹ کیشنگ کلفورڈ نونگر نے یکم جولائی 1999 کو کرگل جنگ کے دوران پوائنٹ 4812 پر قبضہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ جنگی کارروائیوں میں ان کی بہادری کے لیے انھیں مہا ویر چکر سے نوازا گیا۔
میجر پدماپانی آچاریہ
بھارتی فوج کی دوسری بٹالین، راجپوتانہ رائفلز کے میجر پدماپانی اچاریہ، کرگل تنازعہ کے دوران 28 جون 1999 کو لون ہل پر دشمن کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ جانے کے باوجود بہادری کا مظاہرہ کرنے کے لیے انھیں مہا ویر چکر سے نوازا گیا۔
میجر راجیش سنگھ ادھیکاری
میجر راجیش سنگھ ادھیکاری بھارت کے ایک فوجی افسر تھے جو کرگل جنگ کے دوران 30 مئی 1999 کو تولولنگ کی لڑائی میں مارے گئے۔ جنگ میں ان کی بہادری کے لیے انہیں بہادری کے اعزاز، مہا ویر چکر سے نوازا گیا۔
کرنل سونم وانگچک
کرنل سونم وانگچک لداخ سکاو س رجمنٹ میں خدمات انجام دینے والے بھارتی فوج کے افسر ہیں۔ 1999 کی کرگل جنگ میں تب میجر کے عہدہ پر فائض وانگچک نے چوربت لا ٹاپ پر پاکستانی فوجیوں کے خلاف آپریشن کی قیادت کی، جس کے لیے انہیں مہا ویر چکر سے نوازا گیا۔
میجر وویک گپتا
دوسری بٹالین، راجپوتانہ رائفلز کے میجر وویک گپتا، دراس سیکٹر میں دو اہم پوسٹوں پر قبضہ کرنے کے بعد 12 جون 1999 کو کرگل جنگ میں ہلاک ہو گئے۔ محاذ جنگ پر ان کی بہادری کے لیے انھیں مہا ویر چکر سے نوازا گیا۔
نائک دیجندر کمار
نائک دیجندر کمار نے 31 جولائی 2005 میں ریٹائر ہونے سے پہلے1999، کرگل جنگ کے دوران راجپوتانہ رائفلز کی دوسری بٹالین میں خدمات انجام دیں۔ انہیں 15 اگست 1999 کو میدان جنگ میں ان کی بہادری پر مہاویر چکر سے نوازا گیا۔
رائفل مین سنجے کمار
رائفل مین سنجے کمار، 13 ویں جموں وکشمیر رائفلز اس ٹیم کا سرکردہ اسکاو ¿ٹ تھا جسے ایریا فلیٹ ٹاپ پر قبضہ کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، جو دشمن کے قبضے میں تھا۔ انہیں سینے اور بازو میں گولی لگی تھی لیکن بہت زیادہ خون بہنے کے باوجود انہوں نے حملہ برقرار رکھا۔ ان کی جرات مندی کو دیکھتے ہوئے باقی پلاٹون نے دشمن کے بنکروں پر حملہ کیا اور ایریا فلیٹ ٹاپ پر قبضہ کر لیا۔ رائفل مین کمار کو پرم ویر چکر سے نوازا گیا۔
گرینیڈیئر یوگیندر سنگھ یادو
کمانڈو ’گھٹک‘ پلاٹون کے ایک حصے کو ٹائیگر ہل پر تین اسٹریٹجک بنکروں پر قبضہ کرنے کا کام سونپا گیا، گرینیڈیئر یوگیندر سنگھ یادو، 18 گرینیڈیئر، حملے کی قیادت کر رہے تھے اور چٹان پر چڑھ رہے تھے۔ وہ باقی پلاٹون کے لیے رسیاں باندھ رہے تھے۔ انہیں کارگل جنگ کے دوران 4 جولائی 1999 کی غیر معمولی کارروائی کے لئے بھارت کے اعلی ترین فوجی اعزاز پرم ویر چکر سے نوازا گیا۔
کیپٹن این کینگورس
کیپٹن این کینگورس دوسری بٹالین، راجپوتانہ رائفلز کے ایک بھارتی فوجی افسر تھے۔ اُنہیں 28 جون 1999 کو کرگل جنگ کے دوران لون ہل، دراس سیکٹر میں شہید کیا گیا تھے۔ میدان جنگ میں ان کی بہادری پر انہیں بعد از مرگ مہا ویر چکر سے نوازا گیا۔
کپتان منوج کمار پانڈے
پہلی بٹالین، گورکھا رائفلز کے کیپٹن منوج کمار پانڈے نے ’آپریشن وجے‘ کے دوران دلیری سے قیادت والے حملوں کے ایک سلسلے میں حصہ لیا اور 11 جون 1999 کو بٹالک سیکٹر سے دراندازی کرنے والوں کو واپس بھاگنے پر مجبور کیا۔ اُنہیں پرم ویر چکر سے نوازا گیا۔
کیپٹن وکرم بترا
کیپٹن وکرم بترا، 13 ویں جموں اور کشمیر رائفلز، کو ٹولولنگ رج، چوٹی 5140 کے بلند ترین مقام کو دوبارہ قبضہ میں لینے کا حکم دیا گیا، جہاں پاکستانی حملہ آوروں نے بنکروں میں پوزیشنیں سنبھال رکھی تھیں۔ وہ 26 جولائی 1999 کو ایک زخمی فوجی کو بچانے کی کوشش میں شہید ہو گئے تھے۔ پوائنٹ 4875 جس چوٹی پر ان کا انتقال ہوا، اسے اب ’بترا ٹاپ‘ کہا جاتا ہے۔ انہیں اعلیٰ ترین فوجی اعزاز پرم ویر چکر سے نوازا گیا۔
….٭….
(بشکریہ: پی آئی بی سرینگر)
*مصنف ایک آزاد قلمکار ہیں۔
نوٹ: مضمون میں بیان کئے گئے خیالات مصنف کے اپنے ہیں۔
