تحریر:سیدہ اظہرہ کاظمی
دنیا ایک امتحان گاہ ہے۔ یہاں ہر ایک کو امتحان سے گزر نا ہوتا ہے۔ہر شخص کسی نہ کسی آزمائش سے گزرتا ہے۔کوئی دولت شہرت اور اقتدار کے ذریعے تو کوئی غربت بھوک افلاس اور محکومی کے ذریعے توکوئی صحت تندرستی اور طاقت کے ذریعے تو کوئی بیماری اورمعذوری کی صورت میں آزمائش میں مبتلاہے۔ اول الذکر آزمائش سے سرخروئی نسبتاً آسان ہے لیکن دیگر آزمائشیں بہت سخت ہوتی ہیں جیسے بہت زیادہ غربت بھوک اور افلاس۔ لیکن ان سب میں معذوری سب سے کڑی آزمائش ہوتی ہے۔بالخصوص جسمانی معذوری بہت زیادہ تکلیف دہ اور صبر آزما ہوتی ہے۔لفظ معذوری سے مراد مختلف قسم کی جسمانی، ذہنی یا فکری کیفیت ہوسکتی ہے۔جیسے نقل و حرکت کے نقائص،بصری نقائص،سمعی نقائص،ذہنی صحت (نفسیاتی) معذوریاں،فکری۔دماغ کے حصے مخ کبیر میں اگر نقص ہو تواکتسابی معذوری نمودار ہوتی ہیں۔مخ کبیر بنیادی طور پرزبان دانی،ذہانت اورفکری افعال کو سرانجام دیتا ہے اور مخ کبیر کو ذہانت کا مرکز بھی کہا جاتا ہے۔جسمانی یا دماغی معذوری کا شکار افراد سیکھنے کے عمل میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔ جسمانی معذوری کا شکار بچوں کو کند ذہن اور کا ہل بھی نہیں کہا جاسکتا ہے۔ ذہنی معذوری سے متا ثر بچے دیگر بچوں کی طر ح ذہین،ہوشیار اور عقلمند واقع ہوتے ہیں۔ لیکن اگر انہیں استاد اکتساب پڑھائے۔
جموں کے ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی کے گاؤں سٹیلا جو کہ بلاک لورن کا ایک ایسا گاؤں ہے جہاں لوگوں کو کسی بھی قسم کی سہولت میسر نہیں ہے۔ اگر غور کیا جائے تو معذور لوگوں کی زیادہ تعداد بھی اسی گاؤں میں ہے۔گاؤں سٹیلا کے رہنے والے محمد بشیر جنکی عمر چالیس سال ہے، وہ کہتے ہیں کہ میرے دونوں بیٹے محمد عرفان اور رضوان معذور ہیں۔ حالانکہ یہ دونوں بچپن سے معذور نہیں تھے۔ جوں ہی انکی عمر سات سال ہوئی اچانک سے ہی انہوں نے چلنا پھرنا چھوڑ دیا۔وہ کہتے ہیں کہ محمد عرفان جو میرا بڑا لڑکا ہے وہ تو بلکل چل پھر نہیں سکتا ہے۔اسکے جسم میں خون حرکت نہیں کرتا ہے۔ہڈیاں خون اور اور جسم کا میٹ الگ الگ ہے۔ جب کہ وہ دکھنے میں صحیح سلامت دکھتا ہے۔ میں نے اپنی زمین بیچ کر اسکا علاج چندی گڑھ کے بڑے ہسپتال میں بھی کروایا لیکن وہاں ڈاکٹروں نے اسکو لا علاج قرار دے دیا۔ اب میں اسکی خدمت خاطر گھر پر ہی کرتا ہوں کیونکہ میں اب ہر طرف سے نا اُمید ہو چکا ہوں۔ میں نے دونوں بیٹوں کے لیے اپنے پیسوں سے وہیل چیئر خرید کر لایا ہوں۔ اسی پربیٹھا کر میں انکو ادھر اُدھر لے جا تا ہوں۔ رضوان جو میرا چھوٹا بیٹا ہے۔ یہ بھی سات سال کی عمر میں پہنچ کر اچانک معذور ہو گیا۔ اسکی عمر ابھی گیارہ سال ہے۔ یہ اس وقت چنڈی گڑھ میں زیرِ علاج ہے۔ بڑے بیٹے کے علاج کے لیے تو میں نے زمین بھی بیچ دی لیکن اب میرے پاس بیچنے کو کچھ بھی باقی نہیں ہے۔ میں مزدوری بھی نہیں کر سکتا کیونکہ میں ہر روز ان دونوں بیٹوں کو ٹھیک دیکھنے کے لیے چندہ کرنے پورے ضلع پونچھ کے گاؤں گاؤں میں گھومتا ہوں۔ کبھی کبھار اسپیشل گاڑی کر کے میں ان دونوں کو ساتھ لے جاتا ہوں تا کہ لوگوں کو یقین ہو کے یہ جھوٹ بول کر پیسہ نہیں لیتا ہے۔ جب تھوڑی رقم جمع ہو جاتی ہے تو میں چھوٹے بیٹے رضوان کو چنڈی گڑھ لے جا کر علاج کرواتا ہوں۔ ہر بار ایک لاکھ یا پچاس ہزارکا خرچہ آتا ہے۔
وہی دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو میرے دونوں بیٹوں کا نام اسکول میں درج تھا لیکن گورئمنٹ مڈل اسکول کے اساتذہ نے میرے دونوں بیٹوں کا نام اسکول سے خارج کر دیا ہے۔ میں نے جب اُن سے پوچھا تو کہنے لگی ہم ایسے بچوں کا نام اپنے اسکول میں درج نہیں رکھ سکتے جو معذور ہوں۔ وہاں کے اساتذہ نے یہ بھی کہا کہ جو بچہ روزانہ اسکول نہیں آئے گا اسکا نام ہم اسکول میں نہیں رکھ سکتے۔ مجھے بڑا افسوس ہوا جب اساتذہ یہ باتیں بولیں۔ میرا چھوٹا بچہ رضوان جو چل پھر بھی نہیں سکتا اور چنڈی گڑھ میں زیر علاج بھی ہے۔ہر مہینے میں دس دن وہاں کے ہسپتالوں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں اور جیتنے دن گھر ہوتا ہوں تو میں رضوان کو اپنے کاندھے پر اٹھا اسکول چھوڑ کر آتا ہوں۔وہ بتاتے ہیں کہ رضوان پلین جگہ پر دوسے دس میٹر تک پھر بھی چل سکتا ہے لیکن اونچی اور پہاڑی جگہ میں چلنے میں اسے بہت دشواری پیش آتی ہے۔ اب رہی بات اساتذہ کی انکو چائیے کے میری بیٹوں کا مستقبل برباد نہ کریں۔ مجھے انصاف دیں۔ گورئمنٹ سے بھی میری درد مندانہ اپیل ہے کہ میری مالی طور پرمدد کی جائے تا کہ میرے بیٹوں کو اس بیماری سے نجات مل پائے۔اس سلسلے میں مقامی شاہدہ اختر کا کہنا ہے کہ معذوروں کو صرف رحم کی نظر سے دیکھنے کے بجائے انھیں اپنے پاؤں پر کھڑے رہنا سکھانا بھی ایک بڑا کار خیر ہے۔ بچہ جب پیدائشی معذورہوتو اس کا کرب کتنا شدید ہوتا ہے،اس کا اندازہ آپ ان والدین کو دیکھ کر لگا سکتے ہیں۔ والدین بھی اگر معاشی طور پر کمزور ہوں تو رہی سہی کمربھی ٹوٹ جاتی ہے۔ اپنے معذور بچوں کی پرورش اورانکی نشوو نما کے بارے میں سوچ سوچ کر ہی ایسے والدین پریشان ہو جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر محمد بشیر کو لے لیجئے۔جن کے بھی دونوں بچے معذور ہیں۔ اب محمد بشیر نہ مزدوری کر سکتے نہ ہی کچھ اور روز گار کر سکتے۔ انکی زندگی بڑی مشکلات سے گزر رہی ہے۔ دونوں بچے ایک ساتھ معذور ہونے کے بعد انکے گھر کے حالات ابتر ہو گئے ہیں۔ محمد بشیر کے بغیر گھر میں اور کوئی سہارا نہیں ہے جو انکو کما کر کھلائے۔ وہ پورا دن ان دونوں بیٹوں کی پرورش میں لگے رہتے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ یہ دونوں خودسے باتھرُوم تک نہیں جا سکتے،خود سے نہا نہیں سکتے ہیں، کپڑے بدلنے، بالوں کی کٹنگ کرنی، کنگا کرنا، ناخن کاٹنا، اپنے ہاتھوں سے خود کھانا کھانا تک ممکن نہیں ہے۔ یہ سب کام محمد بشیر کو کتنی پڑتی ہے۔ افسوس کے ان دونوں بچوں کے لیے گورنمٹ کی طرف سے کوئی مدد آج تک نہ ہو سکی۔ اس سلسلے میں ان کے ایک پڑوسی محمد مشتاق،جنکی عمر پچیس سال ہے،کہتے ہیں کہ میں روزآنہ اپنی آنکھوں سے ان دونوں بچوں کو دیکھتا ہوں۔ یہ دونوں بہت بڑی تکلیف کا سامنا کر رہے ہیں۔ انکے والد محمد بشیر نے اپنے دونوں بیٹوں کا علاج و معالجہ بھی کروایا لیکن پیسے کم ہونے کی وجہ سے انکا علاج اچھے سے نہیں ہو پاتا ہے۔ چنڈی گڑھ کے ڈاکٹروں نے کہاں ہے کہ ایک چھوٹے لڑکے کے علاج کے لیے ایک وقت میں دس لاکھ چاہیے۔لیکن یہ غریب انسان ایک وقت میں اتنی بڑی رقم کہاں سے لائے گا؟ گھر کے مالی حالات بھی ٹھیک نہیں ہیں۔ بیٹوں کا علاج کروا کروا کے اس نے اپنی جائیداد تک بیچ دی۔ میں اعلیٰ حکام سے یہ گزارش کرتا ہوں کہ اس غریب آدمی کی سنی جائے۔سماجی بہبود کا محکمہ اسکا پورا پورا خرچہ اٹھائے تا کہ ان کے دونوں بیٹوں کا بہترعلاج ممکن ہو سکے۔
بچوں میں معذوری کی علامت کے سلسلے میں ڈاکٹر محمد خلیل بتاتے ہیں کہ پیدائشی معذوری تو ایک الگ بات ہے۔ لیکن جب بچے صحیح سلامت پیدا ہوتے ہیں تو کچھ لا پرواہی والدین کی طرف سے ہوتی ہے جو اپنے بچوں کو بچپن میں انجیکشن کا پورا ڈوزنہیں لگواتے ہیں۔بچوں کوپہلا انجیکشن دوسرے یا تیسرے مہینے میں لگوا لینی چاہئے۔لیکن بیداری کی کمی کی وجہ سے والدیں اس کی اہمیت کو نہیں سمجھتے ہیں اور لاپرواہی برتتے ہیں۔ اپنے بچوں کی زندگی کا خیال نہیں کرتے۔ ہمارے معاشرے میں کئی ایسے لوگ ہیں جو اپنے بچوں کو کبھی زندگی میں انجیکشن نہیں لگواتے ہیں۔پہلا تو میں نے بتایا کہ تین مہینے میں لگوا لینا چائیے۔ دوسرا چھ ماہ کے بعد اور اُسکے بعد کافی وقفہ چھوڑ کر لگواتے رہیں۔وہ کہتے ہیں کہ پانچ سال تک وقت سے انجیکشن لگوانے سے بچوں میں معذوری کبھی نہیں آتی ہے۔جن بچوں کو بچپن میں انجیکشن نہیں لگتے ان میں سات یا آٹھ سال کی عمر میں اچانک معذوری کی علامت ابھر کر سامنے آنے لگتی ہے۔لہذا والدین کو وقت پر اپنے بچوں کو تمام انجیکشن لگوانی چاہئے۔ (چرخہ دفیچرس)