تحریر:ندیم خان
حالیہ کساد بازاری کے دور میں جب کہ روحانی، انسانی، علمی، ادبی و اخلاقی قدروں کو ہر طرح سے پامال ہونا پڑ رہا ہے، صحافتی لوازمات بھی بری طرح سے متاثر ہورہے ہیں ـ ویسے صحافی کے لئے ضروری ہے کہ ایک مقصد کے لئے مائک اور کیمرے کا استمعال کرے ـ اسے ہمیشہ اور ہر حال میں مجبور اور مظلوم کی ترجمانی کے واسطے مائک و کیمرے کا استعمال کرنا چاہئے ـ ایک صحافی کا فرض بنتا ہے کہ عوام کو درپیش مسائل یا تکالیف کو ابھارنے اور ارباب اقتدار اس کے لئے اگر کارروائی کرنے میں کاہلی سے کام لیں تو حکومت کے خلاف آواز بلند کرےـ لیکن افسوس یہ ہے کہ ہماری ریاست میں ایسے بھی صحافی ہیں جنہوں نے صحافت کو کاروبار بنا رکھا ہے۔ فضا کی کثافت، تہذیبی قدروں کا زوال، اقتصادی نظام کی پسپائی، سرکاری و سماجی اداروں کی لوٹ کھسوٹ، آپسی مفاہمت و رواداری کی پامالی، خود غرض افراد کی کج ادائی، اخلاقی و ادبی لوازمات کی حوصلہ شکنی، عدم آسودگی، زیادتی، افراتفری اور دور دور تک پھیلی سراسیمگی اپنی تلخ و ترش حقیقی کا ذکر کئے بغیر موجودہ دور کا صحافتی اداریہ یا مقالہ مکمل نہیں ہوگاـ کوئی بھی عام شخص اگر کسی شخص کو کالا کوٹ پہنے ہوئے دیکھے گا تو اسے یہ اندازہ لگانے میں ذرا بھی دیر نہیں لگے گی کہ موصوف کا تعلق پیشہ وکالت سے رہا ہو گا۔ لیکن اس کے برخلاف کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ صحافی ہونے کی کیا نشانی ہے؟ کیا کسی کو مائیک پکڑے دیکھ کر آپ اسے صحافی سمجھ بیٹھتے ہیں؟ یا کسی کا پریس کارڈ دیکھ کر آپ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ یہ صحافی ہے؟ بد قسمتی سے ہم یہ آج تک طے ہی نہیں کر سکے کہ صحافی اصل میں کہتے کسے ہیں۔ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے۔ میڈیا کی اخلاقیات کیا ہوتی ہیں، ہمیں ان تمام باتوں سے کوئی غرض نہیں ہے۔ کشمیر میں کسی کو بھی شعبہ صحافت میں آنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ بس اسے خیال آ جائے کہ اسے صحافی بن جانا چاہیے۔ اس خیال میں ہی ایسا جادو ہے کہ آپ خود مشاہدہ کریں گے کہ کچھ دیر پہلے ایک بندہ اچھا بھلا پھر رہا تھا لیکن اب وہ باقاعدہ صحافی بن چکا ہے۔اس بیچارے کو یہ تک معلوم نہیں کہ خبر ہوتی کیا ہے لیکن وٹس ایپ اور فیس بک کی مہربانی کی وجہ سے یہ فرد سڑکوں پر کھیل تماشے کرکے لوگوں کی نظروں میں مشہور ہوجاتا ہے، اور بہن بیٹیوں کی عزت اچھال کر فیس بک پر لائکس اور ویوز جمع کرنے میں قطعاً شرم نہیں کرتا۔ کشمیر میں صحافت باقاعدہ طور پر ایک کاروباری حیثیت اختیار کر چکی ہے ہمارا صحافی اصل حقائق کو پس پردہ ڈال کر طمع نفسانی کی خاطر بلیک میلنگ اور چور بازاری اور غداری پر اتر آیا ہے، اور اگر باد النظر میں دیکھا جائے تو ایسی ہی صحافت کے امین کسی ملک اور قوم کے سب سے بڑے دشمن اور غدار کا کردار ادا کرتے ہیں۔کشمیر میں عوام کو خبر سے باخبر رکھنے والے صحافی ہی خود خبروں کی زینت بنتے دکھائی دے رہے ہیں، پچھلے دنوں ہم نے دیکھا کہ کس طرح ایک صحافی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پہلے موبائل ریپیرنگ اور مرغے بیچنے کا کاروبار کرتا تھا، وہ ایک صحافی کی حیثیت سے عورت سے کس بدتمیزی سے پیش آیا عورت نے اس سے کہا بھی کہ اپنا کیمرہ بند کر دو لیکن ان صاحب کو اس بہن کو کیمرے پر لاکر پیسے کمانے تھے۔ کیا ایسے ہی صحافت کی جاتی ہے؟ اس طرح کے واقعات آپ کو روز بروز کشمیر میں دیکھنے کو ملتے رہیں گے، یہاں تو صحافی آپس میں ہی لڑتے رہتے ہیں گالی گلوج پر اتر آتے ہیں، مقصد ان کا ایک ہی رہتا ہے بس کسی طرح سے ان ویڈیوز پر پیسے آنے چاہیے، ان صحافی حضرات نے روحانی، انسانی، علمی، ادبی و اخلاقی قدروں کو ہر طرح سے پامال کر دیا ہے، اب جو واقعی میں سہی معنوں میں صحافت کر رہے تھے ان بیچاروں کو بھی ان سمارٹ فون صحافیوں کی وجہ سے سر جھکانا پڑ رہا ہے۔ ان سمارٹ فون صحافیوں کے پاس نہ تو تعلیم ہے اور نہ ہی ان کے پاس کوئی صحافتی ڈگری یا رجسٹریشن موجود ہے، اگر ان سے پوچھا جائے کہ کیا آپ کے پاس کوئی ڈگری ہے ان کا جواب ہوتا ہے کہ بس اپنے جذبے کے تحت کر رہے ہیں۔
کشمیر میں صحافیوں نے صحافت کرنے کے ایسے اصول بنائے ہیں جو حیران کر دینے والے ہیں، کچھ نکات میں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔
ہر حالت میں ازدواجی و گھریلو رشتے کے تقدس کو پامال کیا جائے۔
جب تک کسی کا جرم عدالت میں ثابت نہیں ہوتا اُسے بطور مجرم پیش کیا جائے۔
ہر شخص کے خلوت میں بے جا دخل دیا جائے۔
کسی شخص کے خلاف ایسا اسکنڈل مشتہر کیا جائے جس سے عوامی زندگی پر بُرا اثر پڑے۔
کسی شخص سے غلط بیان منسوب کیا جائے اور ایسا بیان چھاپا جائے جو اس شخص نے نجی میں گفتگو کے دوران دیا ہو۔
کسی کے مذہبی جذبات یا احساسات کو ٹھیس لگائی جائے۔
کسی گروہ یا طبقے کو بہ طور خاص مذاق کا ہدف بنایا جائے۔
اور ایسی خبریں دکھائی جائیں جن خبروں کا صحافت کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں ہوتا ۔
یہ ایسے نکات ہیں جن کی وجہ سے پوری وادی کشمیر پریشان و حیران ہے، آخر لوگ ان چینلوں میں کیا دیکھیں صرف اور صرف مسخرہ پن۔ کشمیر میں ایسے بھی عزت دار اور قابل صحافی ہیں جو صحافتی اصول اچھی طرح جانتے ہیں اور وہ ان اصولوں پر قائم ہیں، لیکن چند بیہودہ صحافیوں کی وجہ سے ان کا نا بھی بدنام یا خراب ہورہا ہے۔ جیسے ایک مچھلی پورے تالاب کو گندہ کردیتی ہیں ویسا ہی حال کشمیر میں صحافت کا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر صحافت کا اتنا ہی جذبہ تھا تو صحافت کی تعلیم کیوں نہ حاصل کر لی؟ کیا وادی کشمیر میں مجھے بھی اختیار حاصل ہے کہ میں بھی کمپوڈری سیکھ کے ڈاکٹر کہلواؤں؟ کشمیر میں چونکہ بیروز گاری کی شرح بھی بہت زیادہ ہے اس لیے لوکل فرد ایک نیوز پیج کھول کر دلفریب عمومیات سے لوگوں کو بے وقوف بناتے نظر آتے ہیں (یہاں پر تمام نیوز چینلز کی بات نہیں کی جا رہی، کہ اچھے برے ہر جگہ ہوتے ہیں)۔ ایک صحافی اگر صحیح معنوں میں صحافت کے اصولوں سے واقف ہو تو ملک وقوم کی خدمت موزوں انداز میں بجا لاسکتا ہےـ سماج اور معاشرے کو پاک وصاف رکھنے میں اہم رول ادا کر سکتا ہےـ سوئے ہوئے نیم مردہ ذہنوں کو جگا سکتا ہےـ بے وجہ اور وقت کے ستائے ہوئے افراد کو ان کا حق دلا سکتا ہےـ حق کے خاطر آواز بلند کرسکتا ہے، اور انسانیت وروداری کی مٹتی قدروں کو اُجاگر کرسکتا ہے۔
انتظامیہ کو چاہیے اس بارے میں کوئی واضح پالیسی مرتب کرے۔ جیسے ایک وکیل کو پریکٹس کرنے کے لیے لائسنس درکار ہوتا ہے اسی طرح کوئی بھی انجنیئیر تب تسلیم کیا جاتا ہے اگر اسے بھارت میں انجینیئرنگ کونسل انجینئیر تسلیم کرے۔ ٹھیک اس طرح کشمیر میں صحافیوں کی اچھی طرح جانچ پڑتال ہونی چاہیئے۔ میرے خیال سے ایک صحافی کو بھی انڈر لائسنس ہونا چاہیے تا کہ اس کا ایک کرائی ٹیریا بن سکے اور لوگوں کو بھی یہ سمجھنے میں آسانی ہو کہ کسے اصلی صحافی کہنا ہے اور کسے عطائی صحافی۔ الغرض صحافیوں میں اعلیٰ پیشہ ورانہ معیار کا قیام لابدی ٹھہرا۔ان تمام امور کی نشاندہی غور و فکر ضروری جن سے عوامی معاملات متاثر ہوں۔ آخیر میں یہ التماس کہ خدارا صحافت کے شعبے کو تجارت کے طور پر نہ اپنایا جائے۔
بقولِ شاعر
مرغ لڑائے جائیں گے بوٹی کے واسطے
اخبار نکالے جائیں گے روٹی کے واسطے
