شہروں کی طرح دیہات میں بھی آوارہ کتوں کا شدید خطرہ پایا جاتا ہے ۔ یہ لوگوں کی بدقسمتی ہے کہ ایسے خطرات کے باوجود انسانی جانوں کے بجائے کتوںسے زیادہ ہمدردی کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ انسانوں کو بچانے کے بجائے کتوں کو تحفظ فراہم کرنے پر زور دیا جاتا ہے ۔ جانوروں کے حقوق کے نام پر آوارہ کتوں کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے ۔ اس دوران انسانی جانوں کے ساتھ کھیلنے کی کھلی چھوٹ دی جارہی ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ایسے جانور جو حیات انسانی کے لئے بڑے اہم ہے آہستہ آہستہ ختم ہورہے ہیں ۔ ان کی نسل نابود ہورہی ہے ۔ اس حوالے سے کوئی ٹھوس کام کرنے کی کسی کو فکر نہیں ۔ لیکن آوارہ کتوں کی آبادی بڑھانے پر زور دیا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ اس کے لئے سیاسی ، سماجی اور غیر سرکاری تنظیمیں بڑی متحرک نظر آتی ہیں ۔ شہر کے لوگوں کو بہت پہلے سے آوارہ کتوں کی پرابلم کا سامنا ہے ۔ اب یہ مسئلہ دیہات تک پہنچ گیا ہے جہاں ٓوارہ کتوں کی وجہ سے سخت خوف وہراس پایا جاتا ہے ۔ کل کی بات ہے کہ بڈگام کے ایک گائوں میں آوارہ کتوں نے کئی بچوں سمیت نصف درجن افراد کو زخمی کیا ۔ اسی طرح کولگام اور ترال کے دیہات میںمبینہ طور آوارہ کتوں نے لوگوں کا چلنا پھرنا مشکل بنادیا ہے ۔ شہر میں جگہ جگہ آوارہ کتوں کے جھنڈ پائے جاتے ہیں جہاں سے چلنا پھرنا اپنی جان پر کھیلنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ لوگوں کو اب بازار سے دودھ اور روٹی لانے کے لئے گاڑی کا استعمال کرنا پڑتا ہے ۔ ایک کلومیٹر دور سے سبزی یا دوائی لانی ہوتو پیدل جانے کے بجائے گاڑی میں جانا بہتر سمجھا جاتا ہے ۔ ایسا صرف اور صرف کتوں کے کاٹنے کے ڈر کی وجہ سے کیا جاتا ہے ۔ کوئی شخص معمولی لاپروائی کرتے ہوئے کسی سڑک سے گزر جائے تو کتے اس پر ضرور حملہ کرتے ہیں ۔ خاص طور سے بچوں کو اس طرح کے شدید خطرے کا ڈر رہتا ہے ۔ آوارہ کتوں کی آبادی دن بدن بڑھ جاتی ہے ۔ میونسپلٹی کے ایک سربراہ نے دعویٰ کیا تھا کہ سرینگر سے چھ مہینوں کے اندر آوارہ کتوں کو نابود کیا جائے گا ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے لئے باضابطہ منصوبہ بنایا گیا ہے اور بہت جلد کتوں کا خوف ختم کیا جائے گا ۔ آج لگتا ہے کہ ایسے منصوبے شیخ چلی کے منصوبوں کی طرح محض ہوئی منصوبے تھے ۔ اس دوران اس کام کو انجام دینے کے نام پر ہزاروں روپے خرچ تو کئے گئے ۔ لیکن نتیجہ وہی صفر ہے ۔ تمام لوگ اس بات پر حیران ہیں کہ آئے روز آوارہ کتوں کے حملوں اور کاٹنے کے واقعات پیش آتے ہیں ۔ لوگ اس وجہ سے سخت پریشان ہیں ۔ اس پریشانی سے لوگوں کو نجات دلانے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی ہے ۔
آوارہ کتوں کا مسئلہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے ۔ بلکہ پچھلی دو تین دہائیوں سے لوگ اس پر تشویش کا اظہار کررہے ہیں ۔ عجیب بات ہے کہ اس مسئلہ پر سرکاری حلقے چپ سادھے ہوئے ہیں ۔ شہر و گام لوگوں کے مسائل سننے کے لئے عوامی دربار منعقد کئے جاتے ہیں ۔ا یسے موقعوں پر زیادہ تر لوگوں کے ذاتی مسائل سامنے آتے ہیں ۔ کسی کی فائل کہیں رکی ہے تو وہ یہ مسئلہ اٹھاتا ہے ۔ کسی پنج یا سرپنج کو ٹھیکہ نہیں ملتا ہے تو وہ اس پر عوامی دربار میں شور کرتا ہے ۔ کسی کو اپنا مسئلہ حل کرانے کے لئے کسی سرکاری دفتر میں رشوت طلب کیا جاتا ہے تو وہ اس مسئلے کو عوامی دربار میں اٹھاتا ہے ۔ یقینی طور ایسے مسائل اٹھانے کا شہریوں کو حق حاصل ہے ۔ لیکن اجتماعی مسائل کے بجائے ذاتی مسئلوں کو ترجیح دینا صحیح طریقہ کار نہیں ۔ ایسے درباروں میں لوگوں کے اجتماعی مسائل پر توجہ مبذول رہنی چاہئے ۔ اب تو سرکار نے سرکاری ملازموں کے خلاف بات کرنے پر پابندی لگادی ہے ۔ اگر کسی سرکاری ملازم کے خلاف شکایت درج نہیں کی جاسکتی ہے تو دربار منعقد کرانے کا کوئی مقصد نہیں رہ جاتا ہے ۔ کشمیر میں تو لوگ سرکاری ملازموں کے ہاتھوں ستائے اور تنگ کئے جاتے ہیں ۔ یہ کوئی راز کی بات نے بلکہ کئی دفتروں میں کھلے عام خواتین کا استحصال کیا جاتا ہے اور سائل کو دھتکارا جاتا ہے ۔ آج بھی رشوت کے بغیر کام کرانا ممکن نہیں ہے ۔ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے لئے جو سہولیات قدرت نے بہم رکھی ہیں آہستہ آہستہ ختم ہورہی ہیں ۔ آبی ذخائر نیست و نابود ہورہے ہیں ۔ گلیشر بڑی تیزی سے پگھل رہے ہیں ۔ بجلی کی پیداوار میں اضافے کے باوجود بجلی کی فراہمی کا مسئلہ طول پکڑ رہاہے ۔ جنگلات کا حجم کم ہورہاہے ۔ اس وجہ سے جنگلی جانور اپنی خوراک تلاش کرنے کے لئے بستیوں کا رخ کررہے ہیں ۔ کئی افرادخاص طور سے کم سن بچوں کو جنگلی جانوروں نے اٹھاکر ان کی چیر پھاڑ کی اور انہیں موت کی نیند سلایا ۔ اسی طرح ریچھ اور تیندوے کا خطرہ جگ جگہ پایا جاتا ہے ۔ اس دوران آوارہ کتوں کی ہڑبونگ جاری ہے ۔ کم سن بچے ان کا بڑے پیمانے پر شکار بن رہے ہیں ۔ آوارہ کتوں کے خلاف مہم سے اجتناب حیران کن بات ہے ۔ انسانی جانوں کے تحفظ کے لئے آوارہ کتوں سے نجات بہت ضروری ہے ۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جو انسانی آبادی کو تہس نہس کررہاہے ۔ اس نے لوگوں کا سکون چھین لیا ہے ۔ اس طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔