از:ڈاکٹر جمشید نظر
گوگل پر Galesnjak سرچ کر کے دیکھیں آپ کو پتہ چلے گا کہ یورپی ملک کروشیا کے سمندر کے درمیان قدرتی طور پر دل کی شکل جیسا ایک جزیرہ پایا جاتا ہے جسے ”جزیرہ محبت“ یا ”جزیرہ عاشق“ کہا جاتا ہے، یہاں عاشق نہیں رہتے بلکہ یہ جزیرہ جنگلی پودوں اور درختوں سے بھرا ہوا ہے اور حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ اس جزیرہ پر خرگوش اور جنگلی کبوتروں کا بسیرا ہے۔ دل سے مشابہ ہونے کی وجہ سے ہر سال لاکھوں سیاح اس جزیرہ کو دیکھنے آتے ہیں حالانکہ یہاں نہ تو کوئی ریسٹورنٹ ہے اور نہ ہی کوئی ہوٹل ہے۔
یہ جزیرہ دنیا کی بڑی بڑی شخصیات میں بھی مقبول رہا ہے۔ معروف امریکی گلوکارہ ”Beyonce“ نے اپنی 39 سالگرہ اسی جزیرے پر منائی تھی جبکہ امریکی باسکٹ بال کے سٹار مائیکل جارڈن اور ایمزون کے مالک جیف بیزوز بھی اس جزیرہ کی سیر کرچکے ہیں۔ فروری 2009 میں جب گوگل ارتھ پر اس جزیرے کو ہائی لائٹ کیا گیا تو یہ دنیا خصوصاً محبت کرنے والوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ سن 2019 میں آثار قدیمہ کے ماہرین نے یہاں تحقیق کی تو پتہ چلا کہ یہاں سات ہزار سال پہلے انسان رہائش پذیر تھے۔
اس جزیرے کی مقبولیت کو مدنظر رکھتے ہوئے گزشتہ سال ویلنٹائن ڈے کے موقع پر اس کا کچھ حصہ فروخت کے لئے پیش کیا گیا تھا جس کی قیمت اٹھارہ ملین ڈالر رکھی گئی تھی جو پاکستانی کرنسی میں اربوں روپے بنتی ہے۔ اب اس جزیرے پر انجیر اور زیتون کے درخت لگائے گئے ہیں اور یہاں منگنی اور شادی کی پارٹیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جبکہ رومانس کرنے والے جوڑوں کو جزیرہ محبت کا ٹور بھی کرایا جاتا ہے۔ اس سال ویلنٹائن ڈے کے موقع پر اس جزیرہ پر خصوصی ٹوورز کرائے جائیں گے۔ ہو سکتا ہے مستقبل میں اس جزیرے کو ویلنٹائن جزیرہ کا نام دے دیا جائے۔
ویلنٹائن ڈے کا آغاز قدیم روم میں ہوا تھا جہاں اسے یوم تولید یا بار آوری کے طور پر منایا جاتا تھا اس دن کو منانے کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں سمجھی جاتی تاہم نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ مغربی معاشرے میں ویلنٹائن کا دن نوجوان لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کو ڈیٹ کر کے مناتے ہیں حالانکہ ماضی میں مغرب میں بھی اس روایت کو برا سمجھا جاتا تھا۔ امریکہ کی کارنیل یونیورسٹی کی سماجی مورخ خاتون ”جون برمبرگ“ John Brumberg نے اپنی کتاب ”The Body Project“ میں بیان کیا ہے کہ سن 1950 سے قبل تک امریکہ میں والدین اپنی اولاد بالخصوص بیٹیوں کو ڈیٹنگ یا شادی سے پہلے ملاقاتوں کی اجازت نہیں دیتے تھے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ویلنٹائن ڈے ایک عالمی دن نہ ہونے کے باوجود دنیا کے اٹھائیس ممالک میں باقاعدہ طور پر منایا جاتا ہے، یہ دن اقوام متحدہ یا اس کے ممبر ممالک کی منظوری یا اعلان پر نہیں منایا جاتا بلکہ یہ ان عاشقوں کی مرضی اور خواہش پر منایا جاتا ہے جو محبت کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق دنیا بھر میں ویلنٹائن ڈے کے موقع پر تقریباً 50 ملین سے زیادہ گلاب کے پھول فروخت ہوتے ہیں، ایک ارب سے زائد ویلنٹائن کارڈ بھیجے جاتے ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے لاتعداد میسجز بھیجے جاتے ہیں۔ دنیا میں ویلنٹائن ڈے کا پہلا کارڈ برٹش میوزیم میں رکھا گیا ہے۔
ویلنٹائن کے حوالے سے ایک مشہور داستان کے مطابق قدیم روم میں ”لوپر کالیا“ نام سے تہوار منایا جاتا تھا جس میں کم عمر اور جواں سالہ لڑکیاں اپنے نام کی پرچیاں بوتلوں میں ڈال دیتی بعد میں لڑکے قرعہ اندازی کرتے اور جس لڑکی کا نام قرعہ اندازی میں نکل آتا اسے اگلے لوپر کالیا تہوار تک اس لڑکے کے ساتھ جائز و ناجائز تعلقات قائم کرنے کی آزادی ہوتی تھی اگرچہ اس رومانوی داستان کا کہیں بھی مستند حوالہ نہیں ملتا اس کے باوجود 14 فروری کو مغرب زدہ ماحول میں ویلنٹائن ڈے کے موقع پر اسی طرح کی غیر اخلاقی رسمیں ادا کی جاتی ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ویلنٹائن ڈے کے بعد کئی لڑکیاں بن بیاہی ماں بن جاتی ہیں یا بہت سے کم عمر نوجوان بے وفائی سے دلبرداشتہ ہو کر خود کشی کرلیتے ہیں۔ تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ویلنٹائن ڈے پرکی جانے والی 37 فیصد شادیاں ناکام رہتی ہیں۔ آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف میلبرن کے محققین نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا کہ ویلنٹائن ڈے پر شادی کرنے والوں کی ایک سال کے اندر طلاق ہونے کے امکانات سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔
ویلنٹائن ڈے کو غیر اسلامی روایت سمجھا جاتا ہے۔ اسلامی معاشرے میں ایک لڑکا اپنی محبت کا یقین دلانے کے لئے کسی لڑکی کو گلاب کا پھول دینا تو جائز سمجھتا ہے لیکن جب کوئی دوسرا لڑکا اس کی بہن کو گلاب کا پھول پیش کرتا ہے تو وہ اس عمل کو غلط تصور کرتا ہے اس لئے نوجوانوں کو چاہیے کہ مغرب کی بے ہودہ روایات کو اپنانے کی بجائے محنت کر کے معاشرے میں اپنا مقام بنائیں تاکہ انھیں ایک سچی محبت مل سکے۔
