از:نذیر موم
بارہمولہ ضلع کے تین اطراف میں پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے تین ضلعے پڑتے ہیں ، ایک طرف نیلم ؛ دوسری طرف مظفر آباد اور تیسری طرف باغ / فارورڈ کہوٹہ
جس گاوں میں یہ تصویر لی گئی ہے اسکا نام ” ترکانجن” ہے ۔ اور اس گاوں میں بر صغیر ہند و پاک کے معروف شاعر ،ادیب اور صحافی جناب چراغ حسن حسرت پیدا ہوئے تھے جوعلامہ اقبال، ابوالکلام آزاد ، حفیظ جالندھری ، سعادت حسن منٹو اور اسکے وقت کے تمام ادیبوں ، شاعروں اور جید علما کے دوست اور ہمعصر تھے۔
اردو کےبہت سارے شہر آفاق قلمکار اسکو اپنا استاد مانتے تھے ۔ 1904میں پیدا ہونے والے 16مشہور کتابوں کے مصنف حسرت نے میٹرک پاس کرنے کے بعد غیر منقسم ہندوستان کا رخ کیا جہاں نثر ، نظم ، کالم نگاری اور صحافت کے میدان میں جھنڈے گاڑھے۔ چراغ صاحب نے فارسی اردو اور عربی کی ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی ، پونچھ میں میٹرک کیا اور لاہور سے بی، اے کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد ’زمیندار‘ ’انصاف‘ اور ’احسان‘ جیسے اہم اخبارات سے وابستہ ہوکر صحافیانہ سرگرمیوں میں شامل ہوگئے۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران حسرت ’فوجی اخبار‘ کے مدیر بھی رہے۔ روزمانہ ’امروز‘ میں حسرت نے ’سند باد جہازی‘ کے نام سے مذاحیہ کالم لکھے جو اس وقت بہت مقبول ہوئے اور بہت دلچسپی کے ساتھ پڑھے گئے۔ حسرت زندگی بھر اس قدر متنوع علمی اور تحقیقی کاموں میں لگے رہے کہ انہیں شاعری کے لئے کم وقت مل سکا۔ انہوں نے مسلمانوں کے عروج و زوال کی ’سرگذشت اسلام‘ کے نام سے کئی جلدوں پر مشتمل تاریخ لکھی۔ اسی کے ساتھ قائد اعظم محمد علی جناح اور اقبال پر ان کی کتابیں اپنے علمی اور فکری مباحث اور استدلال کی وجہ سے آج بھی اہمیت کی حامل تصور کی جاتی ہیں۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ چراغ حسن چراغ نے
مشہور ترک سردار اور مجاہد “ارطغرل” پر لکھی گئی کتاب کے علاوہ پندراہ اور کتابیں لکھیں ۔
اور فخر کی بات یہ ہے کہ انکی وفات کے بعد ان پر درجنوں کتابیں لکھی گیں ۔
میرے رشتہ دار پروفیسر محمد اسماعیل ریٹائرڈ پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج بارہمولہ اور کشمیر کے معروف ادیب ، شاعر، افسانہ نگار ، محقق، مورخ ، استاد، براڈ کاسٹر ، راجہ نظر بونیاری صاحب بھی اسی گاوں کے رہنے والے ہیں۔ سہ پہر کی چائے ان کے ہاں پینے کا اردہ ہے ۔ انہوں نے کئی بار دعوت کی مگر آج انکی خدمت اچانک حاضر ہونا ہے ۔ میں اس خوبصورت گاوں میں پہلی بار آیا ہوں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے اپنے یاروں کو ،اتنا سمجھانا ہے ۔آنکھیں کھولو اپنی ،ظالم یہ زمانہ ہے –
اپنوں نے پرایوں نے، شاطر ہمسایوں نے
ہتھیار بنایا ہےہمکو ، ہمدردی بہانہ ہے –
بے بس بیچاروں کا ،اورقسمت کے ماروں کا ،
دشمن عرش وفرش ہے ، دشمن سارا زمانہ ہے
ہند و پاک کی یارو ، یہ ساری نورا کشتی ہے ۔
کشمیر پر قبضے کا انکا ، اک خواب سہانہ ہے –