تحریر:ڈاکٹر نوید خالد تارڑ
اپنے بچوں کو صرف کتابوں کے رٹے نہ لگوائیں، انھیں ایک مکمل انسان بنائیں۔ ان کی جسمانی نشوونما، ذہنی نشوونما، معاشرتی نشوونما۔ سماج میں رہنے کے رنگ ڈھنگ، اخلاقیات کا مطلب، ان کی حدود، بڑوں چھوٹوں کا مقام، والدین کے حقوق، بچوں کے اپنے حقوق۔ رشتوں کو، رشتے داروں کو ان کے مقام پہ رکھنے کا آہنگ۔ انھیں یہ سب کون سکھائے گا؟
آپ کے بچے آپ کی ذمہ داری ہیں، آپ نے انھیں قابل انسان بنانا ہے۔ دو جمع دو چار کا رٹا لگانے سے ان کی کوئی ذہنی نشوونما نہیں ہو گی۔ ای از ایکویل ٹو ایم سی سکوئر یاد کرنے سے انھیں کچھ نہیں آئے گا جب تک وہ سمجھیں گے نہیں کہ ای کیا ہے اور ایم سی کیا۔ جب تک انھیں ان کی افادیت ان کی اہمیت کا پتا نہیں ہو گا۔ جب تک انھیں یہ نہیں سمجھ آئے گی کہ اس کا عملی زندگی میں کیا کردار ہے، دو جمع دو چار کو وہ کہاں اور کیسے استعمال کر سکتے ہیں۔
آپ نے آخری دفعہ کب اپنے بچوں کو پاس بٹھا کر یہ جاننے کی کوشش کی تھی کہ وہ جن کتابوں کو رٹے لگانے میں مصروف ہیں، وہ ان کتابوں کی سمجھتے کس حد تک ہیں؟ آپ نے کب آخری دفعہ انھیں کوئی غیر نصابی کتاب لے کر دی تھی؟ انھوں نے کب نصاب کے علاوہ کچھ پڑھا تھا، کچھ سیکھا تھا؟
آپ آخری دفعہ کب اپنے بچوں کو گھمانے پھرانے لے کر گئے تھے؟ کب آخری دفعہ انھیں سوئمنگ/تیراکی کروانے کی کوشش کی تھی، انھیں کب آخری دفعہ کراٹے کلاسز میں بھیجا تھا؟ کیا کبھی بھیجا بھی یا نہیں؟ کب انھیں صبح کی سیر کروانے کہیں پیدل لے کر گئے تھے؟ ”کب آخری دفعہ ان کے ساتھ ان کا ہم عمر بن کر کھیلنے کی کوشش کی تھی؟
آخری دفعہ کب انھیں کوئی ڈرائنگ بنانے کا کہا تھا؟ کب ان کے اندر کی کسی تخلیقی صلاحیت کو جاننے کی کوشش کی تھی؟
آپ نے اپنے بچوں کی زندگی اتنی محدود کیوں کر دی ہے کہ وہ بس صبح شام کتابوں میں لکھے لفظ زبانی یاد کرتے رہیں؟ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اتنی آسانی سے کیوں مرنے دیا؟ آپ نے آخری بار کب ان کو کرکٹ میں چھکا مارنے پہ شاباش دی؟ کب فٹبال میں ان کے گول کرنے پہ ان کو ویل ڈن کہا؟ کبھی کہا بھی یا نہیں؟
یا آپ کے بچے آپ سے یہ باتیں شیئر ہی نہیں کرتے؟
کہیں وہ ایسا تو نہیں سمجھتے کہ آپ اپنے بچوں کی پڑھائی کے علاوہ زندگی کے کسی کام میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے؟
کیا آپ کے بچے آپ کو اپنا دوست سمجھ ہی نہیں سکے؟
آپ نے کیا اپنے بچوں کو بس یہی سکھایا ہے کہ سکول کالج کی کتابوں کو رٹے مارو، اچھی جگہ ایڈمیشن لو، ایک دو لاکھ کی جاب کرو، شادی کرو، بچے پیدا کرو، انھیں اسی ریس میں لگاؤ اور مر جاؤ۔
کیوں؟
زندگی اتنی محدود ہے کیا؟ آپ کے بچے کی صلاحیتیں اتنی محدود ہیں کیا؟ یا آپ اپنے بچوں کی صلاحیتوں کے متعلق جانتے ہی نہیں؟
گھوڑے کا اپنا کام ہے، اپنی صلاحیت ہے۔ گدھے کی اپنی صلاحیت ہے، اپنا کام، زرافے کا اپنا مقام ہے، شیر گیدڑ کا اپنا مقام۔ آپ نے کیوں سب کو ایک ہی ریس میں لگا رکھا ہے؟
اپنے بچوں کو دیکھیں تو سہی، ان کی صلاحیتوں کو جانیں تو سہی، انھیں سمجھیں تو سہی۔ پھر فیصلہ کریں کہ انھیں کرکٹر بننا ہے، ڈاکٹر بننا ہے، بجلی کا کام سیکھنا ہے یا گھر بنانے کی ٹھیکیداری کرنی ہے۔ ان کو زندگی میں نوکری کرنی چاہیے یا وہ کوئی بزنس مین بنیں گے۔ ان کی شخصیت کو دیکھیں، ان کی ذہنی صلاحیت کو دیکھیں کہ وہ موسیقار بن سکتے ہیں یا عالم دین۔
یہ ریس جس میں آپ نے اپنے۔ بچوں کو لگا دیا ہے، یہ اتنی اہم نہیں کہ اس کے لیے آپ ان کا بچپن، ان کی خوشیاں قربان کریں۔ ان کی زندگی کو ایک دائرے میں محدود کریں، ان کو کنویں کا مینڈک بنائیں۔
ان کو کھل کر جینے دیں، ان کو اپنی شخصیت کی گروتھ کرنے دیں، اپنی تخلیقی صلاحیتیں نکھارنے کا موقع دیں۔ ان کو ہر اس کھیل میں، ہر اس غیر نصابی سرگرمی میں حصہ لینے دیں جو انھیں دلچسپ لگتی ہے یا جو ان کی ذہنی و جسمانی نشوونما کے لیے اچھی ہے۔
ضروری نہیں ہر وہ چیز جو آپ کو ان کے لیے ٹھیک لگتی ہے، وہی ٹھیک ہو۔ جسے آپ ان کے لیے بہتر سمجھتے ہیں وہ واقعی ان کے لیے بہتر ہو۔ ان کی رائے بھی سنیں، ان کی خواہش بھی سمجھیں۔ اپنی زندگی کے متعلق کچھ فیصلے انھیں خود کرنے دیں، کچھ چیزیں انھیں خود چننے دیں۔ انھیں گھر میں بہترین، صحت مندانہ ماحول دیں۔ خوشگوار بچپن، یادگار لمحے دیں۔
آپ کے بچے آپ کی ذمہ داری ہیں، اپنی ذمہ داری کو احسن انداز میں نبھائیں۔ انھیں مکمل اور خوبصورت انسان بنائیں