ڈوڈہ میں پیش آئے سڑک حادثے میں دو افراد ہلاک اور25 دوسرے زخمی ہوئے ہیں ۔ ہفتہ کی صبح کو ٹھاٹھری رو ڈ پر پیش آئے اس حادثے میں مبینہ طور ایک منی بس سڑک سے لڑھک کر ایک کھائی میں گرگئی اور مسافروں کے ضیاں کا یہ واقع پیش آیا ۔ حادثے کی وجہ اوور لوڈنگ بتایا جاتا ہے ۔ اس دوران جنوبی کشمیر میں بھی پچھلے ہفتے کے دوران بتایا جاتا ہے کہ پانچ مقامات پر گاڑیوں کی آپسی ٹکر سے کئی مسافر شدید زخمی ہوئے ہیں ۔ ایک نوجوان اس وقت مارا گیا جب اس کے موٹر سائیکل کو ایک ٹپر نے ٹکر ماری ۔ چندن واڑی میں بھی ایک حادثہ پیش آیا جہاں چاریاتریوں کے معمولی زخمی ہونے کی اطلاع ہے ۔ اس کے علاوہ کئی جگہوں پر چھوٹے چھوٹے ٹریفک حادثات پیش آئے جن میں مسافر بال بال بچ گئے ۔ تاہم جن گاڑیوں کو حادثے پیش آئے ان کو سخت نقصان پہنچنے کی اطلاع ہے ۔ ان اطلاعات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ٹریفک حادثات یہاں روز کا معمول بن گئے ہیں ۔ ان حادثات کے حوالے سے سرکار کی طرف سے کوئی سخت کاروائی کی جاتی ہے نہ عوام کوئی ردعمل دکھا رہے ہیں ۔ ایسے حادثات اب یہاں معمول بن گئے ہیں جن کو روکنے کے لئے کوئی خاص منصوبہ بندی نہیں کی جارہی ہے ۔سرکار سڑکوں پر تارکول بچھانے کا کام شد ومد سے کررہی ہے ۔ یہ ایک حوصلہ افزا بات ہے کہ اس طرح سے شہر و گام سڑکوں کو بہتر بنانے کا کام بڑے پیمانے پر ہورہاہے ۔ صحیح تناظر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پچھلے دس سالوں کے دوران سرکار نے سڑکوں کا جال بچھانے کا وسیع کام انجام دیا ۔ دور دراز کے علاقوں میں پختہ سڑکیں بنائی گئیں جس سے لوگوں کے نقل وحمل میں بڑی سہولیات میسر آئی ہیں ۔ تاہم اس بات پر افسوس کا اظہار کیا جارہا ہے کہ سڑکوں پر آئے دن کے حادثات کی وجہ سے سڑکیں اور ٹریفک لوگوں کے لئے وبال جان بن گیا ہے ۔ ٹریفک حادثات میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے کو مل رہاہے ۔ اس وجہ سے لوگ خوف و ہراس کا شکار ہیں ۔ سب سے زیادہ تشویش کا باعث یہ بات ہے کہ ایسے حادثات میں زیادہ تر ایک ہی کنبے کے لوگ مارے جاتے ہیں یا کم عمر نوجوان ان حادثات کا شکار بن جاتے ہیں ۔ حادثات کو قابو میں نہ رکھنا ہماری نااہلی اور غیر ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت فراہم کرتا ہے ۔
جدید آلات میسر آنے سے گاڑیوں پر ڈرائیوروں کا کنٹرول بڑھ گیا ہے ۔ خاص طور سے چھوٹی گاڑیوں میں اب جس طرح کے بریک اور اسٹیرنگ فٹ ہوتے ہیں ان سے گاڑیوں کو قابو کرنا پہلے سے زیادہ آسان بن گیا ہے ۔ اس وجہ سے حادثات میں یقینی طور کمی آنی چاہئے ۔ لیکن ایسی گاڑیوں کی رفتار میں بھی اضافہ دیکھنے کو مل رہاہے ۔ دوسری طرف سڑکوں پر تار کول بچھانے کی وجہ سے ان پر تیز رفتار گاڑیاں چلانا ایک فیشن بن گیا ہے ۔ نوجوانوں کو جب جدید طرز کی گاڑیاں میسر آئی ہیں تو وہ سڑکوں پر کرتب دکھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس کے نتیجے میں بڑے بڑے حادثات پیش آتے ہیں ۔ دوسری طرف پہاڑی علاقوں میں سڑکیں معمولی جھٹکوں کی وجہ سے گہری کھائیوں میں گر جاتی ہیں اور جانی نقصان کے واقعات پیش آتے ہیں ۔ ان علاقوں میں مسافروں کو سفر کرنے کے لئے بہت کم ٹریفک میسر ہے ۔ خاص طور سے صبح اور شام کو جبکہ سواریوں کا بہت زیادہ رش ہوتا ہے ضرورت کے مطابق گاڑیاں میسر نہیں ہوتی ہیں ۔ اس وجہ سے گاڑیوں میں گنجائش سے زیادہ مسافر سوار ہوتے ہیں ۔ ایسا کوئی شوق پورا کرنے کے لئے نہیں بلکہ شدید مجبوری کے تحت کیا جاتا ہے ۔ لوگوں کی اس مجبوری کا گاڑیوں کے مالک ناجائز فائدہا ٹھاتے ہوئے حد سے زیادہ سواریاں گاڑیوں میں بھر دیتے ہیں ۔ بلکہ انہیں دھکہ دے دے کر گاڑیوں میں ٹھونس دیا جاتا ہے ۔ ایسی گاڑیوں کو قابو میں رکھنا مشکل ہوجاتا ہے ۔ بلکہ منزل مقصود تک پہنچنے میں جلدی دکھانے کے نتیجے میں گاڑی ڈرائیور کے قابو سے نکل کر حادثے کا شکار ہوتی ہے ۔ پوری صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو انتظامیہ اور عوام دونوں انتہائی لاپروائی کا ثبوت دیتے ہیں ۔ تاہم جانی نقصان عوام کو ہی اٹھانا پڑتا ہے ۔ یہ صورتحال تما حلقوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔ انتظامیہ سرینگر اور دوسرے بڑے شہروں میں ای بسیں چلانے میں لگی ہوئی ہے ۔ بلکہ سمارٹ سٹی منصوبوں کے تحت شہروں میں بہتر ٹریفک سہولیات فراہم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔ اس دوران کئی خستہ حال سڑکیں اور ٹریفک نظام پر کوئی کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے بڑے بڑے حادثات پیش آرہے ہیں ۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایسے حادثات پر عام طور پر کوئی خاص کاروائی نہیں ہوتی ہے ۔ مرنے والوں کے وارثین سمجھوتہ کرکے حادثات میں ملوث افراد کو بخشتے ہیں اور قانونی کاروائی کو روک دیتے ہیں ۔ اس طرح کی غیر ضروری چھوٹ ٹریفک حادثات میں اضافے کا باعث بن رہی ہے ۔ لوگ عام طور پر ایسے حادثات کو انسانی غلطی کے بجائے قدرت کی کارستانی قرار دے کر قانونی کاروائی غیر ضروری سمجھتے ہیں ۔ دوسری طرف انتظامیہ طوالت سے بچنے کے لئے خود کو دور رکھنے کی کوشش کرتی ہے ۔ فریقین کے درمیان ہوئے تصفیے کو قانونی شکل دے کر صحیح کاروائی نہیں کی جاتی ہے ۔ اس طرح کے اقدامات ٹریفک نظام کو بہتر بنانے اور سرکار کی رٹ قائم کرنے میں آڑے آرہے ہیں ۔ بہتر ہے کہ شہری اور انتظامی اہلکار ذمہ داری کا ثبوت دے کر ٹریفک حادثات کو قابو کرنے میں مدد دیں ۔
