تحریر : محمد شبیر کھٹانہ
اگرچہ دل کا سائز اتنا بڑا نہیں ہوتا جتنی انسان کے جسم میں دل کی ضرورت یا پھر دل کی اہمیت ہوتی ھے سائنس کے اعتبار سے ایک انسان کے سارے جسم میں موجود گندا خون دل پر آ کر صاف ہوتا ھے اور پھر دل اس صاف خون کو پورے جسم میں پمپ کرتا ھے ایک صحت مند انسان کا دل بھتر سے چرتر بار دھڑکتا ھے اور انسان کی صحت اور تندرستی کا اندازہ دل کی دھڑکن کی تعداد فی منٹ یا دل کی دھڑکن کی رفتار سے لگایا جا سکتا ھے
دل قدرت کی طرف سے انسان کے لئے ایک بہترین تحفہ ھے دل کا آئینے کی طرح صاف ہونا لازمی کسی کا علم کسی پر کتنا اثر پزیر ھے یا پھر علم کا کسی بھی علم حاصل کرنے والے پر کتنا اثر ہوا ھے اس بات کا اندازہ دل سے لگایا جا سکتا ھے اہل علم کی سوچ یا خیال کے مطابق علم سے دل کا، روشن ہونا لازمی ھے اگر علم سے دل روشن ہو گیا تو پھر ثابت ہوتا ھے مناسب اور درست علم جس کی ضرورت تھی وہ حاصل ہو گیا اور اگر دل روشن نہ ہو سکا تو پھر علم والے کو اپنے علم پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ھے
اب ہر ایک تعلیم یافتہ فرد کو اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ھے کہ وہ تعلیم یا پھر کا اپنے آپ پر اس قدر اثر پیدا کرنے کی پوری کوشش کرے تا کہ اس علم کا اس کے دل پر پورا پورا اثر ہو جائے اتنا اثر کہ دل کی آنکھوں میں پوری بینائی میسر ہو جائے دانشور اور با شعور افراد کا خیال ھے کہ کوئی بھی شخص تب انصاف کر سکتا ھے جب وہ دل کی آنکھوں سے دیکھتا ھے
شاعر نے کیا ہی خوب کہا ھے
دل بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں ھے
جب انسان عبادت کے لئے کھڑا ہوتا ھے تو ﷲ کی نظر انسان کے دل پر ہوتی ھے اس کا مطلب اگر دل صاف نہیں عبادت نہیں بلکہ کچھ بھی نہیں کسی بھی انسان میں نرمی عاجزی انکساری حلیمی ہمدردی احساس اچھی سوچ سب دل کی بدولت پیدا ہوتی ھے
دل کی خوبیاں اس طرح شمار کی جاتی ہیں پاک دل، نرم دل، ہمدرد دل، احساس والا دل ضمیر بھی دل کی بدولت زندہ ھے انسان میں احساسات اور جذبات کا واضح اظہار کرنے کی خاصیت بھی دل کی ہی بدولت موجود ھے انسان دل کی بدولت دوسروں کے احساسات اور جذبات کو سمجھتا ھے انسان دل سے ہی محسوس کرتا ھے اور نرم دل کو احساس ہوتا ھے جس انسان میں دوسروں کے احساسات اور جذبات سمجھنے کی زیادہ صلاحیت ہو یعنی وہ جتنا زیادہ درد دل رکھتا ہو وہ اسی قدر زیادہ اخلاق کا مالک بھی ہوتا ھے
ہر انسان میں اخلاق کا ہونا لازمی ھے انسان اخلاق کی وصف کے سبب انسانیت کی معراج پر پہنچ سکتا ھے انسان کی ذاتی خوبیوں میں سب سے بڑی خوبی اعلی اخلاق ہوتا ھے ایسے انسان کو سبھی پسند کرتے ہیں جو اخلاق کا پیکر ہو جو دوسروں کے ساتھ ہمدرد خلوص محبت سے پیش آئے اور ان کی قدر کرے اخلاق والا شخص سب کے ساتھ انکساری نرمی عاجزی اور حلیمی کے ساتھ پیش آئے وہ اپنے سے عمر میں چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش آئے وہ اپنی برابر عمر والوں کے ساتھ ہمدردی سے پیش آئے اور اپنے سے عمر میں بڑے کی عزت قدر کرے
احساس رکھنے والا شخص دوسروں کے درد کو اپنا درد سمجھتا ھے اور دوسروں کی جائز مدد کے لئے ہمیشہ تیار رہتا ھے نرم دل اور بااخلاق افراد دوسروں کی خدمت کو اپنا اخلاقی فرض سمجھتا ھے اور دوسروں کے کام انے میں خوشی محسوس کرتا ھے جو ایک عبادت بھی ھے اب اگر کسی فرد کی سرکاری ڈیوٹی محنت لگن اور ایمانداری سے انجام دینے پر دوسروں کی خدمت ہو جائے پھر اس سے بھی زیادہ اچھی بات ھے کیونکہ یہ بہت بڑی عبادت ھے اور یہ عبادت ﷲ کو بہت پسند ھے یاد رہے کہ ﷲ تبارک تعالی اپنی مخلوق کی خدمت کو بہت پسند کرتا ھے
دنیا میں جتنے بھی اچھے لوگ تھے انھوں نے ایک اچھے دل کی بدولت دوسروں کے دلوں میں گھر کر لیا اور اگر وہ دنیا سے چلے بھی گئے لیکن آج بھی لوگوں کے دلوں میں بس رھے ہیں اگر غور کیا جائے تو ان افراد کی اچھی سوچ تھی اچھے اخلاق تھے اور ان ہی اچھے اخلاق کی بدولت اچھے اخلاق کے مالک بن کر اپنی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچایا اگر وہ با اخلاق نہ ہوتے تو کوئی بھی ان کی بات کبھی بھی نہ سنتا وہ اچھا کام نہ کر پاتے اور پھر لوگوں کے دلوں میں اپنا گھر نہ بنا پاتے
نرم دل اور اچھے اخلاق والے افراد دوسروں کو بھی با اخلاق اور اچھے بنا سکتے ہیں دل ہی کی بدولت ایک انسان اپنے اندر خوبیاں پیدا کر سکتا ھے اور پھر محنت کی راہ پر گامزن ہو سکتا ھے اور اپنی خوبصورت منزل پر پہنچ کر قوم کی شاندار خدمت کر سکتا ھے
ایک اچھے دل والا انسان جب خود اچھا ہوتا ھے تو اس کو اچھے لوگوں کی محفل نصیب ہوتی ھے اور ان کی محفل سے وہ بہت کچھ سیکھتا ھے جس میں مزید اچھے اخلاق اچھی خوبیاں اور پھر اچھی زندگی گزارنے کا طور طریقہ بھی شامل ہوتا ھے وہ اپنے تمام رشتہ داروں کی عزت قدر کرتا ھے پورا سماج برادری اور رشتہ دار بھی اس کی عزت قدر کرتے ہیں اس کا مطلب ایک اچھے اخلاق اور احساس رکھنے والا شخص سماج کا کامیاب ترین شخص ہوتا ھے اور یہ سب ایک اچھے دل کی بدولت ممکن ہوتا ھے
دل کی ہی بدولت انسان کا تعلق ﷲ سے جڑتا ھے یہ انسان کی زندگی کا سب سے بڑا راز ھے اور انسان کی زندگی کا مقصد بھی یہ ہی ھے کیونکہ دل کی ہی بدولت انسان کے دل میں دوسروں کے لئے درد ہوتا ھے
بقول شاعر :
مختصر اتنا کہ دو حرفوں سے بنا ھے دل
طویل اتنا کہ اس میں سارے جہاں کا درد ھے
دل کی ہی بدولت انسان صراط مستقیم پر چلتا ھے وہ دل کو عقل کے ساتھ جوڑ کر دل کو اپنا رہنما بناتا ھے غلط راستے سے بچنے کے لئے دل کو اپنے قابوں میں رکھتا ھے زہنی کشمکش سے دل ہی انسان کو بچا سکتا ھے جب کسی بھی فرد کے دل ودماغ کو بہترین خوبیاں عطا فرما دے تو پھر وہ ایک کامیاب انسان بن کر زندگی بسر کرتا ھے
سب سے اہم بات یہ ھے کہ کسی بھی تعلیم یافتہ شخص کے علم کا اثر اس کے دل پر ہوتا ھے اور ہونا بھی چائیے اب اگر علم کا اثر دل پر ہو گیا تو پھر دل روشن ہو جائے گا دل کی آنکھوں میں پوری روشنی پیدا ہو جائے گی اور پھر انسان دل کی آنکھوں سے دیکھ کر اپنے ساتھ اور پھر سب کے ساتھ انصاف کر سکے گا جس کا علم جتنا زیادہ ہو اس کا دل اتنا ہی زیادہ روشن ہونا لازمی ھے اس کی دل کی آنکھوں میں اتنی ہی زیادہ روشنی ہونا ضروری ھے اور پھر وہ اپنے ساتھ اور پھر دوسروں کے ساتھ اتنا ہی زیادہ انصاف کرنا چائیے ثابت ہوتا ھے جتنا کسی کا علم زیادہ ہو اتنا ہی وہ انصاف پسند ہونا چاہیے
اب چونکہ ہمارے سماج میں اساتذہ اکرام سب سے اعلی تعلیم یافتہ ہیں تو مذکورہ بالا تمام خوبیاں اساتذہ اکرام کو اپنے اندر پیدا کرنے کی اشد ضرورت ھے ہر ایک استاد محترم کو اپنا محاسبہ کر کے اپنے دل کو پورا روشن کرنے کی اشد ضرورت ھے تا کہ وہ اپنے ساتھ اور پھر سماج کے ساتھ پورا انصاف کر سکے سب سے پہلا انصاف اپنے ساتھ کرنا پڑتا ھے تو پھر سماج کے ساتھ انصاف ہوتا ھے
اگر کچھ اساتذہ اکرام سماج کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں تو باقی اساتذہ اکرام کے لئے یہ لازمی ھے وہ ان کی قابلیت کا جائزہ لگا کر اپنے اندر اتنی ہی قابلیت پیدا کریں ان سے کام کرنے کا ہنر سیکھیں ان کے کام کرنے کے تجربات حاصل کریں بچوں کو اچھی طرح پڑھانے کے لئے بھی ٹیچینگ ایڈز دیگر اساتذہ اکرام استعمال کرتے ہیں دیگراں کو بھی ان ٹیچینگ ایڈز کا استعمال اچھی طرح سیکھنا ھے تب وہ بچوں کو اچھی طرح پڑھا سکیں گے اساتذہ اکرام کو اپنے اندر کتنی قابلیت پیدا کرنے کی ضرورت ھے یہ سب نیشنل ایجوکیشن پالیسی 2020 سے پوری طرح عیاں ھے اس کا مطلب اس پالیسی کا ڈرافٹ سب اساتذہ اکرام کے لئے پڑھنا اور سمجھنا اشد ضروری ھے ۔
نیشنل ایجوکیشن پالیسی 2020 کے پیرہ 0۔ 13 میں دی گئی تمام خوبیاں اساتذہ اکرام کو اپنے اندر پیدا کرنے کی اشد ضرورت ھے کیونکہ اس شاندار پالیسی کے مطابق اساتذہ اکرام کے لئے یہ لازمی ھے کہ وہ یہ تمام خوبیاں بچوں کے اندر پیدا کریں اور تمام اساتذہ اکرام یہ سب خوبیاں بچوں کے اندر تب ہی پیدا کر سکیں گے جب یہ خوبیاں ان کے اندر ہو گی اور جب یہ تمام خوبیاں تمام اساتذہ اکرام کے اندر پیدا ہو گئی تو پھر انصاف کرنا ان کے لئے کسی بھی طرح مشکل نہ ہو گا
جن اساتذہ اکرام کو ﷲ تبارک تعالی نے اعلی علم سے نوازا ہے ان سب پر فرض ھے وہ سب اس علم کی عزت و قدر کریں اب علم کی عزت و قدرتب ہو گی جب تمام اساتذہ اکرام علم کا مناسب اور مکمل استعمال اس مقصد کے لئے پوری محنت لگن اور ایمانداری سے کریں گے جس مقصد کے لئے ﷲ تبارک نے تمام اساتذہ اکرام کو اس علم کی لازوال دولت سے نوازا ھے اور وہ مقصد سب کو ہی معلوم ھے اور وہ ھے پوری محنت لگن اور ایمانداری اور ساتھ ہی ساتھ پوری قابلیت کے ساتھ بچوں کو یہ علم پڑھانا ھے ثابت ہوتا ھے اساتذہ اکرام کو ہر لحاظ سے محنت لگن اور ایمانداری سے کام کرنا چائے
آخر میں تمام اساتذہ اکرام کی نظر ایک شعر پیش خدمت ھے
علم سیکھو بھی سیکھاؤ بھی سنور جاؤں گے
روشنی بن کے زمانے میں بکھر جاؤں گے
اور پھر
علم آتا ھے تو القاب بھی آجاتے ہیں
زندگی جینے کے آداب بھی آجاتے ہیں
تمام اساتذہ اکرام کے لئے یہ ضروری ھے کہ وہ اس تمام علم اور ہنر کو جو بھی اپ کو ﷲ تبارک تعالی نے عنایت کیا ھے اس کو صدیوں تک زندہ رکھنے کے لئے آنے والی نسلوں میں یہ تمام علم اور ہنر منتقل کریں اس کا بہترین طریقہ یہ ہی ھے کہ پوری محنت لگن اور ایمانداری سے بچوں کو یہ علم پڑھایا جائے اور پھر ان کی صلاحیتوں کو مناسب طریقے سے بروئے کار لا کر یہ سب ہنر بچوں کو جنریشن در جنریشن پوری محنت لگن اور ایمانداری سے سیکھایا جائے