سرینگر کی کئی سڑکوں پر تعمیراتی کام ہونے کی وجہ سے ٹریفک نظام میں خلل پایا جاتا ہے ۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ سمارٹ سٹی پروجیکٹ کے تحت شہر میں جگہ جگہ تعمیراتی کام چل رہاہے ۔ اس کا براہ راست اثر سڑکوں پر چلنے والی گاڑیوں پر پڑرہاہے ۔ سڑکوں پر ٹریفک کا دبائو بڑھ رہاہے اور آئے روز ٹریفک جام کا سامنا کرنا پڑتاہے ۔ گرمی کے ایام میں اس طرح کے ٹریفک جام کی وجہ سے لوگوں کو دوہری مصیبت کا سامنا رہتا ہے ۔ معلوم ہوا ہے کہ صوبائی کمشنر نے ٹریفک جام کو لے کر ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ میں صورتحال کا جائزہ لیا ۔ اس میٹنگ میں ٹریفک جام سے نمٹنے کے اقدامات پر بھی غور و خوض کیا گیا اور کئی اہم فیصلے لئے گئے ۔ مختلف مقامات پر عارضی بازار لگانے پر روک لگادی گئی اور چھاپڑی فروشوں کو ایسی جگہوں سے ہٹانے کے احکامات دئے گئے جہاں ان کی موجودگی سے سڑکوں کی کشادگی پر اثر پڑتا ہے ۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس کاروبار نے سڑکوں پر سخت منفی اثرات ڈالے اور ٹریفک جام کی بڑی وجہ چھاپڑی فروشوں کی موجودگی ہے ۔ میٹنگ میں ٹڑیفک کی نقل و حرکت میں خلل ڈالنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کا فیصلہ لیا گیا ۔ ایسی رکاوٹوں سے ٹریفک کی ہموار نقل وحمل بہت حد تک متاثر ہوتی ہے اور ٹریفک جام کا باعث بنتی ہیں ۔ اعلیٰ سطحی میٹنگ میں ان رکاوٹوں کو جلد از جلد ہٹانے کو کہا گیا ۔ میٹنگ میں نشاط روڑ پر ٹریفک کی سست روی خاص موضوع رہی اور فیصلہ لیا گیا کہ اس علاقے پر گاڑیوں کے رکنے اور ہالٹ کرنے پر پابندی لگادی جائے ۔ اسی طرح ایسی جگہوں کو تار بند کرنے اور ریلنگ لگانے کے لئے کہا گیا جہاں اس طرح کی صورتحال سامنے آتی ہے ۔ فوری اقدامات اٹھانے کے علاوہ اس علاقے میں ٹریفک کی ہموار نقل و حمل کو ممکن بنانے کے لئے کئی دوسرے منصوبوں پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا ۔ ایسے منصوبے آگے بڑھانے کے لئے متعلقہ ایجنسیوں کو باخبر کرنے کا فیصلہ لیا گیا ۔ ایسے منصوبوں پر عمل کب ہوگا اس حوالے سے کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے ۔ تاہم ٹریفک کی ہموار حرکت کے حوالے سے جن فوری اقدامات پر عمل کرنے کا فیصلہ لیا گیا اندازہ ہے کہ اس سے ٹریفک جام پر قابو پانے میں مدد ملے گی ۔ اس حوالے سے یہ بھی احکامات دئے گئے کہ ٹریفک جام کا باعث بننے والے غیر قانونی چھاپڑی فروشوں اور دوسرے ایسے افراد پر جرمانے عائد کئے جائیں جن کی من مانی سے ٹریفک میں خلل پڑتا ہے اور ٹریفک جام کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
ٹریفک جام بڑے شہروں کے لئے ایک بڑی مصیبت بن گئی ہے ۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ گاڑیوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ اور ان کے سڑکوں پر آنے کی وجہ سے ٹریفک جام کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ کشمیر میں ٹریفک جام نہ صرف مقامی لوگوں کے لئے پریشانی کا باعث ہے بلکہ سیاحوں کے لئے بھی مصائب کا باعث بن رہا ہے ۔ اس وجہ سے سیاح سرینگر کے سیاحتی مقامات پر جانے سے گریز کرتے ہیں ۔ ادھر موسمی حالات بھی بدل گئے ہیں اور دن کا درجہ حرارت تیس تنتیس ڈگری تک پہنچ گیا ہے ۔ اس طرح کے ٹمپریچر میں ٹریفک جام میں کوئی پھنس جائے تو اس کے لئے یہ برداشت سے باہر ہوتا ہے ۔ خاص طور سی نجی گاڑیوں میں مریضوں کے لئے سفر کرنا کسی بڑی مصیبت سے کم نہیں ۔ یہاں پچھلے کئی ہفتوں کے دوران سیاحوں کا رش بڑھ گیا ہے ۔ ان کو لے کر جموں اور دہلی سے آنے والی گاڑیوں سے یہاں ٹریفک کاکافی دبائو بڑھ گیا ۔ ادھر مصیبت یہ بھی ہے کہ سرینگر آنے والا ہر شخص اکیلے گاڑی میں یہاں پہنچ جاتا ہے ۔ اس کا نتیجہ ہے کہ سڑکوں پر گاڑیوں کی لائن لگی ہوتی ہے اور پیدل چلنے والوں کے لئے سڑک کراس کرنا ممکن نہیں رہتا ہے ۔ اس کے علاوہ سیوکرٹی فورسز کی گاڑیوں کا گشت بھی جاری رہتا ہے ۔ دو اور تین پہیوں والی گاڑیوں نے سب سے زیادہ پریشانیاں کھڑا کی ہیں ۔ ان کے لئے جیسے کوئی قانون نہیں اور جہاں چاہتے ہیں گھس جاتے ہیں اور سب سے زیادہ من مانی کرتے ہیں ۔ ایسے میں ٹریفک جام ہونا یقینی ہے ۔ ان حالات کے حوالے سے ٹریفک حکام کو کاروائی کرنی چاہئے ۔ یہ کوئی اچھی بات نہیں کہ یومیہ کمائی کرنے والے غریب لوگوں کے روزگار پر روک لگادی جائے ۔ ایسے فیصلے اس سے پہلے بھی لئے گئے اور کئی جگہوں سے ریڑھے بانوں اور چھاپڑی فروشوں کو ہٹایا گیا ۔ اس وجہ سے ان کے لئے روزی روٹی کمانا مشکل ہوگیا ۔ سرکار کو اس طرح سے متاثر ہونے والے افراد کا خیال رکھنا چاہئے ۔ ایسے اندھا دھند فیصلے کئی لوگوں کے لئے مصائب پیدا کرتے ہیں ۔ پھر یہ لوگ نہ صرف اپنے عیال کو پالنے سے قاصر رہتے ہیں بلکہ ان کے بچوں کی تعلیم پر اثر پڑتا ہے ۔ ان کے بچوں کو اسکول میں سخت شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے ۔ پھر ایسے بہت سے بچے تعلیم کو خیر باد کہہ کر مزدوری میں لگائے جاتے ہیں ۔ اس وجہ سے آوٹ آف سکول بچوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے ۔ ایسے بچے بڑے ہوکر منشیات کی نظر ہوجاتے ہیں یا جرائم پیشہ بن جاتے ہیں ۔ ٹریفک جام پر قابو پانا ضروری ہے تاہم اس دوران پڑنے والے اثرات کو کم کرنا بھی ضروری ہے ۔ تاہم ٹریفک جام کے حوالے سے انتظامیہ کے اقدامات کو حوصلہ افزا قرار دیا جاتا ہے اور اس کی سراہانا کی جاتی ہے ۔