مصنف : ڈاکٹر نظام دامانی
مترجم : ڈاکٹر شیر شاہ سید
پچھلے دنوں جس اہم کتاب نے مجھے ازحد متاثر کیا اس کا نام ہے، جراثیم۔ زندگی اور موت کے ساتھی۔ میری دلچسپی جراثیم سے متعلق علم سے ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ میں نے پاکستان میں مائیکرو بیالوجی میں ماسٹرز کے بعد کالج کی سطح پہ تقریباً ایک دہائی طالبات کو مختلف قسم کے جراثیم سے ہونے والی بیماریاں پڑھائیں۔ پھر امریکہ میں سوشل ورک کی ڈگری لینے کے بعد بطور تھیرپسٹ سماج اور انسانی رویوں کے گہرے مشاہدہ کا موقعہ ملا تو اندازہ ہوا کہ انسان پہ بیتے واقعات اور سماجی حالات ان کی شخصیت کی صناعی میں کتنا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ساتھ ہی میرا فطری رجحان تحقیق اور تاریخ میں بھی ہے۔ یہ کتاب ان سارے ہی علوم کا ایک خوبصورت امتزاج ہے، جس میں مصنف بہت عام فہم انداز میں ان خطرناک جرثوموں اور ان سے ہونے والی بیماریوں کا ذکر کرتے ہیں کہ جنہوں نے وباؤں کی صورت انسانوں کی بستیوں کی بستیاں اجاڑ دیں۔ (کووڈ کی وبا تو ہم نے ابھی دیکھی ہے۔ ) ساتھ ہی وہ ان بیماریوں کے تاریخی پس منظر اور ان کے علاج کے لیے کی جانے والی انسانی جدوجہد اور سائنسی ارتقا کی تاریخ بھی بیان کرتے ہیں کہ جن کی وجہ سے آج دنیا سے مختلف بیماریوں کا خاتمہ ویکسینز، اینٹی بائیوٹک اور موثر دواؤں کی صورت ممکن ہوا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کتاب میں جرثوموں کی انسانی جانوں پہ ہونے والی کارستانیوں کے ساتھ ساتھ مصنف کی اپنی زندگی کی داستان بھی چل رہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں ”غربت اور انتہائی خراب رہائشی حالات کی وجہ سے ہمارا خاندان ہمیشہ بیماریوں کا شکار رہا۔ میرے تجربات ایک ایسے ملک میں پیدا ہونے کے بعد کے ہیں جہاں نہ صاف پانی میسر ہے اور نا ہی سیوریج کا کوئی مناسب انتظام ہے۔“
یہ کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ غربت، عسرت اور بیماریوں سے جوجنے والے گھرانے کے فرد ڈاکٹر نظام دامانی نے کس طرح شدید محنت کر کے ڈاؤ میڈیکل کالج سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی۔ نظام صاحب کی کتاب کا محرک یہی بیماریاں ہیں جن کو انہوں نے یا ان جیسے لاکھوں افراد نے جھیلا اور ڈاکٹر دامانی کو اپنی میڈیکل کی تعلیم کے بعد پتھالوجی کے علم میں خصوصی مہارت حاصل کرنے پہ مائل کیا۔ آج ان کا شمار دنیا کے ان چند پتھالوجسٹوں میں ہوتا ہے جو جراثیم اور ان سے پھیلنے والے امراض سے تحفظ اور اس پر قابو پانے کے ماہر تصور کیے جاتے ہیں۔ اور انہیں اپنی خدمات کے اعتراف میں کئی بین الاقوامی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔
Dr. Nizam Damani
جراثیم تو اربوں سال سے دنیا میں موجود ہیں لیکن ان دیکھی مخلوق کی موجودگی کے ثبوت کا سہرا ہالینڈ کے لیون ہک (1632۔ 1723ء) کے سر ہے جنہوں نے سادہ مائیکرو اسکوپ کو ایجاد کیا اور اس میں مشاہدہ کے بعد خرد نامیوں کی چھپی کائنات کا پتہ لگایا۔ گو ان جراثیم کا بیماریوں سے تعلق کی تاریخ محض پونے دو سو سال سے بھی کم پرانی ہے۔ یعنی اس وقت سے جب نظریہ جراثیم عام ہوا۔ اس سے قبل لوگ جس نظریے کو درست سمجھتے تھے، اس کے تحت جرثوموں کے بجائے بیماریاں گندی اور بدبو دار ہوا سے پھیلتی تھیں۔ آگہی اور سائنسی علم کے سفر میں، تب سے اب تک، انسان بیماریاں پھیلانے والے جرثوموں کے ہاتھوں ہونے والی تباہ کاریوں، بشمول کووڈ، سے جنگ لڑتے رہے ہیں۔
لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مضر رساں جرثوموں کے مقابلے میں ایسے جرثومے بھی لاتعداد ہیں کہ جو ہمارے لیے بہت مفید ہیں۔ بلکہ ان کے عمل دخل کے بغیر کائنات میں حیات کا سلسلہ ممکن نہیں۔ اور جس کے لیے انسانیت ان جرثوموں کی شکرگزار ہے۔ مگر ان کی افادیت پہ تفصیلی گفتگو اس کتاب کا موضوع نہیں لہٰذا اختصار کی خاطر ہم اپنے موضوع کو جراثیم سے ہونے والی بیماریوں تک ہی محدود رکھیں گے۔
یقیناً اس کتاب میں درج تمام بیماریوں کا ذکر اس مضمون میں ممکن نہیں۔ لیکن ان سے متعلق چند دلچسپ حقائق ضرور بیان کیے جا سکتے ہیں۔ ان میں وہ بیماریاں بھی ہیں کہ جن سے مصنف اور ان کے گھر کے افراد براہ راست (مثلاً ہیضہ، چیچک، ٹائفائیڈ، ملیریا، خسرہ، یرقان، وائرس ہر پیس، امیباسس، جیارڈیاسس، آنتوں کے امراض، پیٹ کے کیڑوں کی بیماریاں، کووڈ وغیرہ) یا بالواسطہ متاثر ہوئے۔
مصنف نے بتایا کہ کس طرح وہ چھ ماہ کی عمر میں ہیضہ کا شکار ہو کر موت کے منہ سے واپس آئے۔ جو گندے پانی سے ہونے والی دستوں کی بیماری ہے اور بیکٹیریا وائبرو کالری سے ہوتی ہے۔ جو ہزاروں سال قبل دریائے گنگا کے ساتھ آبادی سے پھوٹی اور ایشیا میں کئی وباؤں کے بعد 1991ء میں امریکہ تک پھیلی۔ بیماری میں جسم میں پانی اور اوکسیجن کی کمی ہوجاتی ہے اور جسم کی رنگت نیلی ہو جانے کے سبب اسے ”نیلی موت“ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کا علاج کبھی جونک سے ہوا تو کہیں ہیضہ کی دیوی کے مندر پہ پھول اور پرشاد چڑھا کے۔ اب سائنسی ترقی کی بدولت اس مرض کا مناسب علاج اور تدارک ہے۔ لیکن پھر بھی ڈبلیو ایچ کے مطابق سالانہ 95000 لوگ اس بیماری سے مر جاتے ہیں۔
مصنف کی والدہ اپنے بچپن میں وائرس سے ہونے والی بیماری چیچک کا شکار ہوئیں۔ اس مرض کا سراغ بارہ ہزار سال قبل مسیح مصر کی ممیوں میں بھی ملا۔ ماضی میں چیچک کے جراثیم کو دشمنوں کو کمبل اور رومال کے صورت تحفہ دے کر حیاتیاتی ہتھیار کی صورت استعمال کیا گیا۔ آگہی نہ ہونے کے سبب اس کا علاج گھوڑے کی لید اور سرخ رنگ کے کمبل سے کیا گیا۔ لیکن مسلسل مشاہدات، تجربات اور سائنسی طرز فکر نے بالاخیر دنیا سے اس مرض کا خاتمہ ویکسین کی صورت کیا۔ ڈبلیو ایچ او نے 8 مئی 1980ء کو چیچک کے خاتمہ کا اعلان کیا۔
ڈاکٹر نظام نے بتایا کہ کس طرح صاف پانی کی کمی کی وجہ سے ان کی بہن ٹائیفائڈ کا شکار ہوئی جو گندے پانی میں موجود بیکٹیریا سالمونیلا ٹائفی سے ہوتا ہے۔ سالانہ ایک لاکھ اکسٹھ ہزار لوگ اس مرض سے موت کا شکار ہوتے ہیں۔
یہ بیماریوں کی محض چند مثالیں ہیں لیکن مصنف نے اور بہت سی بیماریوں مثلاً ایڈز، ٹی بی، ڈیپتھریا، کووڈ 19 وغیرہ جیسے امراض کے متعلق اہم اور دلچسپ معلومات اور تاریخی پس منظر کے ساتھ ساتھ ان عوامل کا تفصیل سے ذکر کیا ہے کہ جو ان بیماریوں کا سبب اور تدارک میں اہم ہیں بالخصوص تیسری دنیا کے ممالک کے حوالے سے، مثلاً صفائی ستھرائی، حفظان صحت کے اصول پہ مبنی نکاسی کا نظام، صاف پانی، صاف ہوا، غذائیت سے بھرپور کھانا، آبادی پہ قابو، تعلیم اور سائنسی انداز فکر، قانون کی پابندی، عوام کی بہبودی کا نظام جو مخلص اور بے غرض سیاسی حکومت کا مرہون منت ہے۔
واضح ہو کہ آگہی کے فقدان کے سبب آج کے ترقی یافتہ ممالک بھی ماضی میں ان بیماریوں سے اسی طرح نبرد آزما تھے جیسے آج تیسری دنیا کے۔ کیونکہ وہاں بھی صفائی ستھرائی کی اور سرجری سے پہلے اور بعد ہاتھ دھونے کی اہمیت نہ تھی۔ اسی طرح چند صدی قبل یورپ میں رہنے والے لوگ کھانے، پیشاب کرنے اور جنسی تعلقات کے بعد کسی قسم کی صفائی کا خیال نہیں رکھتے تھے۔ اسپین کی ملکہ ازابیلا (1451۔ 1504ء) اس بات پہ فخر کرتی تھی کہ میں اپنی ساری زندگی میں دو دفعہ نہائی ہوں۔ ایک دفعہ جب وہ پیدا ہوئیں اور دوسری دفعہ شادی سے پہلے غسل کیا تھا۔ وہ اور ان کے شوہر نے مسلمانوں کے بنائے حماموں کو تباہ کنے کا حکم دیا اور غسل کے خلاف قوانین بنا دیے۔
کتاب میں اسی قسم کے کئی دلچسپ تاریخی واقعات ہیں۔ میری نظر میں اس کتاب سے واضح ہوتا ہے کہ مصنف نے باوجود صعوبتوں کے کتاب خصوصاً فلسفہ سے اپنا رشتہ استوار کر کے اس سماج میں بہتری کی راہ کا راستہ تلاش کیا۔ ان کی کتاب سے سمجھ آتا ہے کہ گو انسان کا سائنسی طرز فکر کو اپنانے کا سفر طویل اور خاردار ضرور ہے مگر ان صعوبتیں اٹھانے کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح ہم نے مدافعتی ٹیکوں، دوائیوں اور اینٹی بائیوٹک کی مدد سے بیماریوں پہ قابو پایا اور یوں انسان کی عمر کی میعاد اور صحت بہتر ہوئی ہے۔
مصنف اپنے اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ ”نئے نئے قسم کے جراثیم اور ان سے پھیلنے والی بیماریوں کے خلاف اس وقت تک جنگ جاری رہے گی جب تک دنیا میں انسان اور حیات موجود ہے۔“
تمام تر کامیابیوں کے باوجود وہ اپنی اور اپنے خاندان کے افراد کی ان بیماریوں کو نہیں بھول سکتے کہ جنہوں نے انہیں شدید محنت، علمیت، سائنسی انداز فکر اور انسانیت سے تا عمر جڑے رہنے میں مدد دی۔ یہ کتاب انہوں نے کووڈ کے زمانہ میں اٹھارہ ماہ میں مکمل کی۔
مصنف نے اپنے کتابوں کے عشق بالخصوص فلسفہ کے علم کے حوالے سے لکھا ہے کہ ”وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے آپ کو ڈیجیٹل دنیا سے علیحدہ کریں اور خاموشی سے تنہائی میں بیٹھ کر شور و غل سے الگ ہو کر اپنے آپ کو فطرت سے دوبارہ ملائیں۔“ بلا شبہ یہ کتاب ہمیں بہت کچھ سوچنے کی دعوت دیتی نہ صرف اپنی جسمانی اور ذہنی سوچ بلکہ سماج کی بہتری کے لیے بھی۔
(کتاب کا ترجمہ کوہی گوٹھ پبلیکیشنز نے شائع کیا ہے جبکہ انگریزی میں یہ کتاب امیزون پہ آرڈر کی جا سکتی ہے اس کا ٹائیٹل ہے۔