
مجھے اس بات کی خوشی ہی نہیں بلکہ فخر بھی ہے کہ وطن عزیز میں آج ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ایسے خاندان ہیں جن کی کفالت خواتین کی ذمہ ہے اور وہ اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھا بھی رہی ہیں حالانکہ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ اس میں کوئی شک کی بات نہیں کہ کسی بھی گھر کی تشکیل میں مرد و زن دونوں کا ہی نمایا کردار ہوتا ہے۔ ان کے باہمی تعاون اور جدو جہد سے ہی ایک گھر کے نظام کو بہتر ڈھنگ سے چلایا جا سکتا ہے۔ باوجود اس کے افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ خواتین کو سماجی، معاشی اور معاشراتی مسائل سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ انہیں مکمل معاشی طور پر خو د مختار ہونے پر پابندیاں عائد کی جا تی ہیں۔ طرح طرح کی رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں، متعدد مسائل کھڑے کئے جاتے ہیں جس کے باعث ان کی ہمہ جہت ترقی نہیں ہو پاتی، انہیں مردوں کی کمائی پر ہی منحصر رہنا پڑتا ہے۔ حالانکہ قانونی اور مذہبی نکتہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو عورت کو معاشی خود مختاری کا مکمل حق حاصل ہے۔مگر پھر بھی کئی گھرانوں میں ان سے یہ حق چھین کر انہیں صرف امورِ خانہ داری پر لگایا جاتا ہے۔ جس سے ان کے اپنے ہی گھر میں ان کی عزت نا کہ برابر ہوتی ہے اور عورت اپنے آپ کو کمتر سمجھنے لگتی ہے۔ مگر اچھی بات یہ ہے ان سب چیلنجوں کے باوجود کئی خواتین کچھ کرنے کی ٹھان لیتی ہیں اور وہ کر گزرتی ہیں۔ اسی طرح کی کہانی کچھ میری بھی ہے۔ میرے بچپن کے دن بہت ہی اچھے اور سہانے تھے وہ جنت سے کم نہیں تھے،ان دنوں کے دوارن میں نے اپنے والدین کے سائے تلے بہت ہی مستیاں کی۔ہر بات سے انجان۔بس وہ پیارا سا بچپن اور پیارے پیارے سپنے بچپن کے وہ دن کبھی نہیں بھلائے جا سکتے۔مجھے بچپن سے ہی کام کرنے کا بڑا شوق تھا۔میرے کام کی وجہ سے مجھے سب گھر والے بہت پسند کرتے تھے۔کبھی کبھی ڈانٹ بھی پڑتی تھی تو اتنا ہی پیار بھی ملتا تھا۔ دھیرے دھیرے بچپن کب گزر گیا پتہ ہی نہیں چلا۔ بڑے ہوتے ہوتے خواب بھی بڑے ہوتے گئے۔
مگر حالات کے سامنے بے بس میرے کچھ بننے کے خواب کچھ کر دکھانے کے خواب اس وقت کھو گئے جب پڑھائی چھوڑنی پڑی اور شادی کی عمر ہو گئی۔ پھر نئی زندگی میں قدم رکھا اور نیا گھر اور نئے ماحول کا دور شروع ہو گیا۔ ڈر بھی تھا لیکن حوصلہ نہیں چھوڑا۔ نئی زندگی میں قدم رکھا تو ماں باپ بھائی بہن سب نے ساتھ دیا مگر بے حد پریشانیاں بھی اٹھانی پڑی۔ لیکن ہمت نہیں ہاری صبر کیا۔ صبر کا دامن تھامے رکھا۔ گھر کے حالات بھی اچھے نہیں تھے۔شادی کو قریباً دس سال گزر گئے۔یہاں ایک نئے موڑ سے گزرنا پڑا۔ وہیں ذاتی مجبوریوں کے چلتے گھر بھی چھوڑنا پڑا۔ بچے بھی ساتھ تھے گھر سے بے گھر ہو نا پڑا۔ زندگی نے یہاں ایک نیا رُخ ضرور لیا، لیکن میں نے شوہر کا ساتھ نہیں چھوڑا اور انہوں نے بھی مجھے مکمل حمایت کی۔مشکل وقت میں بھی میں نے کچھ کرنے کا خواب سجائے رکھا۔ اسی اثناء میں خود مدد روزگار کی طرف خیال گیا اور ایک سلائی مشین خریدی اور سلائی کا کام شروع کیا۔ کچھ ہی عرصے بعد ایک اور مشینیں خریدی اور آگے بڑھی۔ پھر آہستہ آہستہ کام بڑھتا گیا اور آج میرا خود کا ایک بوٹیک ہے جو میں نے اپنے کرائے کے گھر میں رکھا ہے۔جس سے مجھے اچھی آمدنی آجاتی ہے۔ اس کے علاہ میں نے بوٹیک کے ساتھ لڈیز جینٹس گارمیٹس، بوقے، پھولوں کے گلدستے، گھروں کی سجاوٹ کے سامان وغیرہ بھی تیار کرتی ہوں۔ مجھے ہمت اس بات سے ملتی ہے کہ میں اپنے خودروزگار کاروبار کے ساتھ ساتھ اپنے امور خانہ داری یعنی گھر کے نظام کو بھی بہتر ڈھنگ سے چلا رہی ہوں، بچوں کی ٹیوشن، اسکول چھوڑنا لانے کے علاوہ گھر میں کھانہ، برتن اور تمام کاموں کو اپنے ہاتھوں سے انجام دینے کے ساتھ اپنے کرائے کے گھر کے اندر ایک کمرے میں چل رہے کاروبار سے اتنا کما لیتی ہوں جو میرے لئے مالک کے کرم سے کافی ہے۔
بہر کیف یہ ساری باتیں میں اس لئے کر رہی ہوں کہ میں اس کے ذریعہ اپنی ان بہنوں تک پہنچانا چاہتی ہوں جو مشکل کے وقت اپنی ہمت ہار جاتی ہیں یا خود خوشی کر لیتی ہیں یا کوئی اور راستہ اختیار کرتی ہیں۔ ان سبھی بہنوں سے میرا یہ پیغام ہے کہ حوصلہ اور صبر سب سے بڑی طاقت ہے۔ صبر کا دامن تھامے رکھیں اور مثبت کوششیں کرتی رہیں۔اپنے ہنر پر بھروسہ رکھیں اور کوشش کرتی رہیں۔یقینا ایک دن آپ ضرور کامیاب ہوجاؤ گی۔(چرخہ فیچرس)
