گاندربل پولیس نے مبینہ طور گنڈ کنگن کے دو خودساختہ نوجوان صحافیوں گرفتار کیا ہے ۔ ان دو نوجوانوں کے بارے میں معلوم ہوا کہ لوگوں کو ڈرا دھمکاکر ان سے پیسے وصول کرتے تھے ۔ پولیس کو کئی روز پہلے ان کی غیر قانونی حرکات کی اطلاع ملی تھی ۔ تاہم شناخت نہ ہونے کی وجہ سے کوئی اقدام کرنا ممکن نہ ہوا ۔ اس دوران ایک شخص نے تھانے میں آکر ان سے سیکوٹر پر سوار دو ایسے نوجوانوں کے بارے میں اطلاع دی جو ان سے مکان کی تعمیر کے حوالے سے رشوت طلب کرتے تھے ۔ پولیس نے تحقیقاتی ٹیم مقرر کرکے ان کا پتہ لگاکر گرفتار کیا اور بھتہ خوری کے الزام میں کیس درج کیا ۔ یہ بڑا حوصلہ افزا قدم ہے کہ ایسے جعلی صحافیوں کو گرفتار کیا گیا ۔ معلوم ہوا ک دونوں نوجوان سیکوٹر پر کیمر اور موبائل فون لے کر ادھر ادھر گھومتے رہتے تھے اور خود کو صحافی ظاہر کرتے ہوئے لوگوں سے رقم وصول کرتے تھے ۔ پولیس کی اس کاروائی پر عوامی حلقوں کے علاوہ صحافتی حلقوں میں بھی اطمینان کا اظہار کیا جارہاہے ۔ ایسے کئی لوگوں کی ناجائز حرکات سے جہاں لوگوں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہاں اس سے صحافیوں کی بدنامی کا بھی خدشہ رہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس کی طرف سے کی گئی کاروائی کو خوش آئند قرار دیا جارہاہے ۔
کئی سالوں تک وادی میں نقلی بندوق برداروں کی وجہ سے لوگ سخت پریشانیوں میں مبتلا رہے ۔ ان کے خوف سے بہت سے لوگوں کو کافی نقصان اٹھانا پڑا ۔ اب کچھ عرصے سے اس طرح کے نقلی بندوق بردار خال خال ہی نظر آتے ہیں ۔ لیکن اس دوران بڑی تعداد میں نقلی صحافیوں کی ایک فوج منظر عام پر آگئی ہے ۔ سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے ایسے صحافی شہر و گام بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں ۔ پولیس کی کوشش رہتی ہے کہ خودساختی اور استحصالی کرنے والے ایسے میڈیا کے کارکنوں کے خلاف کاروائی کی جائے ۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ سیول ایڈمنسٹریشن کے ایسے اہلکار جنہیں سرکار سے زیادہ ذاتی تشہیر کی فکر ہوتی ہے ان فرضی میڈیا کارکنوں کے ناز نخرے اٹھاتے رہتے ہیں ۔ بہت سے آفیسروں کی کوشش ہوتی ہے کہ فیس بک پر مصروف رہنے والے افراد کو خوش رکھ کر اپنی تصاویر اپ لوڈ کرائی جائیں ۔ ان کی اس کوشش کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے میڈیا والوں کی ایک فوج تیار ہوگئی ہے ۔ ایسے فیس بک سپاہی بلاک آفیسروں ، تحصیلداروں ، ضلعی آفیسروں اور پنجوں سرپنجوں کی تصاویر اپ لوڈ کرکے سرکاری حلقوں میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔ کئی جگہوں سے ایسا لگتا ہے کہ پورا نظم و ضبط ان جعلی اور نقلی صحافیوں کے ہاتھوں میں آگیا ہے ۔ دیہی ترقی کے دفتروں ، میونسپلٹی کے آفسوں یہاں تک کہ ڈائریکٹروں اور ڈپٹی کمشنروں کے دفتروں میں یہ لوگ گپ شپ کرتے نظر آتے ہیں ۔ کوئی ان سے پوچھ گچھ کرتا ہے نہ ان کے صحافتی کیریر کے بارے میں تحقیق کرنے کے حق میں ہے ۔ اس طرح کی صورتحال کے اندر خودساختی صحافیوں کا پیدا ہونا یقینی ہے ۔ اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ ملک کے کسی دوسرے علاقے سے ایسی کوئی شکایت نہیں کہ میڈیا کی آڑ لے کر ٹھیکے حاصل کئے جاتے ہیں یا لوگوں سے تاوان حاصل کیا جاتا ہے ۔ کہیں پر یہ رواج نہیں کہ میڈیا والوں کو دفتروں کے چکر کاٹنے اور وہاں کھانے پینے کا رواج ہے ۔ جموں کشمیر ایک حساس علاقہ ہے ۔ ایسے علاقے میں اس طرح کی ناجائز سرگرمیوں کی ہر گز اجازت نہیں ہونی چاہئے ۔ سرکار نے لازمی قرار دیا ہے کہ کسی طرح کی میڈیا سرگرمیوں سے پہلے انفارمیشن ڈپارٹمنٹ سے اجازت اور کارڈ حاصل کرنا ضروری ہے ۔ یہاں اصولو ضوابط کا کوئی پاس و لحاظ نہیں کیا جاتا ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اینڈرائڈ فون کی مدد سے بنے ان میڈیا والوں سے ان کی شناخت ظاہر کرنے کی کوئی جرات بھی نہیں کرتا ۔ جو کوئی ان کی شناخت کے بارے میں پوچھتا ہے تو یہ جھٹ سے ڈی سی یا ایس پی کو فون لگاتے ہیں ۔ وہاں سے ان کی پوری حمایت ہوتی ہے ۔ ایسے ماحول میں ان کی سرگرمیوں کو روکنا بہت مشکل ہے ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہر ایرا غیرا نتھو خیرا صحافی ہی نہیں سینئر صحافی کہلاتا ہے ۔ اس دوران گاندربل پولیس کی طرف سے جو کاروائی ہوئی وہ اپنی جگہ حوصلہ افزا کاروائی ہے ۔ اس کو دیکھ کر امید کی جارہی ہے کہ دوسرے علاقوں میں بھی چھان بین کرکے خود ساختہ اور فرضی میڈیا والوں پر لگام کسنے کا فریضہ انجام دیا جائے گا ۔ ان کے لئے ضابطہ اخلاق مقرر کیا جائے ۔ بلکہ پہلے سے بنائے گئے ضابطہ اخلاق کو لاگو کیا جائے ۔ خاص طور سے میڈیا کے نام پر استحصال کرنے والوں کو لگام دینا ضروری ہے ۔ بے لگام گھوڑوں کی طرح ایسے میڈیا والے سماج میں ناسور پھیلا کر نظم و ضبط کو تباہ کرتے ہیں ۔ صحافی سماج کا ایک اہم حصہ ہی نہیں بلکہ باعزت طبقہ ہے ۔ اس کے تقدس کو پامال نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ نقلی صحافی اس کو کمزور بنانے کا باعث بن رہے ہیں ۔ صحافتی حلقوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کے اندر کسی نااہل کو گھسنے نہ دیں ۔ ایسا کرکے یہ خود اپنی بے عزتی کراتے ہیں ۔