تحریر:جی ایم بٹ
جنوبی کشمیر کے گڈول کوکر ناگ علاقے میں بدھوار کو ملی ٹنٹوں کے ساتھ ہوئی خونریز جھڑپ میں تین سیکورٹی آفیسر مارے گئے اور تین جوان شدید گھائل بتائے جاتے ہیں ۔ مارے گئے آفیسروں میں کشمیر پولیس کا DySP سہیل بٹ بھی شامل ہے ۔ اس حوالے سے جو تفصیل سامنے آئی ہے اس سے پتہ چلا کہ سیکورٹی فورسز کو گڈول کے جنگلوں میں موجود عسکریت پسندوں کی ایک کمین گاہ کے بارے میں اطلاع ملی تھی ۔ اطلاع ملتے ہی علاقے کا وسیع آپریشن شروع کیا گیا ۔ اس درمیان جب فورسز کی پیش قدمی جاری تھی اور وہ کمین گاہ کے نزدیک پہنچنے والے تھے کہ ان پر شدید فائرنگ کی گئی ۔ اس فائرنگ کی زد میں آکر فوج کے کرنل ، میجر اور پولیس کے ڈی ایس پی سہیل بٹ شدید زخمی ہوگئے ۔ انتظامیہ نے مقامی لوگوں کی مدد سے زخمی اہلکاروں کو نزدیک واقع ایک میدان میں لایا اور ہیلی کاپٹر بلایا تاکہ انہیں ہسپتال لے جاکر طبی امداد فراہم کی جائے ۔ لیکن شدید فائرنگ کی وجہ سے ہیلی کاپٹر بر وقت اتارا نہ جاسکا ۔ اس دوران تینوں زخمی آفیسر دم توڑ بیٹھے ۔ دم توڑنے والے ان آفیسروں میں سہیل بٹ نامی نوجوان پولیس کے ریٹائرڈ ڈی آئی جی غلام حسن بٹ کا بیٹا ہے ۔ فوجی آفیسروں کی شناخت کرنل من پریت سنگھ اور میجر اشیش دھن وک کے طور ہوئی ہے ۔ان ہلاکتوں پر سخت دکھ اور افسوس کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ لیفٹنٹ گورنر کے علاوہ فوج اور پولیس کے تمام بڑے عہدیدار ہلاک کئے گئے آفیسروں کو آخری سلام پیش کرنے کے لئے حاضر ہوئے ۔ اس موقعے پر سب سے اندوہناک منظر اس وقت دیکھنے کو ملا جب ریٹائرڈڈی آئی جی غلام حسن بٹ اپنے بیٹے کو آخری سلامی دینے وہاں پہنچ گئے ۔ حسن بٹ کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ پولیس کے کئی اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے کے بعد 2018 میں ڈی آئی جی بن کر سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوئے ۔ اسی سال ان کا بیٹا سہیل پولیس میں بطور ایک آفیسر کے بھرتی ہوگیا اور اس وقت ایس ڈی پی او کوکرناگ کے طور کام کررہا تھا ۔
کوکرناگ میں ہوئی جھڑپ 2019 کے تاریخ ساز سال کے بعد کشمیر میں ہوئی سب سے خونریز اور خطرناک جھڑپ بتائی جاتی ہے ۔ اس میں ہوئی ہلاکتوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ شدید ترین جھڑپ تھی ۔ دیگر فورسز اہلکاروں کے ساتھ ہمایوں بٹ کی ہلاکت نے پورے کشمیر میں ماحول کو سوگوار بنادیا ۔ ہمایوں گوکہ ایک پولیس آفیسر کا بیٹا تھا اورخودد بھی اعلیٰ عہدے پر فائز تھا ۔ اس کے باوجود ان کے دوست اور دوسرے احباب کا کہنا ہے کہ بڑے حلیم اور شریف نوجوان تھے ۔ حسن بٹ نے خود ترال میں ایک متوسط گھرانے میں پرورش پائی ہے ۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی بڑے لائق و فائق سمجھے جاتے تھے ۔ پولیس میں کام کرنے کے دوران ایک باحوصلہ اور نظم وضبط کے پابند آفیسر مانے جاتے تھے ۔ عیاشیوں سے دور معتدل زندگی گزارنے والے اس آفیسر نے کبھی بھی پولیس ڈسپلن سے سمجھوتہ نہیں کیا ۔ بلکہ ہمیشہ ہی نظم وضبط کو اہمیت دی ۔ کورپشن سے پاک و صاف اس آفیسر نے مبینہ طور گھر میں بھی بڑا اچھا ماحول تیار کیا تھا ۔ اس طرح کے ماحول میں ہمایوں کی پرورش اور نگہداشت ہوئی ۔ اس طرح کے ماحول میں پلے بڑے اپنے لاڈلے بیٹے کی نعش والدکے سامنے آگئی تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے دل پر کیا گزری ہوگی ۔ تاہم جانکار حلقوں کا کہنا ہے کہ ایسے حادثات حسن بٹ کو ہلانے کے باوجود ان کے ایمان کو متزلزل کرنے کا باعث نہیں بن سکتے ہیں ۔ ان کے اندر اس طرح کے حوادث کو برداشت کرنے کا حوصلہ پایا جاتا ہے ۔ باپ کے لئے اپنے بیٹے کے تابوت کو کندھا دے کر اس کو قبر میں اتارنا ایک صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے ۔ یہ ناقابل برداشت منظر ہے ۔ لیکن موت کی حقانیت اور اس کے رموز سے واقف لوگ آپے سے باہر نہیں ہوتے ۔ بلکہ ان کے اندر جو آگ لگی ہوتی ہے اس کا دھواں باہر نہیں آنے دیتے ۔ کشمیر میں پچھلے کئی سالوں سے آگ و خون کا اس طرح کا کھیل جاری ہے ۔ اس کھیل نے کتنے ہی ہونہار نوجوانوں کو نگھل لیا ۔ کئی شریف اور سادہ مائوں کی گود اجاڑدی ۔ بیوائوں اور یتیموں کی ایک فوج پیدا کی ۔ آج ہمایوں کے روپ میں اس نسل پر پھر سے ڈاکہ ڈالا گیا۔ ایک ماں کی گود سے اس کا بیٹا چھین لیا گیا۔ باپ کو بے سہارا کردیا گیا ۔ ایک جواں سال خاتون کو شادی کے صرف ایک سال بعد بیوگی کا دکھ دیا گیا۔ سب سے دلدوز بات یہ ہے کہ ایک ڈیڑھ ماہ کے معصوم کو یتیم بناکے رکھ دیا گیا ۔ کل جب یہ بیٹا کچھ بڑا ہوکر اسکول جائے گا تو قدم قدم پر یتیمی کا بوجھ اٹھاکے چلے گا ۔ اس کے ساتھ وہاں موجود دوسرے بچے بات بات میں اپنے ڈیڈی کا ذکر کرتے رہیں گے ۔ تو ہمایوں کا یہ یتیم بے بسی سے ان کو دیکھتا رہے گا اور چپکے سے آنسوں بہاتا رہے گا ۔ انکائونٹر کی جو کہانی آج خون سے لکھی گئی آگے جاکر ہمایوں کے معصوم بیٹے کے آنسوں سے لکھی جائے گی ۔ موت تو بہر حال ایک حقیقت ہے ۔ لیکن ہمایوں کی موت کسی خوفناک خواب سے کم نہیں ۔ اس بارے میں اس کے والدین اور دوسرے احباب و اقارب نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا ۔ موت سے کسی کو نجات ممکن نہیں ۔ اس کو کسی نہ کسی دن آنا ہی ہے ۔ زندگی کا ایک دن خاتمہ ہونا یقینی ہے ۔ لیکن کوئی موت ایسی ہوتی ہے جو پوری بستی کو ہلاکے رکھ دیتی ہے ۔ ہمایوں کے موت کی گونج گڈول سے ہمہامہ تک اور ترال سے دہلی تک سنی گئی ۔ ہمایوں کی موت نے ایک گھر کو نہیں بلکہ ایک بڑی آبادی کو اجاڑ کے رکھ دیا ۔ آج جب سب ہی لوگ اس کو خراج عقیدت پیش کررہے ہیں تو دیکھنا ہے کہ وہ ایسا سربلند کیسے ہوا ۔ وہ صرف خود سربلند نہیں ہوا بلکہ اپنے والد کی پرانی وردی پر نئے میڈل لگاکر اس کو بھی سرخ رو کردیا ۔
