تحریر:جہاں زیب بٹ
اس خبر سے کہیں کھلبلی مچی ہے اور کہیں بغلیں اچھالی جارہی ہیں کہ تقریباً چاردہاءیوں پر محیط بھارت مخالف تحریک جن گھرانوں میں جنم لے چکی تھی ان ہی کی نءی نسل نے اس کے ساتھ لا تعلقی کا برملا اظہار کر نا شروع کیاہے ۔اس سلسلے میں ایک مقامی اخبار میں چھپے اشتہار ات میں سید علی گیلانی کی نواسی اور الطاف شاہ کی بیٹی رووا شاہ نے ملک کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھایا ہے اور خود کو اپنے دادا اور ابا کے بھارت مخالف نظریہ سے الگ کردیا ھے اور واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ وہ ملک کی سالمیت اور خودمختاری پر یقین رکھتی ہے ۔اسی طرح منی لانڑرنگ کیس کے سلسلے میں تہا ڑ جیل میں قید شبیر شاہ کی بڑی صاحبزادی سما ءشبیر نے اپنے ابا کی کالعدم تنظیم اور ان کے نظریے کے ساتھ برات کا اظہار کیا ہے۔انھو ں نے ملک کی خودمختاری پر غیر متزلزل یقین کا اظہا ر کرتے ہویے خبردار کیاہے کہ آیندہ جو کوءی بھی بغیر اجازت اس کو کسی ہند مخالف گروپ کے ساتھ نتھی کرے گا اس کے خلاف قانونی کاروائی کی جاءے گی۔
یہ بڑا اہم سوال ہے کہ دو اہم علاحدگی پسند گھرانوں میں پلی بڑی دو بچیاں کیوں حریت سے عد م وابستگی کا اظہا ر کرنے کی راہ پر نکلیں ؟ دونوں با لغ لڑکیاں ہیں پڑھی لکھی ہیں اور ووٹ کا حق رکھتی ہیں ۔وہ اپنے آباء کی تحریک ،خیالات اور نظریے سےکھلے عام لاتعلقی کا اظہا ر کررہی ہیں جو دوررس نتاءج کا حامل واقعہ ہے۔تجزیہ نگار وں کے مطابق چوٹی کے دو علاحدگی پسند گھرانوں کی دو بچیوں نے خود کو بھارت کے وفادار شہری کہا ہے جو نءی پود کی طرف سے حریت کو مسترد کرنے کے مترادف ہے ۔ان کا بیان سیاسی لحاظ سے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہےاور ان ہی کی طرح نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو اس بناء پریشان ہیں کہ ان کا کوءی قریبی رشتہ دار قانون کی نظر میں مشتبہ یا داغدار رہا ہے۔وہ بھی با عزت شہری کے طور پر جینا چا ہتے ہیں ۔وہ بھی کسی رشتہ دار کی وجہ سے پا سپورٹ یا نوکری وغیرہ کے لئے درکارپولیس ویری فکیشن حا صل نہیں کر پا رہے ہیں۔با ور کیا جاتا ہے کہ سماء شبیر اور رووا شاہ کی پبلک نوٹس کا خاطر خواہ نتیجہ نکلا تو آنے والے دنوں میں مقامی اخبارات میں اظہار لاتعلقی کا ویسا ہی سیلاب دیکھنے کو ملے گا جیسا نوے کی دہائی میں دیکھا گیا تھا فرق بس یہ ہے کہ تب حریت سے وفاداری کے اشتہارات آیا کرتے تھے اب وفادار شہری ہو نے کے حلف نامے اخبارات کی زینت بنیں گے ۔یہ نظارہ پیدا ہونے کا سہرا سماء شبیر اور رووا شاہ کے سر جا ءیگاجنھوں نے سوچ میں تبدیلی کا عندیہ دیا ۔وہ ان بے شمارگمنام اور غریب لوگو ں کا حوصلہ اور تحریک ثابت ہو نگی جوکسی رشتہ دار کی غلطی کی وجہ سے پریشانی میں جی رہے ہیں اور وفادار شہری ہونے کا ثبوت دینےکے مسلے سے دو چار ہیں۔
اکثر علاحدگی پسند لیڈروں کو اس بناء پر سرکاری اور عوامی حلقوں کی طرف سے ہدف تنقید بنا یا جا تا رہا ہے کہ انہوں نے سر حد کے آر پارتحریک کے نام پر اپنے بچوں بچیوں کے لیے بڑی بڑی مراعات حاصل کیں اور اس کے برعکس غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کے قبرستان آباد کر نے کی سیاست کی۔ یہ نءی نسل کی نظر میں ایک سنگین رھوکہ ہے ۔حالات کے تغیر و تبدل کے بعد کشمیری نوجوان شدید مایوسی کا شکار ہیں اور حریت ان کی ہمدردی کھو چکی ہے ۔بقیو ں کی بات چھو ڑیے خود ان کی اپنی اولادیں ان سے کوءی سیاسی نا طہ ہو نے یا جو ڑنے سے صاف انکا ر کررہی ہے ۔ابھی تو پہلے مر حلے میں اظہا ر لاتعلقی ہو رہا ہے۔سرکار کی جانب سے مثبت ردعمل سامنے آءے تو بہت ممکن ہے کہ علا حدگی پسندی سے ناطہ توڑنے سے آگے اس کی مزمت کا سلسلہ بھی پیدا ہو گا ۔فی الحال دیوار پر یہ عبارت کند ہ ہورہی ہے کہ حریت نظریہ نءی پود کو منتقل ہونے کا امکان تاریک ہے جو کشمیر کے حوالے سے نیک شگون قرار دیا جا سکتا ہے۔
