کئی خبر رساں اداروں نے اطلاع دی ہے کہ جموں کشمیر میں بچہ مزدوری پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے ۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ بچہ مزدوری میں کمی کے بجائے اضافہ دیکھنے کو مل رہاہے ۔ کئی ایسے کارخانے اور تجارتی مراکز دیکھے گئے جہاں کم عمر بچے کام کرتے ہیں ۔ خاص طور سے اینٹیں تیار کرنے کے بٹھوں میں ایسے بچے بڑی تعداد میں دیکھے گئے ۔ اس وجہ سے ان بچوں کی تعلیم چھوٹ جانے کے علاوہ ان کی صحت پر بھی برا اثر پڑتا ہے ۔ کئی غیر سرکاری تنظیموں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ متعلقہ سرکاری ادارے بچہ مزدوری کے حوالے سے خاطر خواہ انجام نہیں دے رہے ہیں ۔ سرکار کئی بار کہہ چکی ہے کہ بچہ مزدوری کو برداشت نہیں کیا جائے گا ۔ بچوں کو مزدوری سے نجات دلانے کے لئے کئی اسکیموں کا اعلان کیا گیا ۔ بلکہ اسکولوں میں یونیسف کے تعاون سے مڈ ڈے میل کا جو وسیع پروگرام چلایا گیا اس کا مقصد بھی بچوں کو مزدوری سے بچاکر اسکولوں میں داخل کرانا تھا ۔ تاکہ سو فیصد خواندگی کو ممکن بنایا جاسکے ۔ لیکن اس حوالے سے اطلاعات بڑی مایوس کن ہیں ۔ اسکولوں سے بچوں کے فرار میں اضافہ ہورہاہے اور ایسے بیشتر بچے مزدوری کرنے جاتے ہیں ۔ اسکولوں سے بچوں کا یہ فرار اور ان کا اس عمر میں مزدوری کے لئے جانا بڑا ہی افسوسناک معاملہ ہے ۔
کشمیر میں بچہ مزدوری کچھ مخصوص طبقوں کا قبیلوں میں پائی جاتی ہے ۔ پچھلے کچھ سالوں کے دوران جہاں پورے سماج میں غربت بڑھ گئی ہے وہاں پسماندہ طبقے اس کا خاص طور سے شکار ہوگئے ۔ کشمیر میں گوجر اور پہاڑی طبقے کم آمدنی والے طبقے ہیں ۔ غربت پر قابو پانے کے لئے یہ طبقے اپنے بچوں اور خواتین کو بھی مزدوری پر بھیجتے ہیں ۔ اس کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ بیو روکریسی اور پولیس میں اس طبقے کے جو آفیسر پائے جاتے ہیں وہ ایسے بچوں کو گھروں میں کام پر رکھتے ہیں ۔ ایسے بچوں کو تعلیم دلانے کے علاوہ معمولی اجرت کا وعدہ کیا جاتا ہے ۔ بعد میں معقول تعلیم دلائی جاتی ہے نہ برابر اجرت ادا کی جاتی ہے ۔ایسے اکثر بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخلہ رجسٹر پر اندراج تو کیا جاتا ہے ۔ لیکن اسکول بھیجنے کے بجائے گھروں میں ہی رکھا جاتا ہے ۔ ایسے بیشتر بچے یہاںنو آموز اطفال کو پالنے اور بازار سے سامان لانے کے لئے رکھے جاتے ہیں ۔ جب قانون نافذ کرنے والے ادارے اور وہاں کام کرنے والے آفیسر ہی بچہ مزدوری کو فروغ دینے کا باعث بنیں تو سماج کے اس ناسور کو قابو کرنا ممکن نہیں ہے ۔ اسی طرح سے بہت سے بچے کارخانوں میں بھی کام کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں ۔ چھوٹے ہوٹلوں ، ڈھابوں اور ہائی وے پر موجود ورک شاپوں میں کم عمر بچے کام کرتے نظر آتے ہیں ۔ غربت کی وجہ سے ان کے والدین اپنے لاڈلوں کو کام پر لگانے کے لئے مجبور ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کے والدین اپنی خوشی سے اپنے لاڈلوں کو کم عمری میں کام پر لگاتے ہیں ۔ بلکہ یہ لوگ سخت مجبوری کے تحت ایسا کرتے ہیں ۔ ان کی حالت زار بڑی مایس کن ہوتی ہے ۔ کام کرنے والے ان بچوں کی کفالت صحیح طریقے سے نہیں ہوتی ہے ۔ کام چونکہ غیرقانونی ہے ۔ اس وجہ سے ایسے بچوں کے حقوق کی بات کرنا ممکن نہیں ہے ۔ ان کے وسیع پیمانے پر استحصال کیا جاتا ہے ۔ اس موضوع پر اب تک بہت سی سرویز ہوئی ہیں ۔ کئی تجاویز بھی پیش کی گئی ۔ قوانین بھی بنائے گئے ۔ اس کو ناقابل معافی جرم بھی قرار دیا گیا ۔ اس کے باوجود صورتحال پر قابو پانا ممکن نہیں ہورہاہے ۔ یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ معاشرے کا ایک مخصوص طبقہ ان بچوں کا استحصال بڑے پیمانے پر کرتا ہے ۔ ان کی معصومیت پر داکہ ڈالا جاتا ہے ۔ ان کی غربت کا ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے ۔ ان کے والدین کو دھوکہ دے کر ان سے ان کے بچے چھینے جاتے ہیں ۔ ان سے کئے گئے وعدے پورے نہیں کئے جاتے ہیں ۔ بچوں کے والدین کسی کے پاس فریاد بھی نہیں کرپاتے ہیں ۔ اس طرح سے بچہ مزدوری کو فروغ مل رہا ہے ۔ اس وجہ سے پورے معاشرے پر برے اثرات پڑتے ہیں ۔ ایسے بچے آگے جاکر جرائم پیشہ بن جاتے ہیں ۔ بلکہ کئی ایک منشیات کے دھندے میں ملوث ہوتے ہیں ۔ خاص طور سے ڈھابوں میں کام کرنے والے بچے ایسے غیر قانونی کاموں میں ملوثپائے جاتے ہیں ۔ اسگلنگ ان کا مشغلہ بن جاتا ہے ۔ ان کے اپنے خواب ہوتے ہیں ۔ اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لئے یہ ہر جائز اور ناجائز کام کرنے کو تیار ہوتے ہیں ۔ شروعات بچہ مزدوری سے ہوتی ہیں ۔ اصل محرک بچہ مزدوری ہے اور یہ ایک بڑا ایشو ہے جس پر کام کرنا لازمی ہے ۔ یہ ایک حساس معاملہ ہے جس پر سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ والدین کو اپنے بچوں کے حوالے سے جانکاری دینا ضروری ہے ۔ والدین کو تیار کرنا ہے تاکہ وہ اپنی اولاد کو مزدوری پر لگانے کے بجائے اسکول بھیجنے کے لئے تیار ہوجائیں ۔ اساتذہ کو چاہئے کہ ایسے بچوں کے لئے اسکول کو دلچسپ بنائیں تاکہ وہ گھر بیٹھنے کے بجائے اسکول آنا پسند کریں ۔ اسی طرح ورکنگ لیڈیز کو اس بات پر آمادہ کرنا ہے کہ اپنی سہولت کے لئے دوسرے بچوں کا مستقبل ضایع نہ کریں ۔
