ش، م ،احمد
شمالی کشمیر میں ۲۰ ؍ مئی کو پارلیمانی انتخاب کا مرحلہ بخیر وخوبی انجام پذیر ہوا۔ قومی الیکشن کے پانچویں مرحلے پر یوپی ،مغربی بنگال ، مہاراشٹر وغیرہ کے ساتھ ساتھ وادی ٔ کشمیر کی بارہمولہ ۔ کپوارہ کی ایک نشست سمیت ۴۹ ؍لوک سبھاسیٹوں پر ووٹروں نے بیسیوںاُمیدواروں کی قسمت کا فیصلہ ای وی ایم میں محفوظ کر لیا ۔ظاہر ہےوقت کا مورخ اگلے دومراحل کی تکمیل کے بعد ۴؍جون کی صبح طلوع ہونےکابے صبری سےانتظار کر رہاہوگا۔ یہی وہ تاریخی دن ہے جب رائے دہندگان کے ہاتھوں لکھا گیافیصلہ ہار جیت کے تعلق سے قیاسوں ‘ پیش بینیوں اور اَٹکلوں کا پردہ چاک کرےگا ‘ کسی کی تصدیق وتحسین ہوگی اورکسی کی تردید وتکذیب ہو گی‘ کسی کی اُمیدوں پر پانی پھرے گا اورکسی کے یقین کا گلستاں مہک اُٹھے گا۔
قابل ذکر ہے کہ ۲۰؍ مئی کی شام کو وقت کے مورخ نے بارہمولہ۔ کپوارہ۔ بانڈی پورہ اضلاع
پر مشتمل پارلیمانی نشست کے ووٹر ٹرن آوٹ کو ماپ تول کے زاویہ ٔ نگاہ سے دیکھا بھالاتو مطلع ٔ سیاست کی پیشانی پر سنہری حروف سے یہ لکھا کہ بارہمولہ نشست پر ۵۹؍فی صد ووٹروں نے اپنے جمہوری حق کا استعمال کر کے ۱۹۶۷ کے بعد پہلی دفعہ رواں انتخابی عمل میں بے انتہاجوش وخروش سے شریک ہوکر سیاسی بالیدگی کی نئی تاریخ مرتب کی‘انہوں نے جمہوریت کی اذان پر لبیک کہا‘ اپنے آئینی حقوق کا خود احترام کرتے ہوئے پولنگ بوتھوںپر قطار درقطار کھڑے ہوئے۔
بلاشبہ یہ ۲۰؍مئی کے بھاری بھرکم ووٹر ٹرن آوٹ کی صدائے گشت ہی ہے کہ وزیراعظم مودی نے شمالی کشمیر کےرائے دہندگان کی اس بابت کافی سراہنا کی کہ انہوں نے جوق درجوق اپنے جمہوری حق کا بھر پور استعمال کیا۔
اس میں دورائے نہیں کہ شمالی کشمیر نےسری نگر حلقہ ٔ انتخاب کے مقابلے میںزیادہ بڑی تعداد میں پولنگ کرکے سری نگر پر بڑی سبقت لی ۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے یہاںقابلِ تعریف ووٹر ٹرن آوٹ کو ۱۹؍اگست ۲۰۱۹کو دفعہ ۳۷۰ کالعدم قرار دینے والے ناقدین کے لئے کرارہ جواب جتلایا۔
بارہمولہ لوک سبھا سیٹ پر اصل مقابلہ پیپلز کانفرنس کے چیئر مین اور سابق ریاستی وزیرسجاد غنی لون‘ نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ ، پی ڈی پی کے سابق راجیہ سبھا ممبر فیاض میر اور عوامی اتحاد پارٹی کے محبوس سربراہ انجینئر شیخ رشید( آزاد اُمیدوار) کے درمیان بتایا جاتا ہے ۔ا ن کے علاوہ دو خواتین سمیت کئی اور لوگ بھی اُمیدواروں کی فہرست میں موجود ہیں مگر ان کی موجودگی یاعدم موجودگی سے نتائج پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔
الیکشن بخار کے سلسلے میں بارہمولہ کو سری نگر کے مقابلے میںیہ امتیاز حاصل رہا کہ جہاں سری نگر میں الیکشن مہم کم وبیش پھیکی رہی‘ یہ پوسٹروںاور ہورڈنگس تک محدود ہوکرمجموعی طورغیر مرئی رہی ‘ وہاں بارہمولہ یہ مہم عیاں وبیاں اندا زمیں اپنےعروج پر رہی۔ لوگوں کی زبانوں پہ سیاسی نعرے ‘دل میںاُمیدوں کی دھڑکنیں‘ ذہنوںمیں ایک اُمید افزا مستقبل کی پرچھائیاں رقصاں تھیں‘ سیاسی جمود وتعطل کی زنجیریں توڑ نے والے مختلف الخیال سیاسی قافلوں کی جابجا نقل وحرکت سے عام لوگوں میںبالمعنیٰ زندگی کی حرارت دوڑ گئی ‘ انہیں اپنےسیاسی مستقبل کے بارے میں اُمید ِفرداکادلاسہ ملا ۔ ان ناقابل تردید حقائق کی روشنی میں اگر یہ کہیں کہ زوردار الیکشن مہم کی وِزبلٹی نے ووٹروں کو ووٹنگ کا حق اپنی من مرضی استعمال
کر نے کے ضمن میں ذہن سازی کا تیر بہدف کام کیا تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ جگ ظاہر ہے جب یہاں اُمیدواروں اور رائے دہندگان کا عملاًآمنا سامنا ہواتووادی میں ایک طویل مدت سے سیاسی خلا کی جو منفی فضا ہر سُو پائی جاتی تھی‘ وہ حرکت و فعالیت سے یکسر بدل گئی۔
پی سی‘ این سی اور انجنیئررشید کے دو جوان سال بیٹوں بالخصوص ۲۲؍سالہ ابرار رشید نے آگے بڑھ کرالیکشن مہم میں اپنے بے پناہ جوش وجذبے کے بل پر جان ڈال دی ۔ اس کے چلتے سےکئی دن تک خطے میں متحارب پارٹیوں کے جلسے جلوسوں ‘روڑ شوز‘ نعرہ بازیوں کا زوردار سلسلہ جاری رہا۔اُمیدواروں نے ووٹروں کو اپنی جانب رجھانے میں ہر کوئی روایتی نسخہ آزمایا ۔ اس دوران امن وآشتی کا ماحول ہر جانب قائم رہا ، نہ حریف پارٹیوں یا اُن کے جوشیلےحامیوں میں کہیں ٹکراؤ کی کوئی خبر سنی گئی اور نہ امن شکنی یا کسی دوسری بدمزگی کی کوئی کہانی بنی۔ یہ ایک حوصلہ افزا سیاسی حقیقت ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آہستگی کےساتھ ہی سہی ‘ سیاسی بالغ نظری اور میدانِ سیاست میں ایک دوسرے کے وجودکو برداشت کر نے کی مثبت روایت کشمیر میں جڑ پکڑ چکی ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ سابق گرم گفتار ایم ایل
اے انجینئر رشیدکے حامیوں اور ان کے مداحوں کا جوش و ولولہ الیکشن مہم کے دوران دیدنی رہا۔ گزشتہ ۵ ؍برس سے انجینئر سنگین نوعیت کے مختلف مقدمات میں ماخوذ شب وروز تہاڑ جیل کی سلاخوں کے اندر گزاررہے ہیں ۔ باہر ان کے دل جلے حامیوں کو ان کی نگاہ میں پارلیمانی الیکشن نے اپنے لیڈر کی رہائی یقینی بنوانے کا زریںموقع فراہم کیا‘ جیسا کہ ان کے فرزند نے ’’دی وائر‘‘ سے اپنی گفتگو کے دوران برجستہ کہا کہ وہ اپنے والد سمیت کشمیر کےدیگر سیاسی قیدیوں کی رہائی چاہتے ہیں۔ انجینئر
موصوف نے کن سیاسی مقاصد ‘ کن سیاسی مصلحتوں کے تحت اور مستقبل کے حوالےسے اپنے کن سیاسی خاکوں میں رنگ بھرنے کے لئے زندان خانے کی سلاخوں کے پیچھےرہ کر بارہمولہ نشست پر انتخاب لڑنے کا فیصلہ لیا‘ وہ بھی عمر عبداللہ اور سجاد غنی لون جیسے سیاسی طور گرانڈیل اُمیدواروںکے مقابلے میں( جنہیں ایک منظم تنظیمی ڈھانچہ اور ایک ہمہ پہلوفعال کیڈر کا سپورٹ سسٹم میسر ہے ) اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا ۔ البتہ اس بار انتخابی سیاست کے میدان میںقدم رکھ کر انجینئرنے نہ صرف اپنے بلند حوصلگی اور سُوجھ
ُبُوجھ کا ثبوت دیا بلکہ بھارتی جمہوریت ‘ ملکی آئین اور ووٹ کی آہنی قوت پر اپنے غیر متزلزل یقین واعتماد کا ایک بار پھر مظاہرہ کیا۔ یہ بروقت اقدام محبوس انجینئر کا ایک ایسا جانفزا پیغام ہے جو ۱۹۸۷ میں مسلم متحدہ محاذ کی پوری قیادت دینے سے قاصر رہی۔ اُس وقت رسوائے زمانہ انتخابی دھاندلیوں نے نوجوانون میں مایوسی اور دل شکستگی کی لہر دوڑا دی۔ قیادت کا کام تھا کہ وہ نوجوانوں کو آئندہ بھی جمہوری کشمکش جاری رکھنے کے لئے آمادہ کرتی مگر ایسا کچھ نہ ہو ا۔اس خلیج سے بعض نوجوانوں کا ذہن اس قدر ماؤف ہوا کہ وہ چشم زدن میں جمہوریت کو چھوڑکر جنگجوئیت کی گود میں پناہ لینے پر آمادہ ہوئے، یعنی وہ ایک انتہا سے دوسری انتہا کو کوچل دئے۔ بے شک ان کے جذبات مجروح تھے ‘ اُن کے نرم ونازک احساسات کو صد مہ خیز چوٹ پہنچی تھی ‘ مگر ا یک درد کا علاج وہ دوسرے درد سے کر کے خسارے کا سودا کر گئے۔ جذباتیت کے عالم میںدیکھتے ہی دیکھتے اُنہوں نے انتخابی دھاندلیوں کا’’ انتقام‘‘ گھر پھونک تماشے سے لینا شروع کیا ۔ آج کی تاریخ میںاس ’’انتقام‘‘ کے کڑوے کسیلے نتائج ہمارے سامنے وسیع وعریض قبرستانوں ‘ ناقابلِ فراموش المیوںاور بے پناہ تباہیوں کی ہولناک کہانی کی شکل میں موجود ہیں۔حد یہ کہ ثمر بار کوششوں کے باوجود کشمیر ابھی تک لاکھ سنبھلے نہیں سنبھلتا ۔ گزشتہ دنوں پہلگام میں نہتےسیاحوں اور شوپیان میں جان لیوا حملے اس سلسلے کی تازہ مثال پیش کرتےہیں ۔
تاریخ میں ایسی ڈھیر ساری مثالیں ملتی ہیں جب کسی سیاسی قیدی نے جیل کاٹتے ہوئے‘ کسی مقتول سیاست دان کے بیٹے یا بیٹی نے‘ کسی اعلیٰ وارفع مقصد کے لئے وقف سماجی کارکن نے انتخابی میدان چن لیا اور پابہ زنجیر ہونے یا دیگر مشکلات کے باوجود انتخابات لڑنے کا جوکھم اُٹھایا ۔ ایسے لوگ پیشگی طور اپنی جیت کے کھاتے میں اپنےتئیں عوامی ہمدردی جوڑتےہیں ۔ وہ پُر امید ہوتے ہیں کہ اُن کے حق میں لوگوں کے دل میں جذبہ ٔ ترحم جنریٹ ہوگا‘ قلوب میںنرم گوشہ پیدا ہوگا ‘اُن کی موافقت میں عوامی لہر پیدا ہوگی ۔ بارہا ایسے اُمیدوار عوامی ہمدردی کے کاندھوںپر سوار ہوکر میدان مار بھی لیتے ہیں ۔ اندرا گاندھی‘ بے نظیر بھٹو‘ راجیو گاندھی‘ حسینہ واجد ‘برما کی آنگ سانگ سوچی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ منی پور کی خاتون کارکن اروم شرمیلا نے افسپا کی ہٹانے کے لئے نومبر ۲۰۰۰ سے ۹؍اگست ۲۰۱۶ تک سولہ سالہ بھوک ہڑتال کی ‘ اسی دوران انہوں نے الیکشن بھی لڑا مگر بری طرح ہار بیٹھیں۔ تواریخِ کشمیر کے اوراق کی گردانی کیجئے تو ایک ایسی مثال ممنوعہ جماعت اسلامی جموں وکشمیر نے ماضیٔ بعیدمیں قائم کی۔ یہ کانگریسی وزیراعلیٰ سید میر قاسم کا دورِ اقتدار تھا ، ریاستی اسمبلی کےانتخابات ہورہے تھے ‘ان میں شرکت کے لئے جماعت کے موسس قاری سیف الدین مرحوم نے خانیار سری نگر کی نشست پر جیل کی کال کوٹھری سے الیکشن لڑ ا ‘ اور جیت درج کی ۔ آج یہی مثال کئی ہزار گنا زیادہ گرم جوشی اور سیاسی حرارت کے ساتھ انجنیئررشید بھی قائم کر نے کی راہ چل پڑے ہیں ۔ شمالی کشمیر کےعوام کا فیصلہ ان کے حق میں صادر ہوگا ‘ سجادغنی لون کے حق میں ہوگا‘ عمر عبداللہ یا فیاض میر کےحق میں ‘ وہ فی الحال ووٹنگ مشینوں میں بند ایک سربستہ راز ہے ۔ یہ راز اگلے ماہ کے پہلے ہفتے کی ووٹ شماری سےاظہر من الشمس ہوگا ۔ تب جاکر دنیا جہاں کو پتہ چلے گا کہ جو بلند حوصلہ بارہمولہ اپنے ہرےزخموں کے مرہم کے لئے انتخابی میدان میں تن من دھن سے کود گیا تھا‘ اُس کی نمائندگی کر نے والوں کی قسمت کے بارے میںہو اکا رُخ جو کچھ بتارہاتھا ‘آیا ووٹوں کی اکثریت اس رُخ سے مطابقت رکھتی ہے یا نہیں ۔
یہاں یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ پیپلز کانفرنس اور نیشنل کا نفرنس جیسی دومستنداور مقبول پارٹیوں کے مد مقابل قید وبند سےانجینئر کاالیکشن لڑنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں تھا مگر انہوں نے یہ چلنج قبول کیا۔ ان کی کمی کو پورا کر نے کے لئےانجینئر کےنوعمرصاحبزادے سامنے آئے۔ انہوںنے اپنے والد گرامی کی عدم موجودگی کے باوصف الیکشن مہم میں آناً فاناً ایک ایسی جادوئی رُوح پھونک دی کہ سیاسی مبصرین ورطۂ حیرت میں پڑ گئے۔ اگر اُن کے محبوس والد بہ نفس نفیس میدان میں موجود ہوتے تو غالباً اس سے زیادہ موثرمہم نہیں چلاسکتے۔ ابرار رشید کےسر کردگی میں بانڈی پورہ اور لنگیٹ وغیرہ علاقوںمیں انجنیئر کے حق میںسینکڑوں نوجوان روڑشوز اورریلیوں میں کھینچ آئے ۔ جوش وجنون سے لبریز یہ نوجوان دیوانہ وار محبوس اُمیدوارکی کامیابی کے لئے بے محابہ اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہے۔ان کے بدن بیان سے بین السطورمترشح ہورہاتھا جیسےیہ نوجوان خود برسوں طویل حبس اور گھٹن کی قید سےرہائی پاکر اپنے دردوکرب کا برملا اظہار کرنے کی آزادی پاچکے ہوں‘ ان کے جوشیلے پن سے محسوس ہورہاتھا کہ اُنہیں اسی طرح جمہوریت میں ’’بہترین انتقام کا ہتھیار‘‘ دِ کھ رہاہے جیسے بے نظیر بھٹو کی ہلاکت جیسے ہوش رُبا موقع پران کے نوعمر بیٹے بلاول بھٹو نے علانیہ کہا تھا کہ ’’ڈیماکریسی بہترین بدلہ ‘‘ہے۔
شمالی کشمیر کے نوجوانوں اپنی تیز طرار الیکشن مہم کے آئینے میں اپنے اندر سلگتے جذبات کی تشفی کا سامان ڈھونڈرہےتھے۔ یہ گویا اُن کے ہرے زخموں کا مرہم بھی تھا اور اُن کی داخلی تپش کے لئے تازہ ہوا کا ٹھنڈا ٹھنڈا جھونکا بھی۔ وہ آج اپنے اندر دبے ہوئے جذبات کو نعروں کی صورت میں اظہار کی زبان دے رہے تھے۔ میڈیا کے ساتھ اپنی گفتگوؤں میں یہ نوجوان صاف تاثر دے رہے تھے کہ ووٹنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا اُن کے دکھ کا مداوا ہے اور جمہوریت ان کا واحد سہارا ہے۔ وہ بزبان حال وقال کہہ رہے تھے کہ ان کے بھی زندگی کے بارے میں بلند آہنگ اَرمان اور رنگین خواب ہیں ‘ ان کو بھی روزگار کی تلاش ہے‘انہیں بھی اپنے مستقبل کی فکر کھائے جارہی ہے‘ یہ بھی مسائل کے گرداب میں اپنی فوری شنوائی چاہتے ہیں ‘ یہ بھی اپنی تکالیف اور گھٹن سے بھی چھٹکارا چاہتے ہیں‘ یہ بھی ملک کے دوسرے باشعور نوجوانوں کی طرح دلی سےایک جوابدہ حکومتی نظام کے متمنی ہیں اور سب سے بڑھ کر انہیں بھی آئین ِ ہند کے تحت جیو اور جینے دو کے جمہوری اصول کےشانہ بشانہ چلنا اپنے دین وایمان کا حصہ ہو نے کا فخر حاصل ہے ۔
یاد رہے کہ جمہوری جذبات سے سرشار یہ نوجوان شمالی کشمیر تک ہی محدودنہیں بلکہ پوری وادی میں پائے جاتے ہیں۔ وقت کی اذان ہے کہ اِن کے دلوں کی دھڑکن سنجیدگی سے سنی جائے اور انہیں قومی دھارے میں مربوط کرنے کے سیاسی عمل میں مزید جان ڈال دی جائے ۔