از:ش، م،احمد
۲۸؍ جون کو یونین ٹریرٹی جموں کشمیر کے لیفٹنٹ جنرل شری منوج سنہا نے پورے عقیدت واحترام کے ساتھ سال ۲۰۲۴ کی سالانہ امر ناتھ یاترا کا رسمی طور افتتاح کیا۔ انہوں نے بھگوتی نگر جموں کے بیس کیمپ پر بہ نفس ِنفیس جاکر۲۳۱؍ گاڑیوں میں سوار چارہزارامر ناتھ یاتریوں پر مشتمل پہلے قافلے کو ہری جھنڈی دکھا کر پوتر گھپا میں حاضری دینے کے لئے رُخصت کیا۔ ا س موقع پر انہوں نے تمام مقامی لوگوں سے یاترا کو ہر اعتبار سے کا میاب بنانے کے لئے حسب ِ سابق اپنا دست ِتعاون دینے کی اپیل کی۔ ۲۹؍جون کو یا تریوں کا قافلہ وادی میں قدم رنجہ ہوکر پہلگام پہنچا ‘ چندن واڑی سے آگے پہاڑی چڑھائیوں اور اُترائیوں کی آبلہ پائی کرکے یہ قافلۂ شوق بالآخر امرناتھ کے تیرتھ استھان یعنی پوتر گھپا میں شولنگم کے درشن سے فیض یاب ہوا ۔ یاتریوں کی آمدورفت کایہ سلسلہ ۱۹؍اگست تک جاری رہے گا۔۵۲؍دن طویل دورانیے پر محیط یاترا مذہبی جوش وجذبے اور امن وامان کےساتھ پوری ہوکر اگست کے دوسرے عشرے میں اختتام کو پہنچے گی ۔ اُمید ِواثق ہے کہ امسال بھی امرناتھ یاترا تما م عقیدت مندوں کے لئے روحانی آسودگی کی موجب ثابت ہوگی اور یہ اُنہیں اپنے من کی مرادیں پانےکی باعث بنی رہے گی ۔ ہماری دعا ہے کہ یاتریوں کے استقبال میںبشمول عوام خوش گوار موسم کی مہربانیاںچوبیسوں گھنٹے اپنی بہاریںشردھالوؤں پر نچھاور کر تی رہیں ‘ اُن کی رُخصتی کے وقت بھی موسم اپنی جملہ رعنائیوں کے ساتھ شو بھگتوں پراپنی فرحت بخش داد ودہش کرتارہے ۔ ہر ایک کشمیری دل سے چاہتا ہے کہ سالانہ یاترا مکمل طور کا میابی کے مراحل طے کرے ‘ ایک ایک یاتری ایل جی انتظامیہ کی طرف سے مہیا کردہ تمام سہولیات سے بہرہ ور ہو ‘ سیکورٹی انتظامات کا ہمہ پہلو سایہ تمام یاتریوں سمیت مقامی لوگوں کو نصیب ہو ‘ یاتریوں کے سر پر گھر سے پوتر گھپا آتے ہوئےاور پوتر گھپا سے گھر لوٹتے ہوئے آرام و آسائش اور تحفط و تندرستی کاماحول اُن کا ہم قدم رہے۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر یاتری ہمیشہ کی طرح مقامی مرکبانوں ‘ دکان داروں ‘تاجروں ‘ پولیس و ضلعی انتظامیہ کے کل پرزوں ‘ یاترا ڈیوٹی پر مامورطبی و دیگر سرکاری عملے سمیت تمام کشمیری مسلمانوں کی میزبانیوں ‘ مسکراہٹوں‘بھائی چارے ‘ بے لوث خدمتوں اوربے ریا دوستی کی ناقابل فراموش مسرت بھری یادیں اپنے ذہن وقلب کی تختی پرنقش کر کے آگے بھی ا مرناتھ یاترا کے لئے رخت ِسفر باندھنے پر بخوشی تیار بیٹھے رہیں ۔
ہرسال کی طرح اس برس بھی بھارت بھر سےہر عمر کے لاکھوں مردوزَن امرناتھ یاترا کےدھارمک
سفرپرقدم سے قدم سے اور کندھے سے کندھا ملاکر جنوبی کشمیر کی وادی میںچلے آئیں گے ۔ ہرسال کی روایت کے عین مطابق اب کے بھی یاترا پہلےدن سے لے کر چھڑی مبارک کا جلوس پوترگھپا تک پہنچے تک یہاں چپے چپے پر امن وآشتی اور سکون وقرار کا ماحول بنائے رکھنا ‘ تمام یاتریوں کی سوفی صد حفاظت یقینی بنانا ‘ ناقابل اعتبار موسم کے مسائل سے جڑے ہنگامی حالات کا مردانہ وار مقابلہ جنگی پیمانے پر کرنا وغیر ہم سرکار اور انتظامی مشنری کے لئے ایک بڑا سالانہ چلنج ہوتا ہے ۔ سچ یہ ہے کہ امرناتھ یاترا جب امن عامہ کی برقراری اور اطمینان و عافیت کےساتھ اختتام کو پہنچتی ہے ‘تب جاکر عوام اور حکام دونوں راحت کی سانس لیتے ہیں۔ ا س مرتبہ ۱۰ ؍جون کو ریاسی میں شو کھوری کی یاترا سے لوٹ رہی یاتریوں سے بھری ایک مسافر بس پر صد مہ خیز ڈہشت گردانہ حملہ ہوا جس میں ایک بچے سمیت دس یاتری ہلاک اور متعدد یاتری زخمی ہوئے۔اس حملے میں ملوثین کو اگرچہ بہت جلد ٹھکانے لگا یا گیا مگر یہ مذموم واقعہ حفاظتی ایجنسیوں کو مزید چوکسی برتنےکا پیغام دے گیا۔ امن وقانون کے محافطین نے امرناتھ یاتراکو ا س بار حفاظتی کور دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے کہ پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا ۔ اس لئے اُمید کی جانی چاہیے کہ سیکورٹی کا غیر معمولی بندوبست اپنا ہدف سو فی صد حاصل کر کے سبوتاژ کی تمام ممکنہ کو ششوں پر بھاری پڑے گا۔
یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ لگ بھگ تمام مذاہب ِ عالم اپنے پیروکاروں کو اپنے ایمان ویقین اور معتقدات سے گہرے طور جوڑے رکھنے کے لئے اُنہیں اپنی خاص الخاص زیارت گاہوں ‘ تیرتھ آستھانوں ‘ اہم عبادت گاہوں‘ تاریخی مقابر و یاد گارمزارات اور اپنے مقدس مقامات پر حاضری دینے کے لئے زائر انہ سفر کی ترغیب دیتے ہیں بلکہ اسے ان کے دین دھرم کا جزو لاینفک ٹھہراتے ہیں ۔ بقول اکبر الہ آبادی؎
مسافرت کا ولولہ سیاحتوں کامشغلہ
جوتم میں کچھ زیادہ ہے سفر کرو سفر کرو
ان حوالوں سے مسلمانوں کا حج وعمرہ کرنا‘ عیسائیوں کا پاپائے اعظم کے مواعظ سننے اورویٹیکن شہر
کے معابد کی زیارت کے لئے روم جانا ‘ ان کایروشلم ( القدس ) ، بیت ا للحم کا مذہبی دورے کرنا‘ ہندو ؤں کا ہردوار کی تیرتھ پر شوق ِ عقیدت میں ڈوب کر جانایا دریائے گنگا میں شردھالوؤں کا ڈبکیاں مارکر اشنان کرنا وغیرہ ان کےمذہبی شعائر میں خاصی اہمیت کے حامل مانے جاتےہیں ۔ بہ نظر غائر دیکھا جائے تو مذہبی اسفار کا ہدف بالعموم یہ ہوتا ہے کہ ایک تو مذہب ماننے والوں کے تزکیہ ٔ نفوس کا سامان ہو، اُن کی بھٹکتی روحوں کو جائے تسکین اور قربت ِ الہٰیہ کی تازہ سانسیں نصیب ہوں ، دوسرے مذہب کے متبعین کے تن ِ مردہ میں ان مسافرتوں سے اجتماعیت کا نیا خون دوڑ ا یا جاسکے ‘ ان کے مابین اُخوت ‘ یگانگت اور یک رنگی ثقافت کا ملمع چڑھا یاجا سکے۔ غرض دھارمک اسفار جنہیں اب مروجہ کمرشل اصطلاح میں زیاراتی سیاحت کانام بھی دیا گیا ہے‘ پر لبیک کہنے والے مختلف المذاہب دنیا میں متعدد اہم مذہبی مقدسات پر مسلسل یا وقفے وقفے سے جمع ہوتے رہتےہیں ‘ وہ ایک ساتھ اپنا سر عبودیت ایک اللہ کے روبر و
جھکا تے ہیں یا جمع ہوکرکسی دیوی دیوتا کی پوجا کر تے ہیں یا کسی مقدس مذہبی ہستی کو یاد کر کے اپنا سر احتراماًخم کرتے ہیں ۔ عقیدت مندوں کےان اجتماعات میں مذہبی کلمات وردِ زبان رکھے جاتے ہیں یا مذہبی اشلوک کا بھجن کیاجاتا ہے یا دھارمک نغمات ومزامیر کی لے میں ڈوب کر لوگ اپنا منظوم خراج ِ عقیدت اپنےتصور میں بسائے مذہبی ہستی کے حضور پیش کرتے ہیں یا لوگ مخصوص رسوم ورواجات کی مشق دہراتے ہیں۔ ان روایات کا اعادہ مذہبی نقطہ نگاہ سے زیادہ تر یہ غایت رکھتی ہے کہ عقیدت منداجر و ثواب کمانے ‘ اپنےگناہوں کے داغ دھوڈالنے‘ توبہ واستغفار سے مالکِ کائنات کی کرپا اپنے اوپر بنائے رکھنے ‘ تپسیا ئیں کر کر کےخالقِ دو جہاں سے مہر وماہ کا ٹوٹا رشتہ پھر سے جوڑنے ‘ بصد شوق تقرب ِ الہٰیہ سےسرشار ہونے کے عقیدہ پر پر جم جانے ‘ ایک جگہ جمع ہوکراپنے مذہبی مشاغل سے وابستہ و پیوست ہونے کے ضمن میں کر گزرتےہیں ۔ انہی معنوں میں امرناتھ یاترا کا سالانہ اعادہ ہندودھرم میں ایک مذہبی فریضے کی ادائیگی اورر وحانی ورثے سے فیض رسانی کا موثروسیلہ سمجھاجاتاہے۔ البتہ اس یاترا میںشولنگم کا درشن ہر سال موسم گرما کے ایک محدود وقت تک ہی موثر رہتا ہے کیونکہ کارگاہِ قدرت کے کرشمہ ساز ہاتھوں سے شو لنگم چند ہفتوں تک کامہمان بن کر نمودار ہوتا ہے اور کچھ ایام بعد یہ پگھل کر انسانی نظروں سے اگلے سال تک معدوم واوجھل ہوجاتاہے ۔ دوبارہ اس کا درشن پانے کے لئے عقیدت مندوں کو اپنی ترستی آنکھوں کے ساتھ اگلے سال کے گرمائی موسم تک بے تابانہ انتظارکر نا پڑتا ہے‘ تب جاکر پھر ایک بار شو لنگم بتدریج وجود پا کر اپنے ماننے والوں کو مقناطیسی کشش کی طرح اپنی جانب ملک کے کونے کونے سے کھینچ لیتاہے۔اس کے مقابلے میں عمرہ ہو‘ شیعہ مسلمانوں کی زیارات کا معاملہ ہو ‘ ماتا ویشنو دیوی کٹرہ جموں یا کرتار پور(نروال پنجاب )میں واقع گرونانک دیو جی کے گرودوارے میں حاضری ہو ‘اس کی سال بھر اجازت ہوتی ہے ‘ ا س لئے ان میں ہمیشہ عقیدت مندوں کا تانتا بند ھا رہنے کی سبب ان کی گہماگہمی سال بھر نقطہ ٔ عروج پر رہتی ہے ۔ ا س کے برعکس امرناتھ یاترا کی رونقیں گرما کے دو ماہ تک ہی اپنے عروج پر رہتی ہیں ۔
امر ناتھ یاترا کی قابل ِ دید خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کی جلوت پانے والا یاتری خود کو دنیا کےغل غپاڑے سے بہت بہت دور پوتر گھپا کےدرشن پا تاہے توکچھ سرود وطمانیت کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں میں کھو ساجاتا ہےاور کچھ آغوش ِ فطرت کی روح پرور وادی میں گم صم ہوتا ہے ۔ عقیدت مند نے یاترا سے قبل جو منتیں مانی ہوتی ہیں ‘اُن کا پٹارا وہ یہاں بھگوان شو کے سامنے کھولتے ہوئے فلک بوس پہاڑوں‘ ندی نالوں ‘ سر سبر وشاداب فضاؤں میں اپنی پیاسی روح کی سر مستیوں میں مستغرق رہتا ہے ۔یہاں اپنا پڑاو ڈال کراُس کا فانی وجود ایسی لافانی سکون وراحت کی تلاش وجستجومیں سرگرداں رہتاہےجوعام حالات میں دنیا ومافیہا کی فکرو پریشانیوں کو تیاگ دینے والے جوگیوں‘ سادھوؤں‘ سناسیوں اور سنتوں کے جیون کا لیکھا جوکھا ہوتا ہے ۔
بہر صورت ا س بار چشم ِفلک پھردیکھے گی کہ تقریباً دوماہ تک کس خوش عقیدگی اور شو بھگتی میں ڈوب کر ہندو شردھالوں قافلہ درقافلہ امرناتھ میں برفانی بابا کی چوکھٹ پر حاضری دینے جو ق در جوق چلے آرہے ہیں۔ یاتریوں کی آنکھوں کا مہا ساگر شولنگم کے شوقِ دیدار سے لازماً لبریز ہوتا ہے مگر اس کے پہلو بہ پہلو وہ اپنے من کی جھولی میں نجی مسائل ِ حیات کی گتھیوں اور مرادوں کا بوجھ بھی ڈھو تے ہیں جسے پوجا پاٹھ اورپرارتھنا کی صورت میں وہ شو دیوتا کے سامنے پیش کرکے ہلکا ہوتے ہیں۔ روح کی یہی متاعِ گرانمایہ اُنہیں لمبے سفر کی صعوبتیں برداشت کرنے کا حو صلہ بھی دیتی ہے اور کئی دن تک انہیں
شو کی یاد میں ڈبوئے رکھتی ہے۔ بلا شبہ اُن کی جیبوں میں پوتر گھپا کے ساتھ آستھا کا نہ ختم ہونے والا زادِ راہ ہوتا ہے ‘ جب کہ یاترا کے توسل سے اپنی اپنی منزلِ مراد پانے کی روحانی تڑپ ان کی ہم سفر رہتی ہے۔ یہ زاد ِراہ محض مال وزر کی شکل میں نہیں ہوتا بلکہ اس میں بھگوان شو سے اُن کی عقیدتوں کے تازہ دم پھول‘آرزوؤں کے رنگ برنگے گلدستے اور شو بھگتی کی پا ک خوشبوئیں بطو ر ریزگاری شامل ہوتی ہیں۔ ہم بھی یہ نظارہ دیکھیں گے کہ یا تری پہلگام اور بال تل کے راستے مستانہ وار بھم بھم بولے کی صداؤں کے درمیان محو ِسفر ہوں گے ‘کوئی پیدل چل رہاہوگا‘ کوئی گھوڑے پر سوار ہوکر پگڈنڈیوں کی مسافت طے کر نے میں مصروف ہوگا۔ آخر کار تمام عقیدت مند برف پوش پہاڑوں اور بہشت جیسےسبزہ زاروں والے پُر کیف مناظر کی گود میں واقع پوتر گھپا کو اپنے سامنے بانہیں کھولیں سواگت میں ایستادہ پائیں گے۔ عقیدت مند دفعتاً ہاتھ جوڑے شو لنگم کا درشن کرکے اس کا نمن کریں گے‘ اپنی اپنی دل کی نگری میں دعاؤ ں اور پرارتھاناؤں کا نذرانہ ٔ عقیدت شو کے سامنے پیش کریں گے‘ درشن سے فارغ ہوکر نہ چاہتے ہوئے بھی بالآخر گھر واپسی کی راہ لیں گے ۔ بلاشبہ عقیدت ومحبت کے اس طویل وصبر آزما روحانی سفر میں ان کا شریر تھکان سے چُور ہوتا ہے مگر اُن کی پیاسی آتماایک کیف آور سکون وطمانیت سے راحت محسوس کرتے ہوئے جسمانی تھکان کا بوجھ محسو س ہی نہیں کرتے۔ شریر کی محنت اورآتما کی مشقت پر مشتمل یہ روحانی سفر کے زندگی بھر اُنہیں احساس دلاتی ہے ؎
گر شریروں کو تھکاں دیتی ہے یاترا
آتماؤں کو سکوں دیتی ہے یاترا