تحریر:ش، م ،احمد
اُترپردیش کے ہاتھرس ضلع میں۲ ؍ جولائی کو ایک آشرم میں مذہبی اجتماع ( ستسنگ)کے دوران ایک جگرسوزسانحہ رونما ہو ا۔ انسانی جان کے زیاں اور دیگر نحوستوں کے ساتھ وقوع پذیر ہونے والے اس حادثے کو اگر قیامت صغریٰ سے مشابہت دی جائے تو مبالغہ نہ
ہوگا۔ منحوس خبر ہوا کے دوش پر چہار دانگ عالم میں پلک جھپکتے ہی اُڑی اور جائے وقوعہ کے مناظر سےجو کچھ جھلکتا رہا ان سے سب کے اوسان خطا ہوگئے ۔
اس انسانی المیے کے بارے میں یقینی طور قارئین کے سامنے اب تک بہت ساری دل خراش تفاصیل آئی ہوئی ہوں گی۔ یہاں اصل واقعہ کے حوالے سے اخباری اطلاعات کوبنیاد بناکر اپنے محسوسات اور تاثرات ضبط ِتحریر میں لا نے سے پہلے‘ اس پہلو سے گفتگو کرنا مناسب ہوگا کہ اگر چہ مذہب خد اور بندے کے درمیان ایک یقین وایمان کا سبز وشاداب اخلاقی وروحانی رشتہ قائم کرتا ہے تاکہ انسان زمین پر ایک ذمہ دار بندہ ٔ خدا بن کر جی سکے ‘وہ دوسرے انسانوں سمیت تمام مخلوقات کے ساتھ محبت و یگانگت اور امن وآشتی کے ساتھ رہے اور وہ ہرذی روح کے ساتھ نیک برتاؤ کر ے مگر ا س مادیت پسندانہ دور میں مذہب کا یہ اصل مفہوم زیادہ تر دیوانے کی بڑ سمجھا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کہیں کہیں کوئی مذہب ماننے والے ہی اپنے دلوں میں غیروں کے لئے تعصب‘ تنگ نظری اور منافرت کےجہنم دہکائے رکھتے ہیں‘ کوئی کوئی مذہب کے نام پر فریب کاری کو دھندے کے طور فروغ د یتا ہے ۔ایسے میں اگر مذہب کے حقیقی معانی سے ناآشنا لوگوں کے اندر مذہبی مشاغل کے پیچھےمادی خوش حالیاں سمیٹنے اور دنیوی مال وزَر کما نے کے جیسےادنیٰ مقاصد پنہاں ہوں تو کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ابن ِ آدم اپنے
و اسطے آرام و سہولیات کی جنت تلاشنے اور آسائشوں کا سورگ تراشنےمیںکیا کیا نہیں کر گزرتا ‘ پھر بھی ہر وقت اُس کے تعاقب میں حوادث کی چوٹیں‘ تکالیف کی بارشیں‘ صدموں کی یورشیں لگی رہتی ہیں کہ مصیبتیں ٹالنے اور اطمینان سے جینے کی اس کی تمام کوششیں اَکارت جاتی ہیں ‘ خساروں اور نقصانات سے بچنے کی اس کی تدبیریں بے فائدہ ثابت ہوتی ہیں‘تحفظ ِ ذات کے ضمن میں اس کے تمام پیشگی اہتمامات دھرے دھرے کے رہ جاتے ہیں کیونکہ موت کا فرشتہ کسی نہ کسی صورت انسان کی بقائے حیات اور دوام ِزندگی کی نرم ونازک فطری خوا ہش کی کشتی میں سوراخ کرہی جاتا ہے کہ چند ہی ثانیوں میں اُسے کفن بردوش پرلوک سدھارنے کا راستہ لینا پڑتا ہے۔ یہی منشائے الہٰی بھی ہوتی ہے۔اسی سرگزشت کا اعادہ گزشتہ دنوں اُتر پردیش ہاتھرس ضلع میں واقع ایک آشرم میں منعقدہ مذہبی اجتماع میں ہو ا۔حادثے کے وقت یہاں شد ومد سے ایک پرارتھنا سبھا چل رہی تھی اورلاکھوںعقیدت منداپنے مذہبی مراسم انجام دینے میں مشغول تھے کہ اچانک ایک قیامت خیز حادثہ ان کے گلے پڑگیا۔ یہ تباہ کن حادثہ دردوکرب میں ڈوبے ایک اور انسانی المیے کو عصری تاریخ کے سپردکرگیا۔
ہم اور آپ کتاب ِ زیست کے ان غیر مختتم صفحات کی بے ریا ورق گردانی کریں تو معلوم ہوگا کہ دُ نیوی زندگی سے ہم چاہے کتنا بھی صرف خوشیوں کی بہاریں مراد لیں مگر یہ آدھا سچ ہوگا کیونکہ دنیوی زندگانی بہار ہی بہار کا احاطہ نہیں کرتی بلکہ یہ اَن چاہےدُکھوں‘ تکلیفوں اور سختیوں کے موسم خزان کی ویرانیاں بھی اپنے اندر ہمیشہ سموئے ہوئے ہوتی ہے۔ جہاں اس کتاب کے ایک باب سےبہاروں کی رونقیں جھلکتی ہیں ‘ وہاں اس کا ایک ضخیم باب خزان کی پرچھائیاں لئے لمحہ بہ لمحہ آندھیوں‘ طوفانوں ، بیماریوں، وباؤں ، حادثوں‘ جنگوں‘ قحط سالیوں اور غم واندوہ کی داستانوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے اندر ترتیب دیتا جاتا ہے ۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں گزشتہ ہفتہ عشرہ کی نیوز رپورٹوں پر ہی ایک اُچکتی نظر دوڑائیں تو پتہ چلے گا کہ ہمارے گردونواح میں خزاں کی یہ جلوہ گریاں مختلف صورتوں میں جاری وساری ہیں۔ نمونے مشتے از خروارے‘دلی ہوائی اڈے کے ٹرمنل وَن میں ایک جگہ کنکریٹ چھت دھڑام سے نیچےگرآئی تو فرش ِ زمین پر موجود ایک غریب ٹیکسی ڈرائیور کی جان پربن آئی‘ ریل حادثیں تو اب معمول کا حصہ بنے ہوئے ہیں ‘ ریاست بہار میں کئی ایک جگہ نوتعمیر شدہ پُل گر ندی نالوںمیں بہہ گئے وغیرہ وغیرہ۔ان دل دہلانے والے واقعات کی رپورٹنگ میڈیا میں پے در پے ہوئی توایک طرف اس کتابِ زیست کا حجم بڑھا دیا‘ دوسری طرف حکومتی اکابرین کو اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی یاد دلانے کا باب اس میں جوڑدیا۔
بہر صورت ہاتھرس میں جن عقیدت مندوں کی جانیں گئیں ‘اُن کی دائمی جدائی کے غم میں رسم ِدنیا نبھانے والے لوگ آنے والے ماہ وسال میں ماتم کناں رہیں گے، اُن کی یادیں متاثرہ گھرانوں اور اُن کے دوست واحباب کے دل میں درد کی ٹیسیں بھی اُٹھاتی رہیں گی‘ دل ملسل چھلنی ہوتے رہیں گے ‘ کلیجے پھٹتے رہیں گے۔ سوگواروں میں بعضوں کو حکومت سے مالی امداد بھی ملے گی ‘ زخمیوں کی عیادت بھی ہوتی رہےگی ‘ ان کےدوا مرہم کے اخراجات بھی اٹھائے جاتے رہیں گے‘ کئی ایک متاثرین کو ہمدردیوں کے دو بول سننےپر ہی اکتفا کرنا پڑےگا ‘ بایں ہمہ جو دنیا کوہمیشہ کے لئےچھوڑ کر گیا‘ کیا وہ کبھی لوٹ آئے گا؟ نہیں ، اور جسےحادثے میں ناقابلِ مندمل زخم لگا‘ کیا اُس کے لئے زندگی ہر عنوان سے اجیرن نہیں بنتی رہےگی؟ جی ہاں ۔یوں اس کتاب ِ زیست میں انہی عناوین سے نئی نئی عبارتوں کا اضافہ آئندہ ہوتا رہے گا۔
اگر ہم ہاتھرس حادثےکے بارے میں سوچ کے دروازے کوضمیرکی کشادگی کے ساتھ کھولیںتو شاید ہمیں یہ صدائے باطن ضرور سنائی دے گی کہ حادثے کی منحوس گھڑی پر آشرم میں عقیدت مندوں کا انبوہ ِ عظیم قطعی طور اپنی موت کو دعوت دینے وہاں نہیں گیا تھا۔ انہیں واقعی زندگی سے پیار تھا ‘ یہ زندگی سے اُن کی نیاز مندانہ عقیدت تھی جو انہیں یہاں کھینچ لائی تھی کہ بابا بھولے ناتھ جی کی آشیرواد سے اُن کے زندگی کے دُکھ درد کافور ہوجائیں ۔ یہ لوگ زیادہ تر وہ غریب غربا تھے جو بالعموم رُوح کی غذا اور مسائل کا حل پوجا پاٹھ میں ڈھونڈنے میں یقین ر کھنے والے ہوتے ہیں ۔۔۔ سادہ مزاج ‘اُ جلے من والے‘ ہر کسی کا بھلا چاہنے والے‘ محنت کش اور مذہب پرست لوگ۔ یہ سورج پال عرف بابا بھولے ناتھ جیسے مشہور ومعروف اور ہردلعزیز دھرم گُرو کے دھارمک اَستھل پر اس بنا پر حاضری دے رہے تھے کہ اُن کی نجی زندگیوں کو درپیش پیچیدہ مسائل سے چھٹکاراملے‘ ان کے من کی مرادیں پوری ہوں ‘ بابا جی اپنی دیوی شکتی سے ان کو بھلا چنگا کریں۔ دوسرے لفظوں میں یہ لوگ زندگی میں سکھ چین کے متلاشی تھے۔ ان کےجیون میں آرام وآسائش کی برکھا برسے ‘اسی خوش عقیدگی نے انہیں بابا سے پرشاد(جسے وہ اپنی بھاشا میں بھولے ناتھ کے’’چرنوں کی دھول‘‘) پانے کی آرزو نےآشرم کی چوکھٹ پر لایا تھا اور یہاں سے وہ موت کی آغوش میں پہنچے۔ اس قماش کے سادہ طبع لوگ اکثر وبیش تر درویشوں ‘ راہبوں ‘ پیر فقیروں ‘ قلندروں ‘ ملنگوں‘ بابا ؤں اور دھرم گروؤں کی چوکھٹ پر ا پنی رُوح کی پکار پر‘ مسائل کے حل کے لئے ‘ آستھا اور وشواس کا خواب بسا کر ‘ ہاتھوں میں دان دکشنا لئے ان کے یہاںجبہ سائی کر نے آتے جاتے ہیں۔بسااوقات اُن کی مرادوں کا دامن بھر جاتا ہے اور کبھی کبھار انہیں کچھ پانے کی بجائے یہاں اپنا بہت کچھ کھونا پڑتا ہے کیونکہ یہ کل یُگ ہے اور میدانِ روحانیت میںانسانیت کے بہی خواہوں سے زیادہ ڈھونگی اور رنگے سیار غول بیابانی کی طرح موجودہیں کہ سادہ لوح لوگ ان کے ساحرانہ ہاتھوںلٹ کر رہ جاتے ہیں اوریہ بچارے زندگی بھر کف ِ افسوس ہی مَل کے رہ جاتے ہیں۔ ہاتھرس کے آشرم کے بارے میں بھی اس عنوان سے مختلف افواہیں اور چہ مہ گوئیاں گشت کررہی ہیں مگر اصل حقیقت کیا ہے‘ اس بار ے میں حکومتی سطح پر انکوائری کمیشن کی رپورٹ کا ہر ایک کو انتظار کر نا قرین ِعقل وانصاف ہے ۔ اسی سے پتہ چلے گا کہ جو قیامت صغریٰ یہاں بپا ہوئی ‘ اس کے پیچھے اصل کارن کیا ہے ، کون اس کا ذمہ دار ہے ، آشرم کےسیواداروں کا رول کیا اور کیسارہا ‘ عقیدت مندوں میں بھگڈر مچ جانے سے جو ہلاکتیں ہوئیں یا جنہیں شدید چوٹیں آئیں ‘ اس کی اصل ذمہ داری کس کے سر جاتی ہے۔ شکر ہے کہ مر نے والوں کی تعداد تادم تحریر ایک سو اکیس نفوس پر رُکی ہوئی ہے ‘ جو ا س بات کا بلیغ اشارہ ہے کہ مذہبی جماوڑے میں موجودلاکھوں لوگ اوپر والے کی کرپا سے جُوں تُوں بچ گئے ۔ البتہ جن شردھالوؤں کی قسمت میں یہاں موت کے منہ میں جانا اَزل سے مقدر ہواتھا ، جو یہاں گھائل ومضروب ہوئے ‘جو حادثے کے سبب اپنے پیاروں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کھوگئے ‘ اُن کاغم غلط ہونےمیں دہائیاںبھی کم پڑیں گی ‘اگرچہ کہنے کو پوراعالم ِ انسانیت متاثرین کا شریک ِ غم ہے ۔اُن کا دکھ درد بانٹنے کے لئے نیتا بھی ایک دوسرے پر سبقت لئے جا رہےہیں۔ پارلیمنٹ میں قائد حزب ِ اختلاف راہل گاندھی اپنی اولین فرصت میں ہاتھرس گئے۔ ایک ناقابل ِ التوا انسانی ذمہ داری کی ادا ئیگی میں انہوں نےسوگوار کنبوں سے ذاتی طور تعزیت کی ‘اُن کی ڈھارس بندھائی اور ان کا ٹوٹا ہوا حوصلہ بڑھایا۔
ہم سب جانتے ہیں کہ یہ انسانی المیہ عین اُس وقت دیس اور دنیا کودُکھ اور افسوس کی اَتھاہ گہرائیوںمیں غرق کرگیا جب پارلیمنٹ میں وزیراعظم مودی جی صدارتی خطبے پر شکریہ کی تحریک کے حوالے سے اپنا اظہار ِ خیال کر نے میں مصروف تھے ‘ پوری قوم ہمہ تن گوش ہوکر ان کو سن رہی تھی کہ یکایک ٹی وی سکرینوں پر بریکنگ نیوز آگئی کہ ہاتھرس اُتر پردیش کے مغل گڑھی نامی گاؤں میں شواجی سے منسوب ایک مذہبی اجتماع میں لرزہ خیزبھگڈر مچ گئی۔ واقعے میں کئی انسانی جانوں کے اتلاف کی اطلاعات ہیں ۔ بعد ازاں جائے وقوعہ سے حادثے کے متعلق جو نیوزرپورٹیں یکے بعد دیگرے میڈیا میں آئیں ‘وہ کافی چونکادینے والی اور غم ناک تھیں ۔ اخباری اطلاعا ت کے مطابق اجتماع میں ڈھائی لاکھ کے قریب ہندو شردھالوں موجود تھے ‘ جب کہ اجتماع گاہ میں صرف اسی ہزار انسانوں تک کے لئے اسپیس کی گنجائش تھی۔ ضلع انتظامیہ نے شرکا کی تعداد مبینہ طور گنجائش کے مطابق ہی دی تھی مگر اس ہدایت نامے سے تجاوز کیوں ہو ا، یہ ایک معمہ ایک لاینحل گتھی ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ کئی دنوں سے سیوا دار یہاں شامیانے نصب کر نے اور حاضرین کی سہولت کے لئے دیگر انتظامات کر نے میں مشغول رہے مگر گنجائش سے زیادہ جو جم غفیر یہاں موجود تھا ‘ اس کو سنبھالنا کارِدارد والا معاملہ تھا ۔ افسوس کہ وہی
ہو اجس کا خدشہ موجود تھا۔ ستسنگ میں یک بہ یک بھگڈر مچ گئی کہ سارا دھارمک سمیلن درہم برہم ہوا‘ آناً فاناً سارا سلسلہ بد نظمی کا شکار ہوا‘ عقیدت مند آپا دھاپی اور بے چینی کے عالم میں ایک دوسرے پر گرتے پڑتےگئے کہ دیکھتے ہی دیکھتے فرش ِ زمین پردرجنوںانسان لاشوں کی صورت میں بکھر گئے ‘ کثیر تعداد میں لوگ گھائل بھی ہوئے۔ ظاہر ہےستسنگ میں بیک وقت لاکھوں کی تعدادمیں مردوزَن‘ پیروجواں اور معصوم بچوں کا ایک ساتھ جمع ہونا‘ پھر لوگوں کے اژدھام میں نظم وضبط کا قائم رکھاجانا ‘ پوجا اورپرارتھنا سے فراغت کے بعد ستسنگ کے استھل سے بنا کسی دھکم پیل کے عقیدت مندوں کا صحیح سلامت نکل باہر آنا‘ یقیناًآشرم کے مٹھی بھر سیوا داروں کے لئےایک بڑا چلنج تھا اور مبینہ طور بر سر موقع پولیس کی ایک واجبی تعداد سے اتنے بڑے پیچیدہ کام کا سنبھالا جانا بھی تصور سے ماورا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اجتماع گاہ سے باہر آنے کا صرف ایک ہی دروازہ تھا‘ یہ ظلم بالائے ظلم ہے ‘اگر تحقیقات سے یہ بات درست ثابت ہو ۔ کہاجاتا ہے کہ یہاں ’’چرن کی دُھول ‘‘ پانےکے وقت ہی عقیدت مند ایک دوسرے کو بلا ارادہ کچلتے مسلتے گئے ‘ پھرہوا وہی جسے لاکھ ٹا لے بھی نہیں ٹالاجاسکتا۔
جیسا کہ اوپر کی سطور میں بتا یا گیا کہ ایسے مذہبی اجتماعات میں زیادہ تر غریب پریوار ہی شریک ہوتے ہیں ۔ اکثر وبیش ترغریب لوگ ہی دل میں تمناؤں اور من میںاَرمانوں کا بھاری بھرکم بوجھ لئے ایسی دھارمک سبھاؤں کا رُخ کرتے ہیں ۔ا ن کا پکاعقیدہ ہوتا ہے کہ ان کی بے کیف زندگیاں چاہےجن گھمبیرمصائب کے دلدل میںاُلجھی ہو ‘وہ جس قدر مصائب کے بھنور میں پھنسے ہوں ۔۔۔ چاہے یہ اُن کی لاعلاج بیماریاں ہوں ، ذہن پر سوار کسی مزعومہ آسیب یا جادوٹونے کا وہم ہو‘ بےروزگاری کے تھپیڑے ہوں، کاروباری نقصانات کے ہتھوڑے ہوں ، نوکری ملنے کی دبی کچلی آرزو ئیں ہوں‘ امتحان پاس کرنے کی خواہشیں ہوں ‘ اپنےبچوں یا بچیوں کے لئے بہترین رشتے کی تڑپ ہو‘ ناکام محبت کا معاملہ ہو‘ ساس بہو اور خانگی جھگڑوں کی روایتی کھینچ تانیاں ہوں‘ نظر بد سے گلوخاصی پانے کی چاہتیں ہوں‘ گھر پرویش کو بُرے اثرات سے محفوظ رکھنے کی باتیں ہوں وغیرہم‘ غریب ونادار لوگ انہی مسئلوں کو لئے اکثر پیروفقیروں کے چکر لگاتے ہیں تاکہ روز مرہ مسائل کے گرداب سے مکتی پائیں۔ ہاتھرس کی ٹریجڈی کی ہمہ گیر تحقیقات کے نتائج اگر بالفرض تلخ حقائق کی زبان میں یہی گرہ کشائی کریں تو ہم کس سے گلہ کریں خود سے دنیا بنانے والے سے؟