تحریر:ش، م، احمد
رواں سال کا حج بیت اللہ تاریخ کے پنوں میں ماتم اور مرثیہ کے جلّی عنوان سے درج ہوگا ۔ اس بار جو انسانی المیے حجاج کرام کے گلے پڑگئے‘ مورخ اُس کی رُوداد آنسوؤں کی زبان میں اور آہوں کے پیرائے میں بیان کرتارہےگا۔ افسوس صد افسوس کہ تاحال سعودی عرب میں شدید تپش والی گرمائی لہر کے چلتے چھ سو کے قریب حاجی صاحبان جام ِ شہادت نوش کر چکے ہیں‘ سینکڑوں شفاخانوں میں زیرعلاج ہیںِ ‘ بے شمار لاپتہ مصری حجاج کی تلاش جاری ہے ۔ پتہ نہیں شہدا کی تعداد چھ سو نفوس پر رُک جائےگی یا خدانخواستہ اس تعداد میں مزید اضافہ ہوگا ۔ شہادت کا درجہ پانے والے حاجیوں میں مبینہ طور پانچ کشمیری زائرین بھی شامل بتائے جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان تمام شہدا کے درجات بلند فرمائے۔
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اِِ مسال ۱۸؍ لاکھ سے زائد رجسٹر شدہ حاجیوں نے فریضہ ٔ حج ادا کیا۔ قاعدے سے سرکاری آنکھڑوں میں وہ لاکھوں حاجی صاحبان شامل ہی نہیں ہوتے جو سعودیہ کے قریبی ہمسایہ ممالک سے چوری چھپے در ندازی کرکے ارضِ مقدس میں حج کے لئے حاضر ہوتے ہیں ۔ غیر رجسٹر حاجیوں میں مملکت میں مقیم تارکین ِ وطن بھی شامل ہوتے ہیں جو سعودیعرب میں مختلف مقاصد سے مقیم ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ اپنے اقامہ کا غلط فائدہ اُٹھاکر غیر قانونی طور حج قافلوں میں گھس کر حا جی بن جاتے ہیں ۔ سعودی قانون کی صریح خلاف ورزی کرکے حج کرنے کو شریعت کس نظر سے دیکھتی ہے‘ اس بارے میں مفتیان کرام ہی روشنی ڈال سکتے ہیں‘ ِ البتہ بادی النظر میں لا آف لینڈ کو لتاڑکر ایسا کر گزرنا اس ناچیز کو دُرست نہیں لگتا ۔ بہر صورت موسم ِحج میں حرمین اور مقامات ِ مقدسہ میں بھاری رَش ہونے کےسبب ِ حاجیوں کی فطری اموات ہونا‘ بعضوں کا ناگہانی ہلاکتوں کی نذر ہونا کوئی خلافِ معمول بات نہیں ۔ ہزاروں سال پر محیط حج تاریخ کے چکلےچوڑے سینے میں ایسی لاکھوں غم ناک سرگزشتیں دفن ہیں جو ہمیں بتاتی ہیں کہ ایام ِ حج میں کبھی زائرین قلت ِ آب سے‘ کبھی طوافِ کعبہ یا منیٰ میں شیطان کو کنکریاں مارنے کے دوران بھگڈر مچ جانے سے‘ کبھی موسم کی مار سے‘ کبھی وبائیں اور بیماریاں پھوٹنے سے‘ کبھی جنگ وجدل کی شعلہ فشانی سے‘ کبھی آتش زنیوں اور گروہی رقابتوں کی آگ بھڑکنے وغیرہ سے کعبہ مشرفہ اور مقدسات ِ حج میں اَن گنت انسانی جانوں کازیاں ہوتارہا ہے ‘ آئندہ ایسا نہ ہو‘ اس طرح کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی ۔ عین ممکن ہے کہ ایسے صدمات وحادثات اور المیے آگے بھی کسی نہ کسی بہانےوقوع پذیر ہوں ۔ بایں ہمہ ہزاروں سال سے معجزۂ خداوندی کا تسلسل دیکھئے کہ قرامطہ کی ڈھائی سالہ بغاوت کے علاوہ ارضِ مقدس نہ کبھی حجاج کرام سے خالی رہا ‘ نہ کعبہ مقدسہ کا ہمہ وقت طواف کر نے والوں کا سلسلہ کبھی ٹوٹا ‘ حتیٰ کہ کووڈ۔ ۱۹ جیسی تباہ کن عالمی وبا کے دوران بھی علامتی ہی سہی‘ حج بیت اللہ کا فریضہ انجام پا تا رہا۔ ہمارا عقیدہ و ایمان ہے کہ ہونی کو کوئی ٹال نہیں سکتا‘ اس نقطے پر کسی بحث وتکرار کی گنجائش بھی نہیں‘مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم انسانی جانوں کے نقصان کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت
کر نے کی خُو اپنے اندر ڈال دیں اور ہر کسی بحران کو اللہ کی مرضی کہہ کر اپنی کوتاہیاں چھپائیں اورخامیاں نظر انداز کریں۔ اس زاویہ ٔ نگاہ سے جب ہم تازہ انسانی المیے اور جان کا ہ حادثے پر ایک اُچکتی نگاہ ڈالتے ہیں تو خدائی منشا اپنی جگہ ‘ماضی کے مقابلے میں یہ بحران ہمارے رُوبرو کچھ زیادہ ہی تکلیف دہ حقائق اُجاگر کررہاہے ۔ مثال کےطور پر اس بار علی الخصوص عرب وعجم کے عام مسلمانوں کے دل میںیہ بات کھٹک رہی ہے کہ آخرحاجیوں کی افسوس ناک شہادتوں پر سعودی حکمران طبقہ لااُبالی پن یا عدم فعالیت کا شکار کیوں نظر آرہاہے ؟ انہیں اپنی غلطیوں کا کوئی احساس دامن گیر کیوں نہیں ؟ اس بار حکمرانوں نے انسانی جانوں کے دفاع میں انتظامیہ کی مبینہ ناقص کار کردگی کے خلاف کوئی ہنگامی ایکشن پلان ترتیب دینےمیں تغافل ِ عارفانہ سے کیوں کام لیا اور بچاؤ کارروائیوں میں تساہل کیوں برتا؟ ایک ایسے حساس خطے میں جہاں سیکورٹی حکام کی ہمہ وقت چوکس نظر یں ہر کس وناکس کے اندرون وبیرون پر گہرے طور مرکوز رہتی ہیں ِ‘ وہاں آخر شہیدوں کی لاشیں سرراہ بے یار و مددگار چھوڑنے کا مذموم عمل اُن کی عقابی نگاہوں سے اوجھل کیوں رہا؟ پولیس کی ٹکڑیاں اور ایمبولنس گاڑیاں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر آخری سانسیںگن رہے حاجیوں کی مدد کے لئے کیوں آگے نہ آئیں؟ سعودی نظام کو معمولی طور جاننے والا بھی کیا یہ مان لے گا کہ یہاں ایسی لاپروائیاں قابلِ فہم ہیں‘ اس لئے یہ سب کچھ اتفاقی ہوا؟ ان سوالوں کا کبھی کوئی جواب ملنے والا نہی۔ سعودی حکمران طبقہ اس گھمبیر صورت حال کے بارے میں اپنی شان ِ بے نیازی سے بزبان حال دنیا کو یہ بتا چکاہے کہ ہمیں موسمیاتی آفات وآلام سے ہونے والی دل دہلانےو الی یہ شہادتیں ایسے ہی نظر انداز کر نے کا صوابدیدی اختیار حاصل ہے جیسے ۷ ؍اکتوبر ۲۰۲۳ تاایں دم غزہ کی قیامت خیز ہلاکتوں کو رَتی بھر اہمیت نہ دینے کی رسم پوری کرکے ہم بالترتیب امریکہ اور اسرائیل سے اپنی علانیہ اور خفیہ دوستی کا حق ادا کرنے کے پابند ہیں ۔ فرض کریں کہ منیٰ وعرفات میں پیش آئی شہادتوں سے بھلے ہی حکمرانوں کا دل اندر ہی اندر پسیج گیا ہو مگر ان کی خاموشی اور عدم فعالیت سے یہی مطلب نچوڑا جاسکتا ہے کہ انہیں انسانی جانوں کی قدر وقیمت کا احساس ہی نہیں۔ اس المیے سے یہ اشارے مل رہے ہیں کہ ’’خادم ا لحرمین الشریفین ‘‘ کہلانے والا شاہ سلمان اب اپنے عہدہ ٔ جلیلہ کی ذمہ داریاں نبھانے سے مکمل طورمفلوج ہوچکے ہیں ۔ عین ممکن ہے کہ انتظامیہ پراُ ن کی گرفت اُسی طرح ڈھیلی پڑ چکی ہے جیسے آخری تُرک خلیفہ عبدالحمید پاشا ایوان ِحکومت کے لئے محض ایک میوزئم آیٹم بن کر رہ گئے تھے۔ بنابریں یہ بات بلا خوف ِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ شاہ سلمان شیخِ فانی ہونے کے ناطے اب حرمین کے تئیں اپنے خادمانہ فرائض سے عملاً لاتعلق ہوچکے ہیں ‘ مگر سوال یہ ہے کہ اُن کے جا نشین ولی ٔ عہد بن سلمان جو رویہ ۲۰۳۰ کے خالق ہونے کی حیثیت سے عملی طور کاروبارِ سلطنت چلارہے ہیں اور حکومتی معاملات میں اُن کی ہمہ گیر فعالیت ایک مسلمہ حقیقت ہے ‘ وہ منیٰ وعرفات کے المیے کے وقت انتظامیہ کی بے عملی سے کیوں کنی کتراتے رہے ۔ یہ ایک معمہ ہے سمجھنےا ور سمجھانے کا۔ بہر صورت ان دونوں صاحبانِ بااختیار کو یہ بات گرہ میں باندھ لینی چاہیے کہ ’’خادم الحرمین الشریفین‘‘ کا فخریہ لقب پانا اُن کے لئےخاندانی ورثہ ہی نہیں بلکہ دنیا و آخرت کے لئے لامحدود اجر وثواب والا منصب و اعزاز کا پٹہ ہے ‘ البتہ یہ اعزاز اپنے ساتھ بھاری بھرکم ذمہ داریاں نبھانے سے مشروط ہے ۔ ہماری دعا ہے کہ یہ خانوادہ اور اس کی اگلی آنے والی پیڑھیاں اس اعزازکے ایسے ہی اہل ثابت ہوں جیسے اس خاندان کے مورث اعلیٰ عبدالعزیز بن سعود اور شاہ فیصل شہید اپنے اپنے وقت پر ثابت ہوتے رہے۔
حقیقت کی نظروں سے دیکھئے تو صاف محسوس ہوگا کہ منیٰ اور عرفات میںحاجیوں کو موسمی شدائد و مصائب کا سامنا موت کی صورت میں کرناپڑا ‘ یہ قدرت کا بپا کردہ قہر ہے ‘ اس میں انسانی کاوشوں کا برہ راست عمل دخل نہیں مگر حق بات یہ بھی ہے کہ انسان کے پاس ہر کسی قسم کی قدرتی کرائسس کا سامنا کر نے کے لئے ایک کرائسس منیجمنٹ اسکیم اور ڈمیج کنٹرول کا لگا بندھا منصوبہ ہونا چاہیے۔ سعودی حکمرانوں کے پاس غالباً یہ دونوں چیزیں سرے سے ہی نہ تھیں‘ ورنہ بہت سارے حجاج کرام کی جانیں بچائی جاسکتی تھیں۔ بلا شبہ اس المیے کے چلتے اُن کی نیندیں حرام ہونی چاہیے تھیں‘ ان کے دن کاچین کھو جانا چاہیے تھا‘ رات کا آرام چھن جانا چاہیے تھا مگر ابھی تک رسمی طور ایساکوئی ایسا پیغام یا تاثر متاثرہ مسلمانان عالم کو نہ ملا کہ سعودیہ میں حکومتی سطح پراس مرتبہ حج پلاننگ کے بارے میں اپنی کو تاہیوں اور کمزوریوں کا کھلا اعتراف پایاجاتاہے۔ ایسا کرنے کے لئے اخلاقی جرأت کا ہمالیہ پہاڑ اپنے دل میں بسانے کی حاجت ہوتی ہے۔اس کے جملہ حقوق آج کی تاریخ میں صرف یورپی ممالک کے سربراہان ِحکومت کے لئے محفوظ ہیں ۔ فی ا لحال سعودی حکمرانوں کی موٹی کھال میں اس نوع کے احساسِ زیاں کی پتلی سوئی چبھنے میں صدیاں درکار ہوں گی ۔واقف کاروں کے مطابق سعودی حکمران ٹولے میں سینکڑوں حاجیوں کی شہادت سے نہ اس کے محلاتی طرب و تفریح میں کوئی کمی واقع ہوئی اور نہ اُن کے ماتھوں پر رنج و غم کی ادنیٰ سی شکن بھی کہیں دکھائی پڑی ۔ اس لئے اگر ناقدین یہ کہیں کہ بے شمار حاجیوں کی شہادتوں سے ان کا سرے سے جیسے کوئی لینا دینا ہی نہیں ‘وہ خواب ِ خرگوش کی نیند میں مزے سے خراٹے لئے جا رہے ہیں تو شاید مبالغہ نہ ہوگا ۔
اُف! سوشل میڈیا کی رپورٹیں لگاتار دکھائے جارہی ہیںکہ شدید گرمی کی تاب نہ لانے والے شہید حاجیوں کی بےگور وکفن میتیں اب بھی کہیں کہیں کھلے آسمان کے نیچے سڑکوں اورشاہراؤں پر آخری آرام گاہ کی جانب کوچ کر نے کی منتظر ہیں‘ کوئی میت اپنے وطن کی راہ تک رہی ہے ‘ کوئی لاش اپنے پیاروں کے کندھوں کے لئے چشم براہ ہے۔ سرراہ پڑے یہ بے حس وحرکت انسانی جسم خموشی سے اس بات کی داستان سرائی کر رہے ہیں کہ ان کے ساتھ سعودی حج حکام کا رویہ افسوس ناک حد تک غیر اسلامی اور غیر انسانی رہا ۔چشم ِ فلک دیکھتی رہی کہ اِ دھر حجاز مقدس میں آسمان سےگلوبل وارمنگ کا جان لیوا قہر شدید لُو کی صورت میں برس کر درجہ ٔ حرات کو باون ڈگری پار کرا گیا ‘ اُدھرگرمی کی شدید لہر سے بری طرح جھوج رہے حاجی صاحبان نتائج وعواقب سے بے پرواہ عبادتِ خداوندی میں مست ومحو رہے ‘ وہ مناسک ِحج کی تکمیل میں پسینہ پسینہ ہوکر بلکہ موت کے منہ میں جاتے ہوئے بھی مشغول نظر آتےرہے۔ یہ باعث ِ رشک ادائے دلفریب اُن کے لئے انعا ماتِ خداوندی بٹورنے کا اِ ذن عام تھا جس پرا نہوں نے جاں بلب ہوتے ہوئے بھی مل کر لبیک کی آوازیں لگائیں۔ اس اعزاز کو وہ اپنی جان کی قیمت پر بھی نہیں کھونا چاہتے تھے ۔ بعض حاجی صاحبان عبادتِ الہیہ کاحق ادا کرنے کے لئے عرفات ومنیٰ کے لق ودَق صحرا میں گرمی سے جھلستے پہاڑوں کے درمیان کہیںسائے کی تلاش میں بھی دیکھے گئے ‘ کہیں وہ پیاس بجھانے اور اپنے خشک ہونٹوں کو تر کر نے کے لئے پانی کی بوند بوندکے لئے گھنٹوں تڑپتے پائے گئے‘ پانی ندارد تھا تو اللہ نے ان برگزیدہ مہمانوں کی پیاس موت کا پیالہ پلا کر بجھادی اور انہیں اپنی قربت و رفاقت میں کے سائے میںپناہ دے دی ۔ لہٰذا موسم ِحج کے ضمن میںناقص انتظامات یا بدنظمی نے حجاج کرام کو موت کی آغوش میں دھکیل تودیا مگر یہ چیز شہید حاجیوں کے لئے کوئی گھاٹے کا سودا نہیں بلکہ ایک ایسا سرمایہ پُر افتخار ہے جس کے بل پر وہ تا قیامت احرام میں ملبوس ہو کرمکین ِجنت کے طور اس کی دائمی نعمتوں کے وارث بن گئے۔
عینی گواہوں کے مطابق اپنے عزیزوں سے دائمی جدائی کے غم سے نڈھال وافسردہ خاطر حاجی صاحبان کسی انتظامی افسر سے دلاسے اور ہمدردی کے دوبول سننے کو ترستے رہے مگر سعودی انتظامیہ کا کوئی چھوٹا بڑا کل پُرزہ اُن کا غم ہلکا کر نے دوقدم بھی آگے نہ بڑھا ۔ موت کے بڑھتے ہوئے سلسلے کو دیکھنے کے باوجود سعودی وزارتِ حج واوقاف ہنگامی حالات میں بھی خاموش تماشائی بنا رہا۔۔۔ نہ فوری طوراپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے میں دلچسپی ‘ نہ اسلامی اُخوت کی جاندار روایات کا پاس ولحاظ ‘ نہ عالمی سطح پر بشری حقوق کی تنظیموں کی تنقیدوں سے کوئی سروکار‘ نہ ہوش کے ناخن لے کر متاثرہ حجاج کی شکایتوں کا ازالہ کرنے کی فرصت ۔ ایسے میں ’’ضیوف الرحمٰن‘‘(حاجیوں کو حدیث مبارک کے الفاظ میںاللہ الرحمٰن کا مہمان کہاگیاہے) ہاہاکارکرتے رہے مگراُن کی آوازیں صدا بصحرا ثابت ہوئیں ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اگرسوشل میڈیا کی رپورٹوں پر یقین کیا جائے توسعودی وزارتِ حج وااوقاف کے خلاف حاجیوںنے ایام ِحج کے دوران منیٰ‘ عرفات اور مزدلفہ میں ِ بدسلوکیوں کی ہزارہا شکایتیں کیں مگر کیا مجال کوئی اصلاح احوال کے لئے سامنےآئے۔ یہ تحقیق طلب شکایتیں اس وقت سوشل میڈیا میں شد ومد سے چرچے میں ہیں ‘ ملکوں ملکوں قوموں قوموں گشت کررہی ہیں ‘ وسیع پیمانے پر اس بات کی تشہیر ہورہی ہے کہ ا س بار حاجیوں کے تئیں متعلقہ حکام کا غیر ہمد ردانہ طرزعمل اوربے دردانہ رویہ گرمی کی شدت سے ہزارہا گنا زیادہ ناقابل برداشت تھا۔اس ساری رنجیدہ صورت حال کا تقاضا ہے کہ اول منیٰ ‘ عرفات اور مزدلفہ کے جان لیوا حالات و واقعات کی چھان بین سعودی حکام کے ساتھ مل کر مسلم ممالک کی چیدہ چیدہ غیر جانب داراور مستند دینی شخصیات کی ٹیم سے کرائی جائے تاکہ اس المیے کے لئے ذمہ دار عناصر کی نشاندہی کرکے اُنہیں انسانی جانوں کے ساتھ کھلواڑ کر نے کی پاداش میں قرار واقعی سزا دی جائے۔ دوم آئندہ موسم ِ حج کے دوران ایسے ناقابلِ تلافی نقصان دہ حالات کا اعادہ نہ ہو‘ اُس کے لئے عالمی سطح کے چوٹی کے مسلم ماہرین ومدبرین کی تجاویز اور آرا سے ایک مفید اورکارآمد حکمت عملی وضع کی جائے تاکہ حج جیسی فرض عبادت کا پورا پورا حق بھی ادا ہو ‘ نیز انسانی جانوں کا احترام بھی ملحوظ نظر رہے ۔