از:ش، م، احمد
۱۳؍مئی کو کشمیرکی معاصرتاریخ کا ایک نیا مگر خوش کن ورق رقم ہو ا۔ ا س روزبرسوں بعد رواں قومی الیکشن کے چوتھے مرحلے پر پارلیمانی حلقہ ٔ انتخاب سری نگر میںپُر وقار اندا زمیں بغیر کسی تشدد ، ماردھاڑ ‘ خوف وہراس ‘ پولنگ بوتھوں پر زور زبردستی قبضہ جما ئے جانے کی روایات کا اعادہ ہوئے بنا پولنگ پُر امن طور اختتام پذیر ہوئی۔ ان حوالوں سے بلاشبہ چشم فلک نے دیکھ لیا کہ جہلم سے بہت پانی بہہ چکا ہے‘ کشمیر کی ہو ابدل رہی ہے ‘یہ سرزمین نئی سیاسی کروٹ لینے پر آمادہ بھی ہے اور منتظر بھی ‘ یعنی اہل ِکشمیر جمہوریت پرا پنے اعتماد او ر بھروسے کا رشتہ جوڑنے میں پہلے سے کافی سنجیدہ ہیں ۔ دنیا نے نوٹ کیا کہ رائے دہندگان نے بلا خوف وخطر پولنگ بوتھوں کا رُخ کیا تاکہ اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرسکیں ۔ ایل جی انتظامیہ کی طرف سے خاطر خواہ حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے‘ ہر جگہ ریاستی پولیس اور سی آرپی ایف کے چاق وچوبند دستے تعینات تھے‘ مگر ماضی کی روایت سے ہٹ کر حساس موقع پر سیکورٹی کے نام پر نہ کہیں راہ گیروں کی جامہ تلاشیاں ہورہی تھیں، نہ کانٹے دار تاریں سڑکیں اور شاہراہیں محصور کر رہی تھیں‘ نہ گلی کوچوں پر وردی پوشوں کے ناکے بٹھائے گئےتھے ‘ نہ پرائیوٹ ٹرانسپورٹ کی نقل وحرکت مفلوج تھی نہ زندگی کی نبضیں کہیں تھمی ہوئی لگ رہی تھیں ۔ ہاں ‘ زیادہ تر دوکانیں مقفل رہیںاور بازار سہ پہر تک معمول کی چہل پہل سے عاری نظر آرہے تھے ۔ مجموعی طور پولنگ کے دوران ماحول پُر سکون ‘ فضا روح پروراور موسم سہانا رہا۔اس بحث میں پڑے بغیر کہ ووٹروں کی شرح فی صد ماضی کے مقابلے میں کم تھی یازیادہ‘ یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ ۱۹ ؍ اگست ۲۰۱۹ کو آئین ِ ہند کی پہلے سے ہی کھو کھلے چلے آرہے دفعات ۳۷۰ ؍اور ۳۵ ؍اے کالعدم قرار پانے کےما بعد یہ پہلا موقع تھا جب تاریخ کو کشمیری عوام کے سیاسی سوجھ بُوجھ‘ دوراندیشی اورسُو دوزیاں کی کسوٹی کا خاموشی سے امتحان لینا مقصود تھا۔ اس لئے یہ الیکشن ہاتھ میںووٹ کی پرچی لئے من پسند اُمیدوار کے نشان پر بٹن دبانے کی رسم براری تک محدود نہ سمجھا جائے بلکہ سچ پوچھئے تو تاریخ کی بے لاگ آنکھ یہ دیکھنے کا بہت زیادہ تجسس رکھتی تھی کہ آیا سنہ نوے سے بے انتہا ٹھوکریں کھانے کے بعد ، تکلیف درتکلیف سہنے کے بعد اور ایک لاحاصل منزل کی آبلہ پائی کر نے کے بعد لوگوں کے ہوش وحواس بحال ہوگئے ہیں ِ؟کیا اُن ِمیں جینے کی کوئی آس باقی رہی ہے؟ یا ابھی تک مرنے کی چاہ میں تبا ہیوں کا سواد سر میں سمایا ہوا ہے ؟ مقامِ شکر ہے کہ سری نگر کی پارلیمانی کا نسٹیچونسی سے وابستہ شہرخاص‘ پلوا مہ‘ شوپیان اور ترال کے ذِی شعور اور بالغ نظر ووٹروں نے اس امتحان میں جینے کی آس پر بہ یک بینی ودوگوش مہر تصدیق ثبت کی ۔ انہوں نے پولنگ میں آزادنہ طور بڑھ چڑھ کر حصہ لے کر آزمائش کا یہ پل ِصراط بآسانی پارکیا اور دنیا پر باور کرایا ع
اگر کھویا گیا اک نشمین تو کیا غم
مقاماتِ آہ وفغاں اور بھی ہے
ا س بارووٹروں پر ماضی کے بیش تر الیکشنوںکے بالکل اُلٹ کہیں بھی وقت کے اربابِ ِ قوت کی طرف سے یہ دباؤ نہ تھا کہ پولنگ بوتھ پر حاضری دے کے آؤ اور ہمیںاُنگلی پر لگانشان دکھا ؤ ‘ور نہ تمہاری خیر نہیں۔۔۔اور نہ کسی کے سرپر بائیکاٹ کی تیز دھار تلوار اس عنوان سے لٹکی تھی کہ پولنگ بوتھ کے آس پاس بھی کہیں دکھا ئی دئے تو تم مخبر ہو ‘ قوم دشمن ہو ‘تم قبربانیوں کے سودا گر ہو‘ تم اِغیا کے ایجنٹ ہو‘قابل گردن زدنی ہو وغیرہ وغیرہ۔ ان دوطرفہ دباؤں سے مکمل طور آزاد ۱۳؍ مئی کو جب الیکشن امن و سکون کے ساتھ پایۂ تکمیل کو پہنچاتو دنیا کو واضح انداز میں سری نگر سے گویا یہ مثبت پیغام ملا کہ ہم کشمیری ماضی کی زخم شماری کر کے اپنے مستقبل کی راہ کھوٹی کر نے کے روادار نہیں ، ہم بھی دوسرے لوگوں کی طرح اپنے لئے خیر وبھلائی اور امن وخوش حالی کے خواست گوار ہیں‘ ہم اب سبزباغوں اور سبزرومالیںدکھا نے والے سیاسی ساحروں کے اسیر نہیں بلکہ اُن سے چھٹکارا چاہتے ہیں‘ ہم اپنی نئی نسل کو منشیات‘ شدت پسندی اور بے راہ روی کی کھائیوں میں لڑھکتا دیکھنے کی بجائےاسے امن و ترقی اور جمہوریت کی فضا میں پلتا بڑھتا دیکھنا چاہتے ہیں‘ ہم بھی بے رزوگاری اور مہنگائی کے عفریت سے گلوخلاصی چاہتے ہیں‘ ہم بھی حب الوطنی کے جذبے کےساتھ جمہوریت کا دامن تھامے وشال دیش کے ساتھ جینا اور مرنا چاہتے ہیں
۴ ؍جون کو جب ای وی مشینیں ملک بھر میں یہ راز اُگلیں گی کہ انتخابات میں کون جیتا کون ہارا ‘تو جموں کشمیر لداخ کی چھ نشستوں پر اُمیدواروں کی قسمت کا فیصلہ بھی ووٹ کی پرچیوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہوگا۔فی الحال یہاں بارہمولہ اور اننت ناگ ۔راجوری سیٹوں پر الیکشن ہونا باقی ہے ۔ خیال یہی کیا جاتا ہے کہ سری نگر کے انتخابی منظر نامے اورعوامی پیغام کا براہ راست اثریہاں کی باقی ماندہ سیٹوں پر ضرور مرتب ہوگا۔ غالب امکان یہی ہے کہ آنے والے انتخاب میں لوگ حلقہ ٔ انتخاب سری نگر سے کچھ زیادہ جوش وخروش کے ساتھ ووٹ کر نے نکلیں گے اور پولنگ شرح فی صد بھی بڑھنے کی توقع ہے۔ بایں وجوہ اُمیدواروں کے درمیان مقابلہ آرائی اور زیادہ تیکھی ہو گی ۔ ظاہر ہے انتخابی میدان میں برسر پیکار حریف پارٹیاں اس بدیہی حقیقت سے آشنا ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ نہ اس بار کشمیر کی تین نشستوںپر مرکز میں حکمران بھاجپابراہِ راست لڑرہی ہے اور نہ اپوزیشن آل انڈیا کانگریس ‘ بلکہ ریاست کی دیرینہ اور نئی نویلی علاقائی جماعتیں میدان ِ مقاومت ومزاحمت میں کئی آزاد اُمیدواروں سمیت ڈَٹی ہوئی ہیں۔ لوگ اپنے حق رائے دہی کے مدبرانہ اور دوراندیشانہ استعمال سے کس کے سر جیت کی پگڑی باندھ لیں گے ‘ ۴؍ جون کو اس کا لیکھا جوکھا حتمی طور معلوم ہوگا ۔ اس بیچ عام لوگوں کی دل کی یہ مضبوط آواز قابل شنوائی ہے جوکہتی ہے کہ نہ صرف جموں وکشمیر کا ریاستی درجہ جلدازجلد بحال ہو نا چاہیے بلکہ قانون سازاسمبلی کا الیکشن بھی سپریم کورٹ کی عائد کردہ ڈیڈ لائن کے عین مطابق ستمبر ۲۰۲۴ منعقد ہوں۔ اس تواناآواز پر فوری توجہ دی جائے تو فبہا۔ نیز جموں وکشمیر کی سیاسی جماعتیںاس مشترکہ عوامی مطالبے کو جتنا زوروشور سےاُجاگر کریں گی اتنا زیادہ بہتر رہے گا۔اس سے ایک ہاتھ ریاستی عوام کا سسٹم پر اعتماد مزید تقویت پائے گا ‘اور دوسرے ہاتھ لوگوں کےطویل عرصہ سےاحساسِ محرومی کا رِستا زخم بھی مندمل ہوگا۔ مزید برآںسری نگر نے ۱۳؍ مئی کو انتخابی عمل میں جوش وجذے سے شرکت کرکے جو تازہ دم پیغامِ زندگی دنیا جہاں کو دیا ‘وہ کشمیر ی عوام کے اصل جذبات کی عکاسی کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر کے تعلق سے ملکی موقف کی پذیرائی اور جمہوریت کی شبیہ مزید نکھارے گا۔
