تحریر: محمد انیس
قرآن میں کہا گیا ہے کہ کفار سے قرآن کے ذریعے جہاد کبیر کرو ( سورہ فرقان : 52)۔ قرآن کے اس حکم کا کیا مطلب ھے ؟ قرآن تو کوئی جنگی ہتھیار نہیں ھے کہ اس کے ذریعے لڑائی کی جائے۔ دراصل یہاں جہاد کبیر سے مراد قرآنی حجت اور قرآنی دلائل ہیں ۔ اسی کو قرآن میں بڑا جہاد کہا گیا ھے ۔ یعنی قرآنی دلائل کے ذریعے دعوت الی اللہ (جہاد الدعوۃ) کا جو کام ہوگا وہ بڑا جہاد ہوگا جوکہ قیامت تک جاری رہیگا۔ اور یہ کام بالکل حکمت کے ساتھ احسن طریقہ سے ہونا مقصود ھے( سورہ نحل: 125)
تاہم مجرد جنگ کیلئے قرآن میں قتال کا لفظ استعمال ہوا ھے۔ لیکن قتال کے ساتھ بھی فی سبیل اللہ کی قید لگی ہوئی ھے ۔ اس کا مطلب یہ ھے کہ قتال ایسی راہ میں نہ ہو جو فی سبیل اللہ کی تعریف میں نہ آتی ہو۔ یہ خالص معرکہ حق و باطل کا نام ھے۔ کسی سیاست ‘ خود مختاری ‘ ملک کی آزادی یا موجودہ میلیٹنسی سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ اس معرکہ کا نام ھے جو خالص مذہبی اسباب کے تحت اپنے بچاؤ کیلئے لڑا چائے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جن جن جنگوں میں شریک ہونا پڑا، ان سب کا تعلق سیدھے مذہب سے تھا۔ مذہب کی وجہ سے ہی لوگ آپؐ کے دشمن ہوگئے تھے’ ورنہ وہ تو آپ کو بادشاہ بنانے کیلئے تیار تھے۔ مذہب کی وجہ سے ہی آپؐ اور آپؐ کے اصحاب کو گھروں سے نکالا گیا۔ اور مذہب کی وجہ سے ہی آپ سے جنگ کی گئی۔ مذہب کے علاوہ وہاں کوئی دوسرا اشو نہیں تھا ۔ قرآن کی آیت —؛
” یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دئے گئے صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے "( سورہ حج 40).
قتال کا ایک پہلو یہ بھی ھے کہ فتنہ کو ختم کرنے کیلئے رسولِ اکرم کو کفار عرب سے قتال کا حکم دیا گیا ( سورہ بقرہ 193، انفال 39)۔ فتنہ سے مراد شرک ھے اور اس کی مثال فتح مکہ ھے جہاں اتمام حجت کے مرحلے کے بعد رسول خدا نے شرک کا خاتمہ کیا اور سرزمین عرب میں دین پورا کا پورا اللہ کا ہوگیا۔
دراصل قدیم عہد جنگ و جدال کا عہد تھا ۔ اس وجہ سے تمام مذاہب کی کتب میں ضمنی طور پر جنگ سے متعلق ہدایات پائی جاتی ہیں۔ کوئی مذہب اس سے اچھوتا نہیں ۔ قرآن میں بیس پچیس آیات جہاد سے متعلق ہونگی۔ ہندو مذہب میں مہابھارت تو پوری طرح جنگ کی ہی داستان ھے ۔ مہا بھارت میں ارجن جنگ سے کترارہا ھے مگر شری کرشن اسے بار بار جنگ کی ترغیب دیتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہندو مذہب جنگ کی ترغیب دیتا ھے ۔ اسلام میں بھی اسی قبیل کی ہدایات موجود ہیں ۔ اس لئے کسی کو غلط فہمی نہ ہونی چاہئے۔ اسلام نے اپنے بچاؤ اور مظلوموں کی مدد کیلئے جہاد کا حکم دیا ھے’ نہ کہ کسی سیاست کیلئے یا دہشت گردی کے لئے۔ اس لئے جہاد کیلئے ہر جگہ فی سبیل اللہ کی قید لگائی گئی ھے ۔