از : محمد انیس
عام طور پر ہمارے علماء ان مسائل پرقلم نہیں اٹھاتے۔ اس کا ایک اہم سبب اذان کے تقدس کو لےکر ہے ۔ لیکن ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس مسئلہ کی نسبت سے لوگوں کے ذہن میں بات واضح نہیں ہے ۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ مسجدوں میں زیادہ سے زیادہ لاؤڈ سپیکر لگانا اور اذان کی آواز کو دور دور تک پھیلانا ایک احسن عمل ہے۔ اس لئے ہر صورت میں یہ عمل جاری رہنا چاہئے ۔جہاں خالص طور پر مسلمانوں کی آبادی ہے وہاں یہ مسئلہ سنگینی نوعیت کا نہیں ہے۔ لیکن جہاں مخلوط آبادی ھے ، مخلوط رہائشی علاقے ہیں یا بازار اور شہر کا مقام ھے ‘ وہاں کبھی کبھی نزاع کی صورت پیدا ہوجاتی ھے۔ یہاں میں اسی حوالے سے اس مسئلہ پر چند گزارشات پیش کرونگا۔
ایک زمانہ تھا جب مسجدوں میں لاؤڈ سپیکر کے استعمال پر فتویٰ لگ گیا تھا ۔ اب جو مباح ٹھہرا تو اس میں اتنی شدت آگئی ہے کہ کوئی چار عدد سے کم پر راضی نہیں ہوتا اور وہ بھی full volume کےساتھ ۔ وہی لاؤڈ سپیکر جو کبھی حرام ہوا کرتا تھا ‘ اب اس پر ذرا سا اعتراض حرام کے درجے میں ہے’ درآنحالیکہ لاؤڈ سپیکر کی تیز آواز کو کوئی بھی شریف ادمی مبارک نہیں سمجھتا۔ اس بارے میں متعدد عدالتوں کے فیصلے آچکے ہیں جن میں مشترک طور پر کہا گیا ھے کہ آرٹیکل 25 کا حوالہ دیکر کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ لاؤڈ سپیکر کا استعمال اس کا دستوری حق ہے ۔ اصولی طور پر یہ مذہبی حق کےدائرے میں بھی نہیں آتا کہ آپ ان لوگوں کی سماعت کو disturb کریں جن کا تعلق آپ کے مذہب سے نہ ہو۔ عدالت نے یہ رولنگ بھی دی ھے کہ دن کے وقت 55 ڈیسیبل اور رات میں 40 ڈیسیبل سے زیادہ آواز مضر اثرات پیدا کرتی ہے ۔ جو لوگ مستقل طور پر تیز آواز کی زد میں ہوتے ہیں’ انہیں طرح طرح کے عوارض مثلاً چڑچڑاپن ،، ذہنی تناو، بلڈپریشر ، امراض قلب وغیرہ میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں ۔ لیکن ہمارے ارباب حل و عقد نہ کسی چیز میں اعتدال اختیار کرنا چاہتے ہیں اور نہ ملکی قانون کا لحاظ رکھنا جانتے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک مذہبی امر ہے ۔اس میں کوئی مداخلت نہیں کرسکتا۔ اس ضمن میں جب مسلمانوں کی طرف سے کوئی سدھار نہیں ہوا تو کہیں کہیں حکومتوں نے خود مناروں سے لاؤڈ سپیکر اتروا دئے ۔ ان مقامات پر پہلے اعتدال کی حد تک لاؤڈ سپیکر کی اجازت تھی’ اب وہ بھی نہ رہی ۔
چونکہ ہم نے ہر چیز میں اعتدال کے اسلامی طریقے کو چھوڑ دیا ہے ‘ اس لئے ہر محاذ پر ” آ بیل مجھے مار” جیسے مسائل پیدا ہوگئے ہیں ۔ اگر معتدل آواز میں اذان دی جائے تو کہیں کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا’ اور نہ کسی شرعی حکم کی تعمیل میں کمی کسر رہ جائے گی۔ اسلام اعتدال کا مذہب ہے ۔ ہر چیز میں اعتدال کو پسند کرتا ہے ۔ غلو کو پسند نہیں کرتا ۔ قرآن کریم میں اذان کا ذکر نہیں ہے ، لیکن عام حالات میں میانہ روی اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی آواز دھیمی رکھنے کا حکم قرآن کریم میں موجود ہے ( سورہ لقمان : 19).
بازار سے بڑے بڑے لاؤڈ سپیکر لاکر مسجدوں کے مناروں میں نصب کرنا اور پھر انتہائی بلند آواز سے اذان کی آواز کو پھیلانا کوئی احسن اور مہذب طریقہ نہیں ہے۔ اور نہ یہ کوئی کمال کا کام ہے ۔ متعلقہ مسجد کے نمازیوں تک اذان کی آواز پہنچ جائے’ اتنا کافی ہے ۔ اس ضمن میں مساجد کے ذمہ داروں کو حساس ہونا چاہئے ۔ اس لئے کہ یہ ایک حساس معاملہ ھے۔ مسجد کے ذمہ داروں کو اس بات کا ضرور نوٹس لینا چاہیے کہ کتنے volume پر اذان دی جارہی ہے ۔ انہیں جانکاری چاہئے کہ مسجد کے پروس میں کتنے مسلم گھرانے ہیں جن کو جماعت کی اطلاع دینی ہے اور اس کیلئے کتنی آواز کی ضرورت ہے ۔ دور دراز کے محلوں تک آواز پہنچانے کی ضرورت ہی نہیں ‘ کیونکہ وہاں کے مسلمان ان مسجدوں میں نماز کیلئے نہیں آتے بلکہ وہ اپنے قریب کی مسجدوں میں نماز ادا کرلیتے ہیں ۔ خصوصاً آس پاس کے دائرے میں اگر دوسرے مذاہب کے لوگ رہتے ہوں تو وہاں احتیاط برتنا لازمی ہے ۔ بازاروں اور مخلوط ابادیوں میں خصوصی طور پر احتیاط برتنی چاہئے ۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ معاملہ عدالت میں جائے یا سگینی صورت اختیار کرلے، تبھی ہم نوٹس لینے لگیں ۔ میری ناقص رائے ہے کہ اس معاملے میں مسلم پرسنل لا بورڈ کو کچھ اصلاحی قدم اٹھانا چاہئے اور ملک کی مسجدوں میں لاؤڈ سپیکر کی تعداد چار چھ سے گھٹاکر دو ایک پر لانا چاہئے ۔
آجکل تو بعض لوگ دعا درود اور سلام بھی لووڈسپیکر پر پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ دعا درود کو دوسروں تک پہنچانے کی ضرورت نہیں ہے ۔اگر وہ ایسا کرنا ضروری سمجھتے ہیں تو بےشک کریں۔ لیکن آواز پھیلانے کی کیا ضرورت ہے ۔ درود و سلام تو انسان کے دل سے متعلق امور ہیں اور بندوں سے تواضع کے ساتھ مطلوب ہیں ۔ شور برپا کرکے دوسروں کو سنانے سے کیا حاصل ہوگا ؟ الٹے ریاکاری کا گمان ہوتا ہے ۔ قرآن کریم میں ان چیزوں کیلئے یہ آداب بتائے گئے ہیں ۔۔
"اپنے رب کو گڑگڑا کر پکارو اور چپکے چپکے بھی ، یقینی طور پر وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔”( سورہ اعراف: 55).
اپنے رب کو یاد کروصبح و شام ، اپنے دل میں عاجزی اور خوف کے ساتھ اور کم آواز میں” ( اعراف : 205 ).
ایک حدیث کے مطابق رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” جلد ہی ایسے لوگ ائیں گے جو دعاؤں میں زیادتی کریں گے "( مسند احمد ، حدیث نمبر 5616)۔