تحریر:ندیم خان
میرے ٹوٹے حوصلے کے پر نکلتے دیکھ کر
اس نے دیواروں کو اپنی اور اونچا کر دیا
امریکا کے عالمی شہرت یافتہ تاجر بل گیٹس کہتے ہیں کہ کامیابی کا جشن منانا اچھی بات ہے مگر ناکامی سے سیکھے ہوئے سبق کو یاد رکھنا زیادہ اہم ہے۔ ہر انسان جو کچھ بھی کرتا ہے اُس کا بنیادی مقصد کامیابی یقینی بنانا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی انسان کسی بڑی کامیابی کے لیے براہِ راست کوشش کرتا ہے تو ٹھوکر کھاتا ہے۔ بہت سی چھوٹی چھوٹی کامیابیوں کو یقینی بنانے کی صورت میں اعتماد کا گراف بلند ہوتا جاتا ہے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب انسان بڑی کامیابی کی طرف جاتا ہے اور کامیاب لوٹتا ہے۔ کہتے ہیں انسان اس وقت حقیقی معنوں میں ہار جاتا ہے جب وہ ہار تسلیم کرلیتا ہے۔ اچھے سے اچھا با ہمت شخص بھی جب سوچتا کہ اب وہ ہار چکا ہے تو اس سے پہلے شاید وہ ہار کر بھی نہیں ہارا ہوتا وہ اس وقت ہار جاتا ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیں تو ہماری زندگی میں ایسے کئی تجربات شامل ہوں گے۔ تھوڑی سی ہمت کرلیتے تو شاید ہمارے حالات کا نقشہ بدل جاتا مگر ایسا نہیں ہوا اور کیوں نہیں ہوا یہ بات بھی واضح ہوتی ہے۔ مشکل حالات انسان کی زندگی کا حصہ رہے ہیں۔ بڑے کارنامے سر انجام دینے والے افراد بھی وقتی طور پر مسائل کا شکار رہے ہیں، تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ ہم ہمت ہار بیٹھیں۔ محنت اور لگن سے مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہنا چاہیے۔ یہ ایک بہترین حل ہے، ہمت کے سامنے ہار ماننے سے بچنے کا۔ محنت اور جدوجہد مسلسل بالآخر کامیابی و کامرانی سے سرشار کر دیتی ہے اور راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو ختم کردیتی ہے۔ اگر کامیاب شخصیات کو دیکھیں تو ہمیں وہاں سے بھی یہیں پیغام ملتا ہے کہ انسان کی منزل میں مسائل، پریشانیاں اور مشکلات رکاوٹ نہیں بلکہ کامیابی و کامرانی کی پہلی سیڑھی ہوتی ہیں۔ ایک پل کو اگر ٹھہر کر ہم دیکھیں تو آج کے نوجوان کو ہر طرف مشکلات کا سامنا ہے۔ وہ چاہے کسی مدرسے، اسکول، کالج اور یونیورسٹی کا طالب علم ہو یا پھر کسی آفس، فرم اور دکان پر کام کرنے والا نوجوان ہو۔ سب ہی یا تو ہمت ہار بیٹھے ہیں یا پھر وہ محنت کرنے سے کتراتے ہیں اور اس سب کا عذر وہ اپنے حالات پر ڈال کر اپنی بربادی کا تماشا دیکھتے ہیں۔
کچھ حالات کے دھارے کے ساتھ بہت پیچھے رہ جاتے ہیں اور کچھ خود ہی ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور پھر کسی کام میں جت کر اپنے مستقبل کا رخ ہی بدل ڈالتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا؟ اس کی دو ہی وجوہات ہیں۔ ایک تو وہ طلبہ اپنے مستقبل کا کبھی جائزہ ہی نہیں لیتے کہ انہیں کرنا کیا ہے۔ یہ بات بھی ہماری ہمت توڑنے کے لیے بہت ہے کہ ہمیں معلوم ہی نہیں ہمیں کرنا کیا ہے۔ پھر دوسری بات ہوتی ہے کہ وہ حالات کے ساتھ ساتھ مقابلہ کرنے کے حالات کے دھارے میں بہہ جاتے ہیں۔ یاد رکھیں یہی وہ قیمتی دور ہوتا ہے کہ جب ہمیں فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ اپنی منزل کا چناؤ کریں اور پھر اس میں لک جائیں کیونکہ زندگی میں ٹہراؤ نہیں بلکہ ہر وقت خوب سے خوب تر اور بہتر سے بہتر کوشش میں لگا رہنا چاہیے اور اس کے لیے قوت ارادی کا مضبوط ہونا بھی ضروری ہے، وہ کہتے ہیں ناں کہ
“نہ گھبرا حصول کامیابی میں منزل کی دوری سے
کہ ان راہ گل میں پھولوں سے پہلے خار آتے ہیں”
اپنے اندر قوت ارادی پیدا کریں۔ جو کرنا ہے وہ کر کے رہنا ہے۔ چاہیے مشکلات آئیں یا پھر حالات اچھے برے ہوں، کچھ بھی ڈٹے رہنا ہے۔ ہمت نہیں ہارنی۔ یہ نہ سوچیں کہ آپ اپنی مشکلات کو ایک ہی دفعہ میں عبور کرلیں گے لیکن ہاں، آپ کی ہمت انہیں یقیناً آہستہ آہستہ ختم کردے گی، آپ اپنی مشکلات سے ایک دن میں چھٹکارا حاصل نہیں کرپائیں گے مگر رفتہ رفتہ آپ پہلے سے بہتر اور بہتر ہوجائیں گے۔ دنیا میں کامیابی و کامرانی اور وہ بھی اپنے اپنے منتخب کردہ شعبے میں حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کی ضرورت ہے۔ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے کیونکہ فارغ اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے سے کوئی منزل نہیں ملتی۔ زندگی کی ٹرین کو پٹری پر لانے کے لیے انسان کوشش کرتا ہے، کہ میری زندگی آسان ہو جائے، اس کوشش میں وہ کبھی جیت بھی جاتا ہے اور کبھی ہار بھی جاتا ہے۔ اگر آپ جیت گئے ہیں تو رب کا شکر ادا کریں اور اگر آپ ہار گئے تو اپنی ہار سے سیکھیں۔ ہمت نہ ہاریں کبھی یہ نہ سوچیں کہ میں پوری زندگی ناکام رہوں گا۔ میں اب ایک ناکارہ انسان ہوں بلکہ دوبارہ میدان میں کامیابی کی امید لےکر اُتریں اور اپنی پہلی ہار میں جن وجوہات کی بنا پر غلطیاں ہوئیں ان کی اصلاح کریں۔ اچھا سوچیں گے تو اپنے مسائل کو بہتر طریقے سے حل کر سکتے ہیں۔
معروف مصنف ’’نیو لین ہل لین‘‘ نے دعوٰی کیا تھا کہ جتنا خزانہ انسانی ذہن کے تخیلات اور تصورات کے ذریعے نکالا گیا ہے اتنا زمین میں موجود سونے کی کانوں سے بھی نہیں حاصل کیا گیا۔ ایسی لاکھوں مثالیں ہیں کہ وہ لوگ جو شروع میں ناکام ہوئے انہیں دوبارہ کیسے منزل ملی، کس قدر کامیابی ملی۔ واٹس ایپ کے موجدین “جین کوم” اور “برائن ایکٹن” نے بے شمار انٹرویوز دیئے، لیکن حصول ملازمت میں ناکام رہے۔ فیس بک میں ملازمت کے لیے درخواست بھیجی اُسے بھی قبول نہیں کیا گیا۔ انہوں نے حوصلہ اور ہمت نہیں ہاری۔ اور ملازمت کا اراد ہ ترک کر کے اپنی محنت اور کاوشوں سے “واٹس ایپ” ایجاد کیا جو آج ساری دنیا کے ہر فرد کے لیے کار آمد ہے۔ کامیابی کے لیے ذہنی اور فکری صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ غیر متزلزل یقین، مصمم ارادے اور آگے بڑھنے کی صلاحیت ضروری ہوتی ہے۔ کسی بھی چیز کو کرنے اور سیکھنے کے لیے وقت دیں، اپنی ساری توجہ سے بذات خود باریک بینی سے جائزہ لیں ،زندگی میں جب بھی کامیابی ملے، اسے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ روزمرہ زندگی کا ایک حصہ سمجھ کر قبول کیجئے۔ ناکامی کی صورت میں اپنی ذات یا کسی اور کو الزام دینے سے بہتر ہے کہ اسے دل سے قبول کر لیں اپنی غلطیاں تسلیم کرنا سیکھیں، محض انا کی وجہ سے اپنی غلطیوں سے نظر پوشی کرنا آپ کو ، منزل مقصود سے دور کر دے گا۔ آپ کبھی کامیابی حاصل نہیں کر سکیں، غور کریں کہ اس میں آپ کا حصہ کتنا ہے اور بیرونی عناصر نے کیا کردار ادا کیا ،پھر سبق حاصل کرکے آگے بڑھ جائیں اپنے قدم نہ روکیں۔ تسلسل کے ساتھ محنت کرنا بھی ضروری ہےـ جو نوجوان کسی کام کو تسلسل سے کرتے رہتے ہیں وہ اپنی ناؤ کو ایک دن ضرور ساحل تک پہنچا کر رہتے ہیں۔ مقصد پانے کے لیے اپنے سے بہتر اور کامیاب لوگوں کی زندگی کا مطالعہ کریں کہ وہ لوگ کہاں کہاں بہتر ثابت ہوئے۔ یاد رکھیے لوہے کی اصل پہچان آگ کی بھٹی سے نکلنے کے بعد ہی ہوتی ہے۔ خود پر اتنا اعتماد ہونا چاہیے کہ پوری دنیا مخالفت کرے، تب بھی آپ اپنے صحیح مؤقف پر دل جمی سے ڈٹے رہیں۔ یہ بھی ذہن نشین کر لیں کہ بغیر محنت کے ایک دم سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، اُس کے لیے محنت اور جدو جہد کرنی پڑتی ہے۔ ﷲ کی رضا میں راضی رہیں۔ چیونٹی اپنے عزم و حوصلے کے بل بوتے پر بڑے سے بڑا معرکہ سر کرلیتی ہے اور اس کی ننھی منی جسامت منزل تک پہنچنے کے احساس کو کسی بھی طرح کمزور نہیں کرتی، جب ایک چیونٹی کا یہ حال ہے تو نوجوان نسل کا عزم و حوصلہ کتنا بلند ہونا چاہیے؟ ناکامی کو کامیابی میں تبدیل کرنا دقت طلب ضرور ہے‘ ناممکن تو کسی بھی درجے میں نہیں۔ سوال صرف ہمت نہ ہارنے کا ہے۔ جس نے اپنے خیالات کو قنوطیت کی چادر اُڑھا دی‘ وہ پیچھے رہ گیا۔ ہر ناکامی اپنے ساتھ چند ایک امکانات بھی لے کر آتی ہے۔ پریشان کن صورتِ حال کو اپنے حق میں بروئے کار لانے کا ہنر سیکھنا پڑتا ہے۔ جس نے یہ ہنر سیکھ لیا اُس کا بیڑا پار ہوا۔ کسی بھی ناکامی سے بددل ہوکر ایک طرف بیٹھ رہنا کسی بھی حال میں مستحسن آپشن نہیں۔ تھوڑی دیر کے لیے رک کر اپنا جائزہ لینا شرط ہے مگر اِس کے بعد نئی سوچ اور نئی حکمتِ عملی کے ساتھ میدان میں آنا ہی پڑے گا۔ ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کا اور کوئی راستہ نہیں‘ اور شارٹ کٹ تو بالکل ہی نہیں۔ اگر سوار بلند حوصلہ ہو تو گھوڑا دوڑانے کے لیے دوسرے بہت سے میدان چاروں طرف موجود ہوتے ہیں۔ نوجوانوں میں موجود عزم و حوصلہ چٹانوں سے ٹکرانے اور طوفانوں کا رُخ موڑ دیتا ہے۔ دنیا میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے کہ جسے مشکلا ت کا سامنا نہ ہو، مشکل کی کوئی بھی صورت ہوسکتی ہے۔ جیت ان ہی کا مقدر ہوتی ہے، جنہیں اپنے جیتنے کا یقین ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مہینوں اور برسوں کے محنت کے بعد بھی آپ منزل تک نہ پہنچ سکیں لیکن نا امیدی کو پاس سے نہ بھٹکنے دیں۔ ایک بار پیچھے مڑ کر دیکھیں کہ آپ اپنی ابتدا سے کتنے دور نکل آئے ہیں اور پھر نئے حوصلے اور قوت ارادی کے ساتھ کام شروع کردیں۔ آپ کی منزل مقصود یقیناً آپ کو روز بروز اپنے قریب کھینچے گی اور پھر جلد ہی آپ 10,9,8 اور یوں ایک دن 0 پر اپنی مشکلات کو لے کر آجائیں گے۔
واقف کہاں زمانہ ہماری اڑان سے
وہ اور تھے جو ہار گئے آسمان سے