عزت مآب وزیرا عظم مودی جی
آداب وتسلیمات!
مودی جی! آپ کو تیسری باروزارت عظمیٰ کا منصبِ عالیہ سنبھالنے پر میری دلی مبارک اور نیک خواہشات قبول ہوں۔ میری دعا ہے کہ آپ کی رہنمائی میں ملک وقوم رنگ ، نسل ، زبان ، دھرم اور علاقائیت کی کسی تفریق و تمیز سے بالاتر ہوکر امن‘ اُخوت ‘ترقی‘ خوش حالی اور نیک نامی اور قومی یکجہتی کی ہمالیائی بلندیوں کو چھونے کے قابل ہو جائے اور بھارت ورش کا ہر شہری سر بلند ہوکر ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ کی عملی تفسیر بن کر جیئے۔
عالی جناب! معلو م نہیں کہ کھلے خط کی صورت میں میرے من کی بات آپ کے گوش ِسماعت تک رسائی پائے گی یانہیں‘ مگر میں فخر وانبساط کے ملے جلے جذبات کے ساتھ آپ ایسی چوٹی کی سیاسی شخصیت سے مراسلت ومکاتبت کی سعادت پاکر آپ کے حضور کچھ عرض ومعروض کرنے کی جسارت کرتاہوں ۔ کشمیرکے ایک عام شہری کی حیثیت سے میں اپنا مافی الضمیرآپ تک پہنچانا اور چندگزارشات آپ کے گوش گزار کرنا اپنا اخلاقی فریضہ اور جمہوری حق سمجھتاہوں۔ یہ کھلامکتوب اسی اخلاقی فریضے اور جمہوری ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کی ایک ادنیٰ کوشش ہے ۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ راقم اپنے ذاتی مشاہدات اور دلی جذبات کو لفظوں کے پیرہن میں پیش کر رہاہے نہ کہ آپ جیسی بلند قامت سیاسی ہستی سے گیان بانٹ رہا ہے ۔ میرے اس نامہ ٔ دل کا کسی سیاسی یا غیر سیاسی ایجنڈے سے کوئی دور دور کابھی تعلق نہیں۔ اس خط کے لفظ لفظ میں ایک حساس دل عام کشمیری کےضمیرکی آواز پنہاں ہے اورا س کے زیروبم میں بین السطور ملک وقوم کے بارے میں مثبت سوچ اور گہری چنتائیںجھلکتی ہیں ۔ دل اور دلی کی دوری کو پاٹنےکے لئے کچھ تجاویز دینےسے یہ بتانا مقصودہے کہ ہر ایک باشعور کشمیری چونتیس سال کادردو کرب اور نامساعد حالات کی چوٹیں سہنے کے بعدا س وقت کن صحت مند خطوط پر سوچتا ہے‘ ِ مسائل حیات کے گرداب میں وہ کس عنوان سے آپ کی قائدانہ صلاحیتوں سے مستفید ہونا چاہتا ہے ، معاملاتِ دہر کے بھنور سے گلو خلاصی پانےکے لئے وہ آپ سے کن امن پرورانہ تدابیر کی توقع رکھتا ہے ۔ راقم السطور ایک سادھارن کشمیری کے ناطے اسی اجتماعی سوچ کی حیات آفرین دھڑکنوںکوسنانے کے لئے آپ کے جناب میں یہ خط شائع کر رہاہے ۔
فرمانروائے جمہوریۂ ہند ! دنیا بخوبی جانتی ہے کہ این ڈی اے اور انڈیا بلاک کے درمیان حالیہ انتخابی معرکہ آرائیاں عروج پر رہیں۔ سیاسی پنڈت ان دو متحاربسیاسی قوتوں کی ہار جیت پر طرح طرح کی پیش گوئیا ں کرتےرہے ‘ لیکن اس عموم سے ہٹ کر وادی ٔ کشمیر میں شروع دن سے رائےعامہ کا آئینہ صاف صاف دکھا رہا تھا کہ یہاں کےلوگ سیاسی فہم وتدبر میں جید تجزیہ کاروں اور تبصرہ نگاروں سے زیادہ نبض شناس واقع ہوئےہیں۔ وہ سمجھتےرہے کہ بھلے ہی ’’ اب کی بارچار سو پار ‘‘ کا الیکشن سلوگن خاطر خواہ نتیجہ
بر آمد نہ بھی کریں مگر نیشنل ڈیموکریٹک الائنس میدان مار ے گا ہی مارے گا کیونکہ اس کی پشت پرمودی برینڈ کی مہر ثبت ہے ۔۴؍جون نے دکھایا کہ کشمیریوں کی جچی تلی رائے مبنی بر حقیقت تھی۔ آپ اسے کشمیری عوام کی سیاسی بلوغیت کامظاہرہ سمجھیں یا اسےآپ کی شخصی جاذبیت اور سحر انگیزی سے کشمیری عوام کی عقیدت جانئے‘ یہاں کے لوگ ملک کے عہدہ ٔ جلیلہ پر آپ کی مراجعت کا نوشتہ ٔ دیوار پہلے سے ہی پڑھ رہے تھے۔ انہیں یقین ِکامل تھا کہ کچھ بھی ہو آئے گا تو مودی ہی ۔ انتخابی نتائج نے کشمیریوں کی سیاسی بصیرت اور پیش بینی کی پذیرائی کی ۔ بہر کیف آپ جناب نے بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی مانند لگاتارتیسری باروزارت عظمیٰ کا منصب سنبھال کر ملکی تاریخ کے سفر ایک کو نئی سمت دی ہوئی ہے۔یہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ آپ بدستور قوم کی مرضی اور لوگوں کا انتخاب ہیں ۔ اس میں بھی دورائے نہیں کہ نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کی جیت سے پھر ایک بار واضح ہوا کہ جموں کشمیر سےکنیا کماری تک ملک کی کثیر آبادی کا آپ کی قائدانہ صلاحیت پر پورا بھروسہ قائم ہے ۔آپ کے چاہنے والے ووٹر اس بات پر غیر متزلزل اعتماد رکھتے ہیں کہ مودی جی ہی قوم کے لئے درد کا درماں ہیں ۔ اب عوام کے اس اعتماد اور بھروسے کا پورا پورا مان رکھنا آپ کی پہلی اور آخری ترجیح ہونااز بس ناگزیر ہے۔
پر دھان منتری جی !آج کی تاریخ میں بھارت کی بھاری اکثریت نےآپ کے سیاسی اتحاد کو دوبارہ حکمرانی کابیش قیمت منڈیٹ سونپا ہے ۔ عوامی منڈیٹ سےآپ کی سیاسی شخصیت کو واقعی سر خاب کے پر لگ گئے ۔ یہ چیز آپ کے لئے باعث اِ طمینان ہونی چاہیے کہ لوگ باگ آپ سے بوجوہ حُسن ِ عقیدت رکھتے ہیں ۔ ظاہر ہے اپنا منڈیٹ دے کر عام لوگ نہ صرف آپ کی سیاسی صلاحیتوں کالوہامان رہے ہیں بلکہ یہ عوامی اعتماداس امر کا کھلا اعتراف سمجھا جاناچا ہیے کہ قوم کی نظر میں یہ صرف مودی جی کی ذات ہے جو ملک کی تقدیر سنوار سکتی ہے‘جو بناکسی جانب داری ‘ تقسیم کاری یامن وتُو کی دراڑ کے بھارت وََرش کو ایک ایسی کامیاب حکومت دے سکتی ہے جس کے رَگ وپے میں صرف لوگوں کی ہمہ جہت خدمت‘ ہر پل خدمت اور ہر جا خدمت کا خون دوڑ رہاہو‘ جو بھارت کو اپنی اَنتھک محنتوں سے مہان دیش اوروِشو گرو بنانے کی اہل ثابت ہو ۔۔۔جو ہر ترقیاتی پروجیکٹ اور ہر غریب پرور منصوبے کو کامیابی سے ہمکنار
کر نے میں تن من دھن سے کا م کرسکے گی ‘ جو احساسِ ذمہ داری کے رَتھ پر سوار ہوکر حُسن کارکردگی کی منزل طے کرے گی ‘ جولوگوں کے بنیادی حقوق ِکی محافظت کسی بھید بھاؤ کےبغیر کرنے میںکامیاب رہےگی ‘ جو تما م شہریوں کے واسطے آئین کی تمام اَٹل ضمانتیں یقینی بنا سکے گی‘ جو انتظامی مشنری پرہمہ پہلو احتساب کا چابک اور ہمہ وقت جوابدہی کا پہرہ بٹھا سکے گی‘ جو قانون کی حکمرانی اور مساویانہ مواقع کی فراہمی کے آئینی اصولوں کی پاسداری میں انصاف پسندی کا مظہر ثابت ہو گی ۔ مختصراً یوں سمجھئے کہ بھاری منڈیٹ کا لیکھا جوکھا یہ لگتا ہے کہ مودی حکومت عوامی زبان میں اچھے دن لائے گی‘ آئین کی زبان میں جمہوریت کی علمبرداری میں اپنی قوتیں کھپا دے گی ‘ دھارمک زبان میں رام راجیہ کے زریں ومنصفانہ اصولوں پر مبنی نظم ونسق استوار کرنے کی اہلیت سے مالا مال ثابت ہوگی ۔ بات جو بھی ہو بہر صورت تیسری بار عوامی تائید وحمایت آپ محترم سے قول سے زیادہ عمل کی متقاضی رہے گی ۔ شاید آپ کو یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ یہ منڈیٹ خود آپ کے مقبول سیاسی نعرےیا آپ کی جاذب ِ نظر سیاسی فلاسفی ۔۔۔ سب کا ساتھ‘ سب کا وِکاس‘ سب کا پریاس‘ سب کا وشواس۔۔۔ کی صدائے باز گشت ہے ۔اس نعرے کو اپنے رُوح اور اسپرٹ کے ساتھ من وعن نافذ کرنا آپ کے لئے اب تقاضائے سیاست بھی ہے اور مطالبۂ قیادت بھی ہے۔
قوم نے اپنےمندرجہ بالا خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کر نے کے لئے آپ کو پھر سے چنا ہے تاکہ آپ ایک جواں عزم اور فولادی ارادے کے ساتھ ان کے مفاد میں صحت مند سیاسی ‘ سماجی ‘ معاشی‘ ثقافتی ‘ آئینی اصول وآداب کی بالادستی والی حکومت کی سبراہی کرسکیں ۔ انہی اہداف واغراض کے لئے آپ کے سر پر پھر ایک بار اقتدار واختیار کا تاج رکھا گیا ۔ عوام کا یہ حُسن ظن آپ کے لئے منفرد اعزاز بھی ہے اور توقیر وتعظیم کا برملااظہار بھی ۔ ہمارا ماننا ہے کہ آپ پر عوام الناس کا غیر معمولی اعتماد آپ کے شانوں پر بھارت رتن جیسے تمغے کی طرح سجا ہی نہیں رہے گا بلکہ یہ معاصر تاریخ میں تفاخر کے ساتھ نیا باب رقم کرتے ہوئے لکھے گا کہ یہ مودی جی ہیں جن کے کندھوں پر ایک سوچالیس کروڑ نفوس کے تئیں بھاری بھر کم ذمہ داریوں کا بوجھ پڑااور انہوں نے اس کا حق ادا کرنے میں اپنی پوری قوت وہمت سے اَنتھک کام کیا ۔ اس لئےآپ این ڈی اے کی جیت کو محض ووٹوںکی گنتی تک محدود نہ کریں بلکہ اسے حقیقت حال کا وسیع الجہت آئینہ دارسمجھیں کہ عام جنتا کو آج بھی آپ سے بڑی بڑی توقعات وابستہ ہیں‘ اُن کی ڈھیر ساری اُمیدیں آپ سے بندھی ہوئی ہیں۔ جن روز مرہ مسئلوں سے وہ گھرے ہوئے ہیں‘ اُن کے حل کے لئے وہ صرف آپ کی جانب دیکھتے ہیں ‘ چاہے یہ مسائل بے روزگاری‘ مہنگائی‘بدنظمی‘ بدعنوانی‘ NEET
وغیرہ کے حوالے سے مسلسل سنسنی خیز پیپر لیک اور NET جیسے اہم مسابقتی امتحان کی منسوخی ‘ متواترریلوے حادثات ‘ صحت عامہ کےہزار ہا ایشوز ‘ تعلیمی اداروں کی کم یابی اور جدید تدریسی سہولیات کی کمی ‘ پینے کے صاف پانی کی بے پناہ قلت ‘ خواتین کے خلاف اتیاچار کے نا گفتہ بہ قصے َ‘ کسان آندولن کا تسلسل‘ ایم ایس پی پر حکومتی گارنٹی سے اغماض‘ ہیٹ اسپیچ کی تکراریں ‘ ماب لنچنگ کےاندوہناک واقعات اور ایسے ہی دیگر سینکڑوں حل طلب مسائل کے انبارہوں‘ عام آدمی ان مسائل سے نجات کی اُمید صرف آپ کی نگاہِ التفات پر موقوف سمجھتا ہے ۔ مجھے یہ یاد دلانے کی شاید ہی ضرورت ہو کہ ان عوامی مسائل کا جنگی پیمانے پر تدارک کیاجانا وقت کی اہم پکار ہے۔ میرے خیال میں ا س مشن کی تکمیل میں اگر آپ کی تیسری ٹرم کے پہلے سودن وقف رہیں تو آپ کی دست ِمسیحائی پر عوام کا یقین مزید گہرا ہوگا کیونکہ انہیں ثقہ یقین ہے کہ مودی جی نہ کھاؤں گا اور نہ کھانے دوں گا کے بھرشتاچار مخالف مشن کے روحِ رواں ہیں۔
پرائم منسٹر صاحب ! ہندوستان ایک بڑا وسیع وعریض ملک ہے۔ یہ خود میں ایک دنیائے بسیط ہے ۔ ملک میں اکثریتی ہندوبھائیوں کے شانہ بشانہ صدیوں سے مسلم ، سکھ ، بدھ ، جین ، عیسائی اور دیگر مذہبی اقلیتیں آباد ہیں ، حتیٰ کہ یہاںمنکرین خدابھی رہ بس رہے ہیں ۔ان کے درمیان صدیوں سے محبت ویگانگت ‘ جذبہ ٔ بقائے باہم اور بھائی چارہ قائم ہے مگر آج کچھ شرپسند عناصر ان مدھر تعلقات میں دُوریوں ، منافرتوں ‘ کدورتوں اور غلط فہمیوں کا زہر گھولنے کا رقص نیم بسمل کر رہے ہیں ۔اس ناہنجار سلسلے کو پہلی فرصت میں روکنا انسانیت اور قومی وحدت کے لئے بے حد ضرروی ہے۔ تما م مذاہب اور جاتیوں کو باہم دِگر حُب الوطنی کی ایک مستحکم مالا میں پرونا‘ انہیںایکتا کا ہمہ رنگ مہکتا چہکتا گلدستہ بنانا یا صحیح تر الفاظ میں اُنہیںگنگا جمنی تہذیب کا دلدادہ بنائے رکھنا حکومتی پالیسیوں کا جزولاینفک ہوتو ملک کو سکھ شانتی اور امن و ترقی کی جنت بننے میں دیر نہیں لگے گی ۔ پھر ہماری طرف نہ کوئی باہر سے اور نہ اندر سے میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت کر سکے گا ۔ اُمید کامل ہے کہ آپ ملک کو مہان بنانے کی خاطر اکثریت اور اقلیت کو ایک دوسرے سے خوف کھانے اور غلط فہمیاں پالنے کی بجائے انہیںاپنائیت اورمحبت کا راستہ پکڑنے کا اِذن عام دیں گے۔ جنا ب والا شان! قومی ایکا کے اس اہم ترین ایجنڈے کو پورا کیا گیا تومورخ فخر کے ساتھ آپ کے نام وہ خوش کن القابات کرے گا جو گاندھی جی کو باپو اور نہرو جی کو چاچا بنا کر گئے۔
ہند کے محافظ! اپنی حلف وفاداری کے فوراً بعد آپ اٹلی میں جی سیون کی چوٹی کانفرنس میں شرکت
کر نے گئےاور وطن واپسی پر ۲۱؍ جون کو یوگا کے عالمی دن کی مناسبت سے وادی ٔکشمیر تشریف آوری کی ۔اس سےعوام کو پیغام ملا کہ اُن کا سربراہِ حکومت بلا تکان ملک وقوم کا وقار بڑھانے کے لئے دیس اور دنیامیں ایک فعال کردار ادا کئے جا رہے ہیں ۔ اہالیانِ جموں کشمیر آپ کی نظر التفات کے بڑی دیر سےمنتظر ہیں ، وہ چاہتے ہیں کہ اس سال ماہِ ستمبر میں دس سال کے وقفے سے انہیں آزادنہ ماحول میں اپنی حکومت منتخب کر نے کا جو زریں موقع دیا جارہاہے ‘ اس سے قبل اگر یونین ٹریٹری کا ریاستی درجہ بحال کیا جائے تو یہ سونے پہ سہاگہ ہوگا اور آپ کی وعدہ وفائی کا کھلااعلان ہوگا اور کشمیریوں کے لئے آنجہانی واجپائی کی کشمیر پالیسی’’ جمہوریت کشمیریت انسانیت‘‘ کی نئی پرچم کشائی کا بلیغ اشارہ ہوگا۔ مزید برآں جموںکشمیر میں بڑھتی ہوئی بےروزگاری کا موثر علاج کرنے ‘ یہاں امن ِعامہ کو مستحکم بنیادوں پر استوار کئے جانے ‘ جے کے پولیس کی کامیاب منشیات مخالف مہم میں اور زور ڈالنے ‘ شر پسندوں اور فسادی عناصرپر قابو پانے کے لئے پولیس کو مزیدعوام دوستانہ حکمت عملی اپنانے سے کشمیر میں امن وآشتی کی بہاریں لوٹ آئیں گی۔
قائد ِ کارواں! راقم الحروف نے اپنے کھلے خط میں صرف آپ کے قومی فرائض اور ملکی ذمہ داریوں کا احاطہ کیا مگر احقر کے نزدیک ملک کے تمام بہی خواہ وں پر بھی یہ فرض ِ عین عائد ہوتا ہے کہ وہ دست بدعا رہیں کہ اپنی تیسری مدت ِ کار کے دورانیے میں آپ وِشال دیش میں تعمیر کی نئی راہیں کھوج نکالنےاور ترقی کی نئی منزلیں پا نے میں کامیاب رہیں۔ ہم سب کی مشترکہ دعا ہو نی چاہیے کہ آپ ملک کےچاروں اطراف میں یگانگت‘ بھائی چارے‘خوش حالی ‘ عدل و مساوات اور سماجی انصاف کا پرچم لہرانے میں کامیاب وکامران رہیں اور ان حوالوں سے آپ کی سیاسی شخصیت کا سورج ہر صبح نئی
آب وتاب کے ساتھ طلوع ہوتی رہے۔
اوپر والا آپ کا حامی وناصر ہو۔
خیر اندیش
ش م احمد۔ سری نگر کشمیر