از:منظور الہٰی
اللہ رب العزت کی رحمت و بخشش کے دروازے یوں تو ہر وقت ہر کسی کے لیے کھلے رہتے ہیں۔ ’’لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَحْمَةِ اللّٰه‘‘ (اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو) کی فضائوں میں رحمت الٰہی کا دریا ہمہ وقت موجزن رہتا ہے۔ اس کی رحمت کا سائبان ہر وقت اپنے بندوں پر سایہ فگن رہتا ہے اور مخلوق کو اپنے سایہ عاطفت میں لیے رکھنا اسی ہستی کی شانِ کریمانہ ہے۔ اس غفّار، رحمن و رحیم پروردگار نے اپنی اس ناتواں مخلوق پر مزید کرم فرمانے اور اپنے گناہ گار بندوں کی لغزشوں اور خطائوں کی بخشش و مغفرت اور مقربین بارگاہ کو اپنے انعامات سے مزید نوازنے کے لیے بعض نسبتوں کی وجہ سے کچھ ساعتوں کو خصوصی برکت و فضیلت عطا فرمائی جن میں اس کی رحمت و مغفرت اور عطائوں کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے اور جنہیں وہ خاص قبولیت کے شرف سے نوازتا ہے۔ان خاص لمحوں، خاص ایام اور خاص مہینوں میں جن کو یہ فضیلت حاصل ہے ربّ کائنات کی رحمت کی بر..سات معمول سے بڑھ جاتی ہے۔ ان خصوصی ساعتوں میں ماهِ شعبان المعظم کو بالعموم اور 15 شعبان المعظم کی رات یعنی ’’شبِ برأت‘‘ کو خاص اہمیت و فضیلت حاصل ہے۔
شبِ برأت یعنی دوزخ سے نجات اور آزادی کی رات بھی کہتے ہیں۔ لفظ شبِ برأت اَحادیث مبارکہ کے الفاظ ’’عتقاء من النار‘‘ کا با محاورہ اُردو ترجمہ ہے۔ اس رات کو یہ نام خود رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمایا کیوں کہ اس رات رحمتِ خداوندی کے طفیل لاتعداد انسان دوزخ سے نجات پاتے ہیں۔
اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:
’’ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (خواب گاہ میں) نہ پایا تو میں (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں) نکلی۔ کیا دیکھتی ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت البقیع میں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تجھے خوف ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تیرے ساتھ نا انصافی کریں گے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے سوچا شاید آپ کسی دوسری زوجہ کے ہاں تشریف لے گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ ﷲَ عَزَّ وَجَلَّ یَنْزِلُ لَیْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَی السَّمَاءِ الدُّنْیَا، فَیَغْفِرُ لِأَکْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ کَلْبٍ.
’’اللہ تعالیٰ پندرہویں شعبان کی رات کو (اپنی شان کے لائق) آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔‘‘
دوسری روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ اے عائشہ! تمھیں معلوم ہے کہ شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے؟ تو انہوں نے عرض کیا: (یارسول اللہ!) اس رات میں کیا ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
فِیْهَا أَنْ یُکْتَبَ کُلُّ مَوْلُوْدٍ مِنْ مَوْلُوْدِ بَنِي آدَمَ فِي هٰذِهِ السَّنَةِ، وَفِیْهَا أَنْ یُکْتَبَ کُلُّ هَالِکٍ مِنْ بَنِي آدَمَ فِي هٰذِهِ السَّنَةِ، وَفِیْهَا تُرْفَعُ أَعْمَالُهُمْ، وَفِیْهَا تَنْزِلُ أَرْزَاقُهُمْ.
’’اس رات سال میں جتنے بھی لوگ پیدا ہونے والے ہیں سب کے نام لکھ دیے جاتے ہیں اور جتنے لوگ فوت ہونے والے ہیں ان سب کے نام بھی لکھ دیے جاتے ہیں اور اس رات میں لوگوں کے (سارے سال کے) اَعمال اٹھالیے جاتے ہیں اور اسی رات میں لوگوں کی روزی مقرر کی جاتی ہے۔‘‘
شبِ برأت کے پانچ خصائص
شبِ برأت کو ﷲ تعالیٰ نے پانچ خاص صفات عطا فرمائیں۔ جنہیں کثیر ائمہ نے بیان کیا فرماتے ہیں:
1۔ حکمت والے امور کے فیصلہ کی رات
اس شب کی پہلی خاصیت یہ ہے کہ اس شب میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کردیا جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
’’اس (رات) میں ہر حکمت والے کام کا (جدا جدا) فیصلہ کر دیا جاتاہے۔‘
2۔ عبادت کی فضیلت
اس رات کی دوسری خاصیت یہ ہے کہ اس رات میں عبادت کو ایک خاص فضیلت حاصل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمای
’’اس رات میں جو شخص سو رکعات نماز ادا کرتاہے، اﷲ تعالیٰ اس کی طرف سو (١٠٠) فرشتے بھیجتا ہے۔ (جن میں سے) تیس فرشتے اسے جنت کی خوشخبری دیتے ہیں۔ تیس فرشتے اسے آگ کے عذاب سے محفوظ رکھتے ہیں۔ تیس فرشتے آفاتِ دنیاوی سے اس کا دفاع کرتے ہیں۔ اور دس فرشتے اسے شیطانی چالوں سے بچاتے ہیں۔‘‘
3۔ رحمتِ الٰہی کے نزول کی رات
اس رات کی تیسری خاصیت یہ ہے کہ اس میں رحمتِ الٰہی کا نزول ہوتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’یقینا اﷲ تعالیٰ اس رات بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد کے برابر میری اُمت پر رحم فرماتا ہے۔‘‘
4۔ گناہوں کی بخشش اور معافی کی رات
اس رات کی چوتھی خاصیت یہ ہے کہ یہ گناہوں کی بخشش اور معافی کے حصول کی رات ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’بے شک اس رات ﷲ تعالیٰ تمام مسلمانوں کی مغفرت فرما دیتا ہے، سوائے جادو ٹونہ کرنے والے، بغض و کینہ رکھنے والے، شرابی، والدین کے نافرمان اور بدکاری پر اصرار کرنے والے کے۔‘‘
5۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکمل شفاعت عطا فرمائے جانے کی رات
اس رات کی پانچویں خاصیت یہ ہے کہ اس رات ﷲ تعالیٰ نے اپنے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکمل شفاعت عطا فرمائی۔ اور وہ اس طرح کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان کی تیرھویں رات اپنی امت کے لیے شفاعت کا سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تیسرا حصہ عطا فرمایا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان کی چودھویں رات یہی سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دو تہائی حصہ عطا کیا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان کی پندرہویں رات سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام شفاعت عطا فرما دی گئی، سوائے اس شخص کے جو مالک سے بدکے ہوئے اونٹ کی طرح (اپنے مالک حقیقی) ﷲ تعالیٰ سے دور ہو جاتا ہے یعنی جو مسلسل نافرمانی پر مصر ہو
شبِ برأت کو جاگنا اور صبح روزہ رکھنا
حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔
’’جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو اس رات کو قیام کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو، کیونکہ اللہ تعالیٰ اس رات سورج غروب ہوتے ہی (اپنی شان کے لائق) آسمان دنیا کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور فرماتا ہے: کیا کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا نہیں کہ میں اس کی مغفرت کروں؟ کیا کوئی مجھ سے رزق طلب کرنے والا نہیں کہ میں اسے رزق دوں؟ کیا کوئی مبتلائے مصیبت نہیں کہ میں اُسے عافیت عطا کر دوں؟ کیا کوئی ایسا نہیں؟ کوئی ایسا نہیں؟ (اسی طرح ارشاد ہوتا رہتا ہے) یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔
شبِ برأت کا پیغام
شبِ برأت کو جب رحمت الٰہی کا سمندر طغیانی پہ ہو تو ہمیں بھی خلوص دل سے توبہ و استغفار کرنا چاہیے مگر یہ کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ شبِ برأت کی اس قدر فضیلت و اہمیت اور برکت وسعادت کے باوجود ہم یہ مقدس رات بھی توہمات اور فضول ہندوانہ رسومات کی نذر کر دیتے ہیں اور اس رات میں بھی افراط و تفریط کا شکار ہو کر اسے کھیل کود اور آتش بازی میں گزار دیتے ہیں۔ من حیث القوم آج ہم جس ذلت و رسوائی، بے حسی، بدامنی، خوف و دہشت گردی اور بے برکتی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اس سے چھٹکارے اور نجات کی فقط ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ کہ ساری قوم اجتماعی طور پر ﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں مغفرت طلب کرے اور اس رات کو شبِ عبادت، شبِ توبہ اور شبِ دعا کے طور پر منائے۔
قیام اللیل اور روزوں کی کثرت ہی ہمارے دل کی زمین پر اُگی اُن خود رَو جھاڑیوں کو اکھاڑ سکے گی جو پورا سال دنیاوی معاملات میں غرق رہنے کی وجہ سے حسد، بغض، لالچ، نفرت، تکبر، خودغرضی، ناشکری اور بے صبری کی شکل میں موجود رہتی ہیں۔ اسی صورت ہمارے دل کے اندر ماہ رمضان کی برکتوں اور سعادتوں کو سمیٹنے کے لیے قبولیت اور انجذاب کا مادہ پیدا ہو گا۔
لہٰذا یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ ماہ شعبان المعظم، عظیم ماہ رمضان المبارک کا ابتدائیہ اور مقدمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس ماہ مبارک کے اندر محنت و مجاہدہ اور ریاضت کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم ’’اَلصَّوْمُ لِي وَاَنَا اَجْزِي بِهٖ‘‘ کے فیض سے صحیح معنوں میں اپنے قلوب و اَرواح کو منور کر سکیں اور اِن مقدس اور سعید راتوں کی برکت سے اﷲ تعالیٰ ہمیںدنیوی و اُخروی فوز و فلاح سے مستفید فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
۔ اور بے برکتی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اس سے چھٹکارے اور نجات کی فقط ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ کہ ساری قوم اجتماعی طور پر ﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں مغفرت طلب کرے اور اس رات کو شبِ عبادت، شبِ توبہ اور شبِ دعا کے طور پر منائے۔ اللہ پاک ہمارے گہانوں کی مغفرت کرے اللہ پاک اہم سب کی عمروں کو دراز آتا فرمائے الله تعالیٰ اہم سب کو توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین