از:جہاں زیب بٹ
ابھی پی ڈی پی نے اسمبلی الیکشن کی پہلی ہی فہرست جاری کردی کہ اس کی صفوں میں ناراضگیاں نمودار ہو نے لگیں جو پارٹی کے لیے تباہ کن حد تک نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔
توقع کے برعکس پی ڈی پی کی الیکشن شروعات ہی ٹیڑ ھی اور خراب سوزو ساز سے ہویی۔ امیدواروں کی پہلی فہرست باہر آنے کی دیر تھی تو پی ڈی پی میں بھو نچا ل کی سی کیفیت پیدا ہو رہی ہے ۔عبد الرحمان ویر ی سے لیکر ترال کے ڈاکٹر ہر بخش سنگھ تک کیی سینیر لیڈر ناراض ہیں ۔ عبدالرحمان ویری نے مسلسل تین بار بجبہا رہ سے الیکشن جیتا ۔موسم بدلا ابر آیا دھوپ آیا مگر ویری صاحب پی ڈی پی سے چمٹے رہے ۔لیکن اب کی بار ان کو اننت ناگ ایسٹ کی نشست کے الیکشن محاذ پر بھیجا گیا۔جہاں این سی امیدوار کانٹے کی ٹکر دیگا۔بجبہا رہ اسمبلی نشست التجا مفتی کے لیے چھو ڑ د ی گیی ہے۔ یہ فیصلہ غالبا ویری صاحب کو پو چھے بغیر کیا گیا حالانکہ وہ پی ڈی پی کی پارلیمانی ا یفیرس کمیٹی کے چیرمین ھیں ۔اس پر ویری صاحب کے دل کو ٹھیس لگنا قدرتی بات ہے۔ ایک راے یہ ہے کہ ویری صاحب کو بجبہارہ سے منڈیٹ دیا جاتا تو anti.incumbancy ووٹ کا خطرہ تھا ۔لہذا التجا مفتی کو میدان میں اتارنا دانایی سمجھی گیی۔۔پی ڈی پی نے پلوامہ سے وحید الرحمان پرہ کو بطور امیدوار نا مز د کیا ہے جو مقامی کارکنوں کی خواہش کے مطابق لیاگیا فیصلہ ہے ۔البتہ پلوامہ اسمبلی حلقے سے بی ڈی سی چیرمین باری اندرابی بھی عر صہ دراز سے دعویدار تھے۔انھوں نے پلوامہ سے پی ڈی پی منڈیٹ کی امید پر ہی دس سال پہلے اسمبلی الیکشن سے کچھ ماہ پہلے نوکری سے استعفی دیا تھا مگر تب تامل کے بعد ہی سہی مفتی صاحب مرحوم نے محمد خلیل بندھ کو بطور کنڈ یٹ نامزد کیا ۔محمد خلیل منسٹر بنے مگر پارٹی میں نظر انداز ہو نے کی شکایت کو لیکر پی ڈی پی چھو ڑنے پر مجبور ہوگیے اور اب کی بار پلوامہ سے مضبوط این سی کنڈ یٹ ہو نگے۔الیکشن سے پہلے ترجمان اعلی سہیل بخار ی بھی پارٹی سے ناراض ہو کر چل دیے ۔ان کی ناراضگی کی وجہ وا گو رہ کر یر ی سے منڈیٹ نہ ملنا بتایا جا تا ہے جہاں سے گھر واپسی کے بعد بشارت بخار ی کو پی ڈی پی میدان میں اتار رہی ہے۔سب سے حیران کن اور نقصان دہ نتایج کا حامل فیصلہ وجی حلقہ انتخاب(آج کی زینہ پورہ کانسچو نسی) کی بابت ہے جہاں سے غلام محی الدین وانی کو امیدوار نامزد کیا گیا اور اچھی خاصی عوامی ساکھ رکھنے والے سابق ممبر اسمبلی اعجاز میر کو چھو ڑ دیا گیا جس کے خلاف مقامی پی ڈی پی کارکنوں نے شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔خود اعجاز میر محو حیرت ھیں اور پارٹی کو خیر آباد کہہ سکتے ہیں ۔
یہ پی ڈی پی کے لیے کویی نیک شگون ںہیں کہ ایک طرف وہ سابق ممبران اسمبلی اور سینیر لیڈر گھر واپسی کررہے ہیں جنھوں نے مشکل وقت میں پارٹی کی پرواہ نہ کی مگر دوسری اور وفادار اور مقبول لیڈر نظر انداز یا ناراض کیے جا رہے ہیں ۔سینیر لیڈر الیکشن کے موقعہ پر ہی خفا رہیں بغاوت کریں یا بد دل ہو جائیں تو اس پارٹی کا انجام کیا ہوگا ؟پی ڈی پی ایک سیاسی متبادل کے طور پر ابھری تھی۔اس نے ایک زمانے میں وہ بڑا سیاسی خلا پا ٹ لیا جو این سی حکمرانی اور حریت کے الیکشن بایکاٹ کے درمیان پیدا ہؤا تھا۔وہ دو بار مخلوط حکومتوں میں نمایاں اور طاقتور پوزیشن پر رہی ۔ما نا کہ یہ پارٹی بے داغ نہ رہی ۔اس سے کءی ایک غلطیاں سر ذ د ہو گیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس کی ضرورت باقی نہیں رہی اور اس کے اندر جو کچھ ہو جایے ہو نے دو۔محبوبہ مفتی ایک بہادر خاتون ہے جو مسلسل محنت اور عقل سلیم سے اپنے بل بوتے پر کشمیر کے سیاسی منظر نامے پر ابھر آئی۔وہ ایک موثر آواز ہے اور تب تب عوام کے حق میں اور زیادتیوں کے خلاف بول اٹھی جب دوسروں کی غیرت منجمد تھی ۔محبوبہ جی کا دعویٰ ہے کہ اس کی جماعت کا توڑنے کی باہر سے سازشیں ہو ییں تو لیڈر پارٹی چھوڑ کر چلے گیے مگر کارکن ایک انچ نہ ہٹے لیکن اب الیکشن موسم آیا تو اندر ہی سے ناراضگیاں اور اختلافات جنم لے رہے ہیں جو پارٹی کے لیے جان لیوا ٹا بت ہو نگے۔امیدواروں کی نامزدگی کی پہلی فہرست کی بابت کہا جارہا ہے کہ سینیر لیڈروں سے مشاورت نہیں کی گیی ۔یہ تقریباً ویسی ہی صورتحال ہے جو کبھی این سی میں پیدا ہوئی تھی جب عمر عبداللہ نیے نیے تھے اور پرانے چہروں کو نظر انداز کر رہے تھے ۔اس طرزعمل نے این سی کو ٹھیک ٹھاک نقصان پہنچایا اور ا س کا زوال پروسیس تیز تر بنا دیا ۔جب عمر عبداللہ کو سبق ملا تو آج پیرانہ سالی کے مقام پر کھڑے عبدالرحیم راتھر کو درخواست پہ درخواست کرنی پڑی کہ وہ اٹھ کر الیکشن مینی فیسٹو تیار کرکے دیں ۔خیال کیا جا تا ہے کہ پی ڈی پی میں مشاورت کا کویی ٹھوس نظام نہیں ہے ۔زمام چھوٹو ں کے ہاتھ میں آگئی ہے جوصرف اپنی مرضی کے غلام ہیں۔
توقع کے برعکس پی ڈی پی کی الیکشن شروعات ہی ٹیڑ ھی اور خراب سوزو ساز سے ہویی۔ امیدواروں کی پہلی فہرست باہر آنے کی دیر تھی تو پی ڈی پی میں بھو نچا ل کی سی کیفیت پیدا ہو رہی ہے ۔عبد الرحمان ویر ی سے لیکر ترال کے ڈاکٹر ہر بخش سنگھ تک کیی سینیر لیڈر ناراض ہیں ۔ عبدالرحمان ویری نے مسلسل تین بار بجبہا رہ سے الیکشن جیتا ۔موسم بدلا ابر آیا دھوپ آیا مگر ویری صاحب پی ڈی پی سے چمٹے رہے ۔لیکن اب کی بار ان کو اننت ناگ ایسٹ کی نشست کے الیکشن محاذ پر بھیجا گیا۔جہاں این سی امیدوار کانٹے کی ٹکر دیگا۔بجبہا رہ اسمبلی نشست التجا مفتی کے لیے چھو ڑ د ی گیی ہے۔ یہ فیصلہ غالبا ویری صاحب کو پو چھے بغیر کیا گیا حالانکہ وہ پی ڈی پی کی پارلیمانی ا یفیرس کمیٹی کے چیرمین ھیں ۔اس پر ویری صاحب کے دل کو ٹھیس لگنا قدرتی بات ہے۔ ایک راے یہ ہے کہ ویری صاحب کو بجبہارہ سے منڈیٹ دیا جاتا تو anti.incumbancy ووٹ کا خطرہ تھا ۔لہذا التجا مفتی کو میدان میں اتارنا دانایی سمجھی گیی۔۔پی ڈی پی نے پلوامہ سے وحید الرحمان پرہ کو بطور امیدوار نا مز د کیا ہے جو مقامی کارکنوں کی خواہش کے مطابق لیاگیا فیصلہ ہے ۔البتہ پلوامہ اسمبلی حلقے سے بی ڈی سی چیرمین باری اندرابی بھی عر صہ دراز سے دعویدار تھے۔انھوں نے پلوامہ سے پی ڈی پی منڈیٹ کی امید پر ہی دس سال پہلے اسمبلی الیکشن سے کچھ ماہ پہلے نوکری سے استعفی دیا تھا مگر تب تامل کے بعد ہی سہی مفتی صاحب مرحوم نے محمد خلیل بندھ کو بطور کنڈ یٹ نامزد کیا ۔محمد خلیل منسٹر بنے مگر پارٹی میں نظر انداز ہو نے کی شکایت کو لیکر پی ڈی پی چھو ڑنے پر مجبور ہوگیے اور اب کی بار پلوامہ سے مضبوط این سی کنڈ یٹ ہو نگے۔الیکشن سے پہلے ترجمان اعلی سہیل بخار ی بھی پارٹی سے ناراض ہو کر چل دیے ۔ان کی ناراضگی کی وجہ وا گو رہ کر یر ی سے منڈیٹ نہ ملنا بتایا جا تا ہے جہاں سے گھر واپسی کے بعد بشارت بخار ی کو پی ڈی پی میدان میں اتار رہی ہے۔سب سے حیران کن اور نقصان دہ نتایج کا حامل فیصلہ وجی حلقہ انتخاب(آج کی زینہ پورہ کانسچو نسی) کی بابت ہے جہاں سے غلام محی الدین وانی کو امیدوار نامزد کیا گیا اور اچھی خاصی عوامی ساکھ رکھنے والے سابق ممبر اسمبلی اعجاز میر کو چھو ڑ دیا گیا جس کے خلاف مقامی پی ڈی پی کارکنوں نے شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔خود اعجاز میر محو حیرت ھیں اور پارٹی کو خیر آباد کہہ سکتے ہیں ۔
یہ پی ڈی پی کے لیے کویی نیک شگون ںہیں کہ ایک طرف وہ سابق ممبران اسمبلی اور سینیر لیڈر گھر واپسی کررہے ہیں جنھوں نے مشکل وقت میں پارٹی کی پرواہ نہ کی مگر دوسری اور وفادار اور مقبول لیڈر نظر انداز یا ناراض کیے جا رہے ہیں ۔سینیر لیڈر الیکشن کے موقعہ پر ہی خفا رہیں بغاوت کریں یا بد دل ہو جائیں تو اس پارٹی کا انجام کیا ہوگا ؟پی ڈی پی ایک سیاسی متبادل کے طور پر ابھری تھی۔اس نے ایک زمانے میں وہ بڑا سیاسی خلا پا ٹ لیا جو این سی حکمرانی اور حریت کے الیکشن بایکاٹ کے درمیان پیدا ہؤا تھا۔وہ دو بار مخلوط حکومتوں میں نمایاں اور طاقتور پوزیشن پر رہی ۔ما نا کہ یہ پارٹی بے داغ نہ رہی ۔اس سے کءی ایک غلطیاں سر ذ د ہو گیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس کی ضرورت باقی نہیں رہی اور اس کے اندر جو کچھ ہو جایے ہو نے دو۔محبوبہ مفتی ایک بہادر خاتون ہے جو مسلسل محنت اور عقل سلیم سے اپنے بل بوتے پر کشمیر کے سیاسی منظر نامے پر ابھر آئی۔وہ ایک موثر آواز ہے اور تب تب عوام کے حق میں اور زیادتیوں کے خلاف بول اٹھی جب دوسروں کی غیرت منجمد تھی ۔محبوبہ جی کا دعویٰ ہے کہ اس کی جماعت کا توڑنے کی باہر سے سازشیں ہو ییں تو لیڈر پارٹی چھوڑ کر چلے گیے مگر کارکن ایک انچ نہ ہٹے لیکن اب الیکشن موسم آیا تو اندر ہی سے ناراضگیاں اور اختلافات جنم لے رہے ہیں جو پارٹی کے لیے جان لیوا ٹا بت ہو نگے۔امیدواروں کی نامزدگی کی پہلی فہرست کی بابت کہا جارہا ہے کہ سینیر لیڈروں سے مشاورت نہیں کی گیی ۔یہ تقریباً ویسی ہی صورتحال ہے جو کبھی این سی میں پیدا ہوئی تھی جب عمر عبداللہ نیے نیے تھے اور پرانے چہروں کو نظر انداز کر رہے تھے ۔اس طرزعمل نے این سی کو ٹھیک ٹھاک نقصان پہنچایا اور ا س کا زوال پروسیس تیز تر بنا دیا ۔جب عمر عبداللہ کو سبق ملا تو آج پیرانہ سالی کے مقام پر کھڑے عبدالرحیم راتھر کو درخواست پہ درخواست کرنی پڑی کہ وہ اٹھ کر الیکشن مینی فیسٹو تیار کرکے دیں ۔خیال کیا جا تا ہے کہ پی ڈی پی میں مشاورت کا کویی ٹھوس نظام نہیں ہے ۔زمام چھوٹو ں کے ہاتھ میں آگئی ہے جوصرف اپنی مرضی کے غلام ہیں۔