وادی کے کئی ہسپتالوں سے اطلاع ہے کہ آشوب چشم کے کیسوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہورہاہے ۔ اس وجہ سے عوامی حلقوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے ۔ جب سے موسم میں تبدیلی آئی اور گرمی بڑھ گئی لوگوں کا کہنا ہے کہ آئی فلیو پھیلتا جارہاہے ۔ ہسپتالوں میں اس حوالے سے سخت رش پایا جاتا ہے ۔ لوگوں کی آنکھیں سوجھ گئی ہیں اور مریض آنکھوں میں درد کی شکایت کررہے ہیں ۔ خاص طور سے بچوں کے اندر اس قسم کے مرض کی شکایت کی جارہی ہے ۔ طبی ماہرین نے لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ احتیاط سے کام لیں اور فلیو سے بچنے کی کوشش کریں ۔ اس طرح کے امراض کے بارے میں لوگوں کو پہلے ہی آگاہی دی گئی ہے ۔ فلیو کی شکایت پہلی بار سامنے نہیں آئی ہے ۔ بلکہ کشمیر میں اکثر گلے ، ناک اور دوسرے اعضا کے فلیو سے متاثر ہونے کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ سردیوں میں اکثر لوگ زکام کے شکار رہتے ہیں ۔ اس طرح کے امراض سے متعلق کہا جاتا ہے کہ فلیو کی وجہ سے پھیل جاتے اور لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہیں ۔ کئی ہفتوں بلکہ مہینوں تک متاثر افراد اس کا شکار رہتے ہیں ۔ پھر جاکر چھٹکارا ملتا ہے ۔ اب آئی فلیو نے بہت سے لوگوں کو متاثر کیا ہے ۔لوگوں کو خدشہ رہتا ہے کہ کہیں بینائی نہ چلی جائے یا اس وجہ سے متاثر ہوجائے ۔ ڈاکٹروں نے ایسے خدشات مسترد کئے ہیں اور کہا ہے کہ ابھی تک ایسا کوئی کیس سامنے نہیں آیا ہے ۔ لیکن آنکھوں کی بینائی کا معاملہ بہت ہی حساس معاملہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ سخت تشویش کا اظہار کررہے ہیں ۔ اس تشویش کو دور کرنے کے لئے ڈاکٹر کوششوں میں لگے ہوئے ہیں ۔ کشمیر میں پائے جانے والے ڈاکٹروں پر لوگوں کا اعتماد بہت پہلے ختم ہوچکا ہے ۔ اس وجہ سے ان کے مشوروں کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی ہے ۔ ایسے ڈاکٹروں کے بارے میں عام لوگوں کا خیال ہے کہ کچھ زیادہ علم نہیں رکھتے ۔ خاص طور سے آشوب چشم کے اسباب کے بارے میں تک بندی کرتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ ہے کہ لوگ خوف زدہ ہیں ۔
آشوب چشم یا کوئی اور مرض ہو کشمیر میں لوگ ایسے موقعوں پر حد سے زیادہ تشویش کا اظہار کرتے ہیں ۔ یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ یہاں شعبہ صحت سرکار کی مسلسل کوششوں کے باوجود زیادہ ترقی نہیں کرسکا ۔ بڑے بڑے ہسپتال اس زمانے کے ہیں جب ابھی یہ شعبہ طفل مکتب ہی تھا ۔ عجیب بات ہے کہ اس زمانے کی انتظامیہ کو عوامی سہولیات کے حوالے سے فکر مندی تھی ۔ لیکن عوامی حکومت قائم ہونے کے ستھر سال بعد آج لگتا ہے کہ اتنے سارے سال عوامی بہبود کا کوئی بڑا کام نہیں کیا گیا ۔ لے دے کے صورہ میں ایک ہسپتال قائم کیا گیا ۔ لیکن اس کا بھرم بھی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا ۔ اسی کی دہائی میں اس کے نظام کو تہس نہس کیا گیا ۔ بڑی کوششوں کے باوجود آج تک یہاں نظم و ضبط بحال نہیں ہوسکا ۔ ڈاکٹر اور دوسرے ملازم اپنی مرضی سے آتے اور اپنی خواہش پر جاتے ہیں ۔ جو کوئی بھی عام شہری یہاں علاج کے لئے آتا ہے افسوس کرتے ہوئے واپس چلا جاتا ہے ۔ بغیر سفارش کے یہاں ڈاکٹر کسی مریض سے ہمدردی دکھائے ممکن نہیں ۔ ڈاکٹر تو جیسے کوئی نواب لوگ ہیں اور علاج کرنا ان کی ذمہ داریوں میں شامل نہیں ۔ ان کی دیکھا دیکھی میں طبی عملہ بھی اپنی من مانی کرتا رہتا ہے ۔ ہر ہسپتال میں یہی مزاج پایا جاتا ہے ۔ اس دوران کوئی فلیو پھیل جائے یا لوگ ایسے کسی وبائی مرض سے دوچار ہوجائیں تو علاج کے لئے ترستے رہتے ہیں ۔ کووڈ کے دوران لوگوں کو طبی ماہرین سے سخت مایوسی ہوئی ۔ اس کے فوراََ بعد چوپائیوں میں اسی طرح کی بیماری پھیل گئی ۔ کسی وائرس کا شکار ہونے کی وجہ سے خاص طور سے دودھ دینے والی گائیں مر گئیں ۔ کئی مہینوں تک غریب کسان چیختے چلاتے رہے کہ وائرس نے انہیں بڑی مصیبت سے دوچار کیا ہے ۔ لیکن ویٹرنری ڈاکٹروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ۔ انسانوں کی جانوں سے کھیلنا جہاں مشغلہ بن گیا ہو وہاں چوپایوں کی قدر و قیمت کی بات کرنا وقت ضایع کرنے کے مترادف ہے ۔ نظام صحت کو لے کر بار بار شکایات کی جاتی ہیں ۔ بلکہ کئی اموات کے حوالے سے الزام لگایا گیا کہ ڈاکٹروں کی لاپرواہی کا نتیجہ ہے ۔ لیکن آج تک ایسی شکایات پر کان دھرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ۔ وجہ یہ ہے کہ ایسے مصائب کا شکار وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی پہنچ محدود ہے ۔ پسماندہ اور غریب طبقوں سے تعلق رکھنے والے ان لوگوں کی شکایات قابل توجہ نہیں سمجھی جاتی ہیں ۔ بڑے لوگ زیادہ تر کشمیر سے باہر علاج و معالجہ پسند کرتے ہیں ۔ یہاں وہ کسی ہسپتال میں جائیں تو وہاں ان کی خدمت بہتر انداز میں کی جاتی ہے ۔ اس کے بعد ایسے لوگ اپنے سے کم تر لوگوں کی شکایات کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے ۔ آج بھی صورتحال یہی ہے ۔ راہ چلتے مسافر آشوب چشم کے مرض کا شکار ہورہے ہیں ۔ امیر طبقہ ایسے فلیو کی زد میں آنے سے رہ جاتا ہے ۔ غریب لوگوں کو بچانے کے لئے صحت شعبے کے لوگ حرکت میں آنے کو تیار نہیں ۔ انہوں نے لوگوں کو احتیاط کا مشورہ دیا ہے ۔ یہی ان کی بڑی مدد ہے ۔ اس کے علاوہ کچھ اور توقع رکھنا فضول ہے ۔