ندیم خان/ بارہمولہ
دنیا دو سال قبل کورونا کی وبا سے بمشکل نکلی تھی جب یہ قدرتی آفات اور جنگوں کے ایک ایسے سلسلے میں داخل ہوئی جو ابھی ختم نہیں ہوئی۔ روس یوکرین کی جنگ 2022 ء سے جاری ہے اور اس کے اختتام تک رکنے کے آثار نظر نہیں آتے۔ آئیے ہم 2023 ء کے لیے مشرق وسطیٰ اور عرب ممالک میں پیش آنے والے نمایاں ترین واقعات کا جائزہ لیتے ہیں۔
ترکی اور شام میں زلزلے:
6 فروری 2023 ء میں ترکی اور شام کے علاقوں میں ایک تباہ کن زلزلہ آیا جس کی شدت ریکٹر سکیل پر 7.8 تھی، اس کے بعد تقریباً اسی شدت کا ایک اور تباہ کن زلزلہ آیا۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دو زلزلوں کی وجہ سے حال ہی میں خطے میں سب سے بڑی تباہی آئی ہے ۔ اس کی وجہ سے تقریباً 55,000 ہلاک اور 100,000 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے شائع کردہ اعداد و شمار کے مطابق ، دونوں زلزلوں سے ترکی میں تقریباً 273,000 عمارتیں اور شام میں 9,000 سے زیادہ عمارتیں تباہ ہوئیں۔ صرف ترکی میں، 3.3 ملین سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے، جبکہ 20 لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہو گئے، اور ترک حکومت نے بعد میں متاثرہ افراد کو معاوضہ دینے کے لیے 650,000 نئے ہاؤسنگ یونٹس بنانے کے منصوبے کا اعلان کیا۔
سوڈان کی جنگ:
15 اپریل کو، ملک کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عبدالفتاح البرہان کی قیادت میں سوڈانی فوج اور ہمدتی کے نام سے مشہور محمد حمدان دغلو کی نیم فوجی ریپڈ سپورٹ فورسز کے درمیان اقتدار کے حصول کی جدوجہد میں جھڑپیں شروع ہوئیں۔ اقوام متحدہ نے سوڈانی وزارت صحت کی رپورٹ کے مطابق، دونوں فریقوں کے درمیان تشدد میں اضافہ ہوا اور اس جنگ میں کم از کم 12,000 افراد ہلاک اور 33,000 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ اقوام متحدہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ لڑائی، جسے اس نے “سفاکانہ” قرار دیا ہے، ایک تباہی کا باعث بنی ہے، جس میں 5.6 ملین سے زیادہ لوگ اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے، تقریباً 25 ملین افراد کو امداد کی ضرورت ہے۔
مراکش میں زلزلہ:
9 ستمبر 2023 ء کو مراکش میں آنے والے زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر 6.8 تھی اور اس کا مرکز الحوز صوبے میں تھا۔ اس زلزلے میں تقریباً تین ہزار افراد ہلاک ہوئے، اس کے علاوہ دسیوں ہزار زخمی ہوئے۔ اور درجنوں شہروں اور دیہاتوں کو تباہ کر دیا۔ مراکش کی شاہی عدالت نے کہا کہ اس نے الحوز، مراکش، اور زازات، عز یلال کے صوبوں اور علاقوں کی تعمیر نو کے پروگرام کے تحت اگلے پانچ سالوں کے دوران 120 بلین درہم یا تقریباً 12 بلین ڈالر مختص کیے ہیں۔ زلزلے سے ہونے والے نقصان سے مراکش شہر کے تاریخی اور آثار قدیمہ کے علاقے متاثر ہوئے ، جو یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ امریکی جیولوجیکل سروے نے کہا کہ خطے میں اس سائز کا زلزلہ عام نہیں ہے، کیونکہ 1900ء کے بعد سے اس شدت کے زلزلے نہیں آئے۔
لیبیا میں سیلاب:
مراکش میں آنے والے زلزلے کے چند دن بعد، 11 ستمبر کو سمندری طوفان ڈینیئل لیبیا کے مشرقی ساحل سے ٹکرا گیا، جس سے پورا علاقہ سیلاب کی زد میں آگیا اور ہزاروں افراد ہلاک اور لاپتہ ہوگئے۔ درنہ، بن غازی، البیضاء، سوس، المرج اور شحات سے ٹکرانے والے سمندری طوفان نے تباہ کن سیلاب پیدا کر دیا، جس نے تقریباً دو لاکھ افراد کی آبادی والے شہر درنا کو دو مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم کر دیا۔ اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو بہا کر لے گیا۔ شہر کو سیلاب سے بچانے کے لیے 1970ء میں ڈیرنا میں بنائے گئے دو ڈیم بھی ٹوٹ گئے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کا کہنا ہے کہ سمندری طوفان اور اس کے نتیجے میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے کم از کم 4,333 افراد ہلاک ہوئے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر وولکر ٹرک نے کہا کہ لیبیا میں آنے والا طوفان ڈینیئل “آب و ہوا کی تبدیلی کے ہماری دنیا پر پڑنے والے تباہ کن اثرات کی ایک اور سخت یاد دہانی ہے۔”
غزہ جنگ:
اسرائیل اور حماس کے درمیان 7 اکتوبر سے جنگ جاری ہے۔ اب تک اسرائیل غزہ کی پٹی میں تقریباً 20 ہزار فلسطینیوں کو ہلاک کرچکا ہے، ملبے تلے دبے ہوئے لاپتہ افراد کا ذکر نہیں کیا گیا، جب کہ 16 سال سے زائد عرصے سے محاصرے میں رہنے والی پٹی میں وزارت صحت کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 70 سے زائد متاثرین میں فیصد بچے اور خواتین ہیں۔ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ اس وقت شروع ہوئی جب تحریک کی جانب سے غزہ کے اطراف کے علاقوں پر حملہ کیا گیا، جس میں اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق 1200 افراد ہلاک ہوئے۔ جنگ صرف ایک ہفتے کے لیے رکی، جس کے دوران دونوں فریقوں نے اسرائیلی جیلوں میں قیدیوں کا تبادلہ کیا، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے، اس کے بدلے میں حماس کے زیر حراست شہری قیدیوں کی رہائی ہوئی۔ کئی شہروں میں جنگ کے خاتمے، شہریوں کے قتل عام اور یرغمالیوں کی رہائی کے مطالبات کے لیے مارچ کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ جبکہ اسرائیلی حکومت اپنے اعلان کردہ ہدف کے حصول کے لیے جنگ جاری رکھنے پر اصرار کرتی ہے، جو کہ “حماس کو ختم کرنا” ہے۔
روس یوکرین تنازع کا حل تلاش نہ کیا جاسکا:
رواں برس 24 فروری کو روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کو ایک سال پورا ہوا۔ اس دوران درجنوں شہر ملبے کا ڈھیر بن گئے، ہزاروں زندگیاں موت کی نذر ہو گئیں اور لاکھوں افراد بھوک اور بے گھری کے عذاب کا شکار بن گئے۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا کہ اس جنگ کے شعلے پوری دنیا میں پھیل سکتے ہیں لیکن نتیجہ خیز حل تلاش کرنے میں ناکام رہا۔ چینی صدر شی جن پنگ کے دورہ روس کے دوران اہم پیش رفت کی توقعات باندھی گئیں۔ چین نے 12 نکاتی ایجنڈے پر روس سے تبادلہ خیال کیا لیکن امریکا سمیت بہت سے مغربی ممالک نے اسے ’جانبدارانہ کوشش‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ امریکا کا مطالبہ ہے کہ روس پہلے اپنے عسکری دستے یوکرین سے نکالے اس کے بعد ہی سنجیدہ مذاکرات کی راہ ہموار ہو گی۔ روس یہ بات ماننے کو بالکل تیار نہیں۔ جنگ کو 665 دن ہو چکے اور توقعات کے برعکس رواں برس کوئی راستہ نہیں نکل سکا۔ یوکرین کے صدر زیلنسکی نے چند روز قبل میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے تھا کہ ’مجھے یقین ہے کہ امریکا اور مغربی ممالک ہمارے ساتھ تعاون کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ میں پراعتماد ہوں کہ امریکا ہمیں دھوکہ نہیں دے گا‘۔ روس یوکرین جنگ میں آئندہ برس امریکا میں انتخابات کے بعد کسی بڑے بریک تھرو کی توقعات ہیں۔
سعودی عرب اور ایران کے سفارتی تعلقات کی بحالی:
ایران اور سعودی عرب نے چین کی ثالثی کے بعد 10 مارچ کو ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ اس سے پہلے دونوں ممالک کے درمیان سات برس سے سفارتی تعلقات معطل چلے آرہے تھے۔ معاہدے میں سفارتی تعلقات کی بحالی اور تجارتی و اقتصادی روابط فعال کرنے پر اتفاق ہوا۔ اس معاہدے پر ایران کی جانب سے سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سیکریٹری علی شامخانی جب کہ سعودی عرب کے مشیر برائے قومی سلامتی مساعد بن محمد العیبان نے دستخط کیے۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کا رشتہ یمن کے باغیوں اور ایران کی سفارتی تنہائی سے جڑا ہے۔ سعودی عرب کا اصرار ہے کہ ایران یمن میں حوثی باغیوں کو سعودی عرب کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ دوسری جانب ایران اپنی سفارتی تنہائی کے پیچھے سعودی عرب کی مغربی ممالک اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ کی گئی کاوشوں کو ذمے دار قرار دیتا ہے۔ اس کے علاوہ شام سمیت مشرقِ وسطی کے دیگر ممالک میں بھی دونوں ممکنہ طور پر ایک دوسرے کے خلاف پراکسی جنگ کا حصہ رہے ہیں۔ 2016ء میں ایران اور سعودیہ کے سفارتی تعلقات کی ہچکولے لیتی ناؤ اس وقت ڈوب گئی تھی جب سعودی عرب میں ایک شیعہ عالمِ دین کو سزائے موت دینے پر تہران میں سعودی سفارت خانے پر حملہ ہوا۔ معاہدے میں دونوں ممالک نے اتفاق کیا کہ وہ ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔ ماہرین کے مطابق پوری دنیا بالخصوص مشرقی وسطی کے لیے خوشگوار ہوا کا جھونکا ہے۔
دفعہ 370 پر سپریم کورٹ کا فیصلہ:
دستور کا دفعہ 370 اب قصہ پارینہ بن چکا ہے ۔ مرکزی حکومت کی جانب سے اس دفعہ کو منسوخ کردیا گیا تھا اور اس کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی ۔ بلآخر 11 دسمبر کو سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے اس دفعہ کی برخواستگی کو درست قرار ہے اور کہا کہ اس سلسلہ میں صدر جمہوریہ کی جانب سے جو اعلامیہ جاری کیا گیا تھا وہ درست تھا ۔ عدالتی فیصلہ کے تعلق سے کہا جا رہا ہے کہ یہ توقعات کے مطابق ہی ہے کیونکہ مرکزی حکومت کی جانب سے تمام تر تیاریاں کرتے ہوئے ہی یہ احکام جاری کئے گئے تھے ۔ جموں و کشمیر کی سیاسی جماعتوں اور کچھ تنظیموں کی جانب سے اس فیصلے کی مخالفت کی گئی تھی اور ان کا اصرار تھا کہ دفعہ 370 کو برقرار رکھا جانا چاہئے جس کے ذریعہ جموں و کشمیر کو خصوصی موقف حاصل تھا ۔ مرکز کا استدلال تھا کہ ملک کی تمام ریاستوں کو یکساں موقف حاصل رہنا چاہئے ۔ عدالت نے بھی یہ واضح کردیا کہ جیسے ہی جموں و کشمیر کا ہندوستان میں الحاق ہوا ویسے ہیں جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کا وجود بھی ختم ہوگیا ۔ اس کے باوجود ریاست کو خصوصی موقف وہاں کی صورتحال کے مطابق برقرار رہا تھا ۔ عدالتی فیصلے پر کشمیر کی عوام نے غصے کا اظہار کیا اور کئی سیاسی جماعتوں نے بھی مایوسی کا اظہار کیا۔