تحریر:جی ایم بٹ
مسلمانوں کے مسائل سے متعلق حساس حلقوں میں یہ جان کر خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ برطانیہ میں 8 مدارس ملک کے ٹاپ ٹونٹی تعلیمی اداروں میں شامل ہیں ۔ برطانیہ کی وزارت تعلیم کی طرف سے پچھلے دنوں جو رپورٹ سامنے آئی اس میں بتایا گیا کہ مسلمانوں کی زیر سرپرستی چلائے جانے والے آٹھ مدارس ملک کے سب سے اعلیٰ بیس تعلیمی اداروں میں شامل ہیں ۔ اس فہرست کے سامنے آنے سے پوری دنیا کے مسلمانوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے ۔ مدارس کا نام سامنے آتے ہی ایک ایسا منظر سامنے آتا ہے جہاں خستہ حال عمارت کے اندر پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس طالب علم مایوسی کی حالت میں پائے جاتے ہیں ۔ کالے کلوٹے اور اندر دھنسی ہوئی آنکھوں والے ان طالب علموں کے چہرے پرانے زمانے کے غلاموں کی اولاد دکھائی دیتے ہیں ۔ بلکہ اس بات کی بھی یاد آتی ہے کہ نائن الیون کے بعد برطانیہ کے اس وقت کے صدر نے ان مدارس کو دہشت گردوں کے اڈے قرار دیا تھا ۔ ان مدارس پر شکنجہ کسنے کی بات کی گئی تھی ۔ ان مدارس کو بند کرنے کے علاوہ کئی تحقیقاتی اداروں کو ان کی چھان بین کرنے کے احکامات دئے گئے تھے ۔ اس وقت برطانیہ میں آباد مسلمانوں میں سخت خوف پیدا ہوگیا تھا ۔ انہوں نے ایسے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے تحقیقاتی اداروں سے ہر سطح پر تعاون کرنے کا اعلان کیا ۔ مسلمانوں کو ان مدارس کو بحال رکھنے کے لئے قانونی چارہ جوئی کرنا پڑی اور بڑی مشکل سے یہ مدرسے وہاں بحال رکھے جاسکے ۔ آج یہ پیش رفت سامنے آئی کہ ان مدارس کا تعلیمی معیار بہت ہی متاثر کن ہے ۔ وزارت تعلیم نے کل 6500 تعلیمی اداروں کا تعلیمی معیار جانچ کر بیس اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک تعلیمی اداروں کی فہرست شایع کی ۔ ان تعلیمی اداروں میں مبینہ طور مدرسۃ التوحید واقع بلیک برن کو پہلے نمبر پر رکھا گیا ہے ۔ یہ بڑی خوش کن خبر ہے بلکہ قابل تقلید بھی ہے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ دنیا کے دوسرے علاقوں میں چلائے جانے والے مدارس کے سرپرست اس طرح کا ماحول اپنے مدارس کے اندرقائم کرنے کے لئے تیار نہیں اور نہ اپنے مدارس کا معیار بہتر بنانے کے مشوروں کو خاطر میں لاتے ہیں ۔ اعلیٰ معیار تعلیم رکھنے والے کئی مدارس کے بارے میں بہت پہلے بتایا گیا کہ قابل تقلید ہیں ۔ لیکن ایسے مشوروں کو مسترد کیا گیا اور اسلام کا حوالہ دے کر اس طرح کے لائحہ عمل اپنانے کو مدارس تباہ کرنے کی سازش بتایا گیا ۔ ایسے خیالات جب بھی سامنے آتے ہیں تو تمام ملا یکجا ہوکر اسے یہود و نصاریٰ کا ایجنڈا قرار دیتے ہیں ۔ اس کے بعد کسی کو بات کرنے کی جرات نہیں ہوتی ۔
برطانیہ جدید تعلیمی سہولیات اور اصلاحات سامنے لانے والا پہلا ملک ہے ۔ کوئی دو سو سال پہلے یہاں نئی تعلیمی پالیسی اختیار کی گئی ۔ بعد میں جب ہندوستان پر برطانوی تسلط ہوا تو یہاں بھی ایسی تعلیمی پالیسی اپنانے پر زور دیا گیا ۔ اس حوالے سے کلکتہ میں پہلا مدرسہ گورنر جنرل نے قائم کیا جہاں اسلامی قوانین کی تعلیم دی جاتی تھی ۔ بعد میں میکاولے کے تفصیلی رپورٹ کے تحت ایک نئی تعلیمی پالیسی اختیار کی گئی جو سرسے پیر تک انقلابی نوعیت کی تعلیمی پالیسی تھی ۔ میکاولے کے مشوروں سے بننے والا ایجوکیشن ایکٹ 1835 میں پہلی بار نصاب میں سائنسی تعلیم اور انگریزی زبان کو باہم مربوط کیا گیا ۔ اسی تعلیمی پالیسی کے تحت مذہبی تعلیم کو کرم خوردہ اور رجعت پسندی قرار دیا گیا ۔ میکاولے کے مشوروں میں ووڈس ڈسپیچ کے تحت کچھ ترامیم کی گئیں ۔ لیکن برطانوی انڈیا کے مسلمانوں نے ایسی کوئی بھی پالیسی ماننے سے انکار کیا اور اپنے روایتی نظام تعلیم کو بحال رکھنے کا اعلان کیا ۔یہاں تک کہ اس حوالے سے معمولی قسم کی لچک دکھانے والوں کو اسلام سے خارج اور انگریزوں کا ہی نہیں بلکہ عیسائیت کا مقلد و مبلغ قرار دیا گیا ۔ ایسے تمام جدیدیت پسندوں کو مسلمانوں کا دشمن اور انگریزوں کا ایجنٹ بتایا گیا ۔ مولویوں کی اس مخالفت کے نتیجے میں بہت کم ایسے لوگ تیار ہوگئے جو جدید طرز کے تعلیمی نظام کو اپنانے کے لئے سامنے آگئے ۔ اس حوالے سے سرسید کی کوششیں کامیاب رہیں ۔ تاہم ان کا حلقہ اثر محدود رہا ۔ ایسی سرگرمیاں اعلیٰ طبقے تک محدود رہیں اور دوسرے طبقوں پر اس کے اثرات بہت ہی قلیل رہے ۔ صحیح وقت پر صحیح تعلیمی نظام اختیار کیا گیا ہوتا تو آج تک جو پسماندگی نظر آتی ہے وہ موجود نہ رہتی ۔ برطانیہ کے مسلمانوں کی خوش قسمتی ہے کہ وہاں کے تعلیمی ادارے بڑے بڑے اسکالروں کی زیر نگرانی چلتے ہیں ۔ بیشتر ایسے مدارس ان نو مسلموں کی سرپرستی میں کام کرتے ہیں جو جدید تعلیمی اداروں کے پروردہ ہیں ۔ ان کا وژن وسیع ہے اور آنے والے زمانے کی ضرورتوں کا ادراک رکھتے ہیں ۔ اس کے برعکس برصغیر میں چلائے جانے والے مدارس کے قریب قریب تمام سرپرست اور اساتذہ School Drop Outs ہیں ۔ یہ لوگ فاقی کشی سے نجات حاصل کرنے اور مفت کھانا پینا میسر آنے کی وجہ سے ان مدارس میں داخل ہوگئے ۔ ایسا نہ ہوا ہوتا تو ان میں سے بیشتر جیب کترے ، خاکروب یا زیادہ سے زیادہ گاڑیوں کے ٹائر ٹھیک کرنے والے پھٹیچر ہوتے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں مدارس چلانے کے لئے بھیک اور خیرات سے زیادہ کوئی وسائل نظر نہیں آتے ۔ ایسی کمائی پر تعلیم حاصل کرنے والے کسی بھی صورت میں قوم کے بہی خواہ نہیں بن سکتے ۔ بلکہ ذہنی دیوالیہ پن کا مظہر ہی ثابت ہونگے ۔
