تحریر: ش،م،احمد
تاریخ سازاسمبلی الیکشن کا دوسرا پڑاؤ ۲۵؍ ستمبر کو بحسن وخوبی سر انجام پایا۔ دوسرے فیز میں ۲۵ عشاریہ۷۸ لاکھ سے زائدووٹروں کو ۲۶ ؍ اسمبلی نشستوں کے لئے ۲۳۹ ؍ اُمیدواروں میں سے اپنے من پسندنمائندےمنتخب کر نے کا جمہوری حق انجوائے کر نے کا زریں موقع ملا ۔ مقامِ شکر ہے کہ پہلے مرحلے کی طرح اس بار بھی پولنگ امن ا ور سکھ شانتی کے ساتھ اختتام پذیرہوئی۔ فسٹ فیز کے ایکشن ری پلےکی مانند اس مرتبہ بھی پولنگ بوتھوں کے اندر باہر پولیس اور سیکورٹی فورسز کی موجودگی سے کسی ایک بھی ووٹر کے اعصاب پر خوف یا دباؤ کا ادنیٰ سا شائبہ بھی محسوس نہ ہو ا جیسے ماضی میں برسوں پہلے انتخابات میں بالعموم دیکھاجاتا تھا۔ اب کی بار لوگ اپنی آزادنہ مرضی سے پورے نظم وضبط کے ساتھ امن پرورانہ ماحول میں اپنے حق رائے دہی کا استعمال کر نے آگے بڑھے اور آرام سے واپس گھروں کی راہ لی۔ اَحسن طریقے پر الیکشن پروسس کے تمام ضروری انتظامات کر انے کے لئے پوری انتظامی مشنری سمیت الیکشن کمیشن آف انڈیا اور امن وقانون نافذ کر نے والے ادارے پھر ایک بار دلی مبارک باد کا مستحق ٹھہرتے ہیں۔ سیکنڈ راؤنڈ میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پولنگ کی مجموعی شرح ۵۴؍ فی صد رہی جو پہلے انتخابی پڑاؤ سے ۶؍ فی صد کم ہے ۔ خیال کیا جاتا ہے کہ جب آگےاسمبلی الیکشن کا اختتامی مرحلہ ہوگا تو امکانی طور پولنگ کی شرح پہلےدو راؤنڈؤں پر وہ اپنی عددی بر تری قائم کرے گا۔ سیکنڈ راؤنڈ میں نیشنل کا نفرنس ‘ پی ڈی پی‘ کا نگریس ‘ اپنی پارٹی کے علاوہ مرکز میں برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کے چیدہ چیدہ لیڈر وں ‘ ایک پابند سلاسل ممتاز علیحدگی پسند آوازسرجان برکاتی اور سینکڑوں دیگرآزاد اُمیدواروں کی سیاسی قسمتوںکا فیصلہ ڈبہ بند ہوا ۔ اس مرحلے پرجہاں ایک طرف ووٹ تقسیم درتقسیم ہونے کا لاعلاج روگ برقرار رہا ‘ وہیں۸ ؍اکتوبر زیادہ تر آزاد اُمیدواروں پر بھاری پڑے گا کیونکہ ان کی ضمانتیں ضبط ہونا قرین قیاس لگتاہے ۔ اگر یہ کہاجائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ دوسرے راؤنڈ سے ہی مستقبل کی یوٹی حکومت کی ممکنہ ہیئت ترکیبی کی کچھ موہوم سی پرچھائیاں دکھائی دینے لگی ہیں ۔
دوسرے مرحلے کے انتخابی عمل میںرائے دہندگان کو جموں کے تین اور کشمیر کے تین اضلاع میں پھیلی ۲۶؍ اسمبلی سیٹوں کا مقدر طے
کر ناتھا‘ سو انہوں نے بحسن وخوبی کیا۔ روایت کے عین مطابق وادی کے مقابلے میں ا س بار بھی جموں اور چناب ویلی کے ووٹروں نے جمہوریت کے میلے میں کچھ زیادہ جوش وخروش کا مظاہرہ کیا۔ پیروجواں ‘ مردوزن اور پہلی بار ووٹ کا حق پانے والے جواں عمر لڑکے اور لڑکیوں نے علی الصبح پولنگ اسٹیشنوں کی جانب رُخ کیا‘ لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کے انتظار میں گھنٹوں انتظار کیااور ووٹ کا سٹ کر نے کی ہوڑ میں مقررہ وقت کی حدگزر جانے کے بعد بھی پولنگ اسٹیشنوں میں اپنی باری کے لئے مستعدی کےساتھ جمے رہے۔ یہ ایک حوصلہ افزا سیاسی پیش رفت ہے ۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وادی کشمیر نے بھی پولنگ کی جموں جیسی ہوبہو تصویر پیش کی مگر بہت زیادہ فرق بھی دونوں خطوں میں نہ رہا۔ البتہ سری نگر کی کم وبیش آٹھ اسمبلی سیٹوں میں بعض کو چھوڑ کر بقیہ تمام علاقوں میں زیادہ تر لوگ اسی طرح ذوق وشوق کے ساتھ صبح تاشام پولنگ مراکز پر حاضری دینے میں منہمک نظر آئے ۔ اُن کی گرمجوشی حالیہ پارلیمانی الیکشن کی مانند دیدنی رہی ۔
سری نگر میں پولنگ کی شرح ہمیشہ کی طرح آج بھی مقابلتاً کم رہی۔ سوال یہ ہے کہ جب کشمیر کے طول وعرض میں عمومی طور سیاسی ہوا بدلی کا موسم چل رہاہے‘ اہالیانِ سری نگر کا یہ طرزعمل کیا بتاتا ہے؟ بقول جگر ؎
یا وہ تھے خفا ہم سے یا ہم ہیں خفا اُن سے
کل اُن کا زمانہ تھا آج اپنا زمانا ہے
بدلے ہوئے سیاسی حالات میں انتخابی عمل میں پیش پیش رہنےکے بجائے سری نگر کا ایک مخلص ومحب وطن حلقہ اس پروسس سے رُوٹھا رُوٹھا کیوں دِ کھا ؟ اس کی اکثریت پولنگ بوتھوں کے تئیں سرد مہری کیوں برت گئی ؟ ایک ایسی فضا میں جب وادی بھر میں لوگوں نے پارلیمانی الیکشن کے بعد اب اسمبلی انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہوئے ایک نئی سیاسی صبح کا خواب لئے نئی شروعات کر نے کی حامی بھرلی ہے ‘ خاص کر انہوں نے اپنی شناخت بچانے سے لے کر معاشی ترقی کا میدان پھر سے سنوارے جانے اور مہنگائی وبے روزگاری جیسے عفریتوں سے گلو خلاصی پا نے کا بیڑہ اُٹھایا ہوا ہے‘ سری نگر کا مخصوص حصہ جو سیاسی طور بہت ہی حساس ہونے کے ناطے کلیدی مر کزیت کا حامل ہے‘ اس تبدیلی ٔ فضا کے لئے ابھی تک ذہناً تیار کیوں نہیں ہوا ؟ کہیںاس بے رُخی کی اصل وجہ آزمودہ کار سیاسی قائدین کی جفاکاریوں کی طویل کہانیاں تو نہیں بنیں جو ووٹ لینے کے بعد پھر پانچ سال تک رائے دہندگان کو درشن دنیا اپنی کسر شان سمجھتے ہیں ؟ بہر کیف ہم انتخابی عمل سے بے اعتنائی برتنے کو سری نگر کی شانِ بے نیازی مانیں یا وقت کی ہر کسی رو ‘ سیاسی فکر وفلسفہ سے اس کی مایوسی کا اظہار کہیں ‘ یہ سوال ہمارے دل اور دماغ پر حاوی ہونا چاہیے کہ کیا سری نگر خود کو سیاسی حاشیے پر رکھنے کا کوئی کوئی لابھ سمیٹے گا یا گھاٹا ؟
گنجان آبادی والا سری نگر کشمیر کا خوب صورت دارالحکومت ہی نہیں بلکہ ایک تاریخ ساز خطہ ہے ۔ تاریخ کے بے تکان سفر میں سری نگرشہمیری سلاطین سے لے کر چک‘مغل ‘ افغان‘ سکھ‘ ڈوگرہ حکمرانوں کے زیر سایہ زیادہ تر زمانے کے سرد وگرم کا درد وکرب کامحور ومرکز رہا ہے۔ اس لئے اگر سری نگر کو کشمیر کا چار پانچ سو سالہ تحریر اسکوئر کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ کشمیری عوام میں سیاسی بیداری کی پہلی آہٹ سری نگر نے ہی سنی ‘ مسلم کانفرنس کے قیام اور نیشنل کا نفرنس کے جنم سے لے کر اَن گنت سیاسی اُتار چڑھاؤں کا خمیازہ بھی اسی خطے نے اُٹھایا ‘ اسی نے الحاقِ ہند کے بعد محاذ رائے شماری کے آوارہ گردانہ تجربے اور بعدازاں مسلم متحدہ محاذ( مف) کی سیاسی کشمکش کا اُلٹا نتیجہ ۱۹۸۷ کے رسوائے زمانہ انتخابی دھاندلیوں کی صورت میں بہ نگاہ ِحسرت دیکھا۔ پھر جب بہت جلد الیکشن دھاندلیوں کے ردعمل میں پھوٹنے والی خون ریزیوں کا سیاہ ترین دور شروع ہوا تو سری نگر ہی اس زلزے کا ایپی سنٹر بنا رہا۔ خون آلودہ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ ڈاؤن ٹاؤن سری نگر روبیہ سعید کی اغوا کاری سے لے کر دفعہ ۳۷۰ کالعدم کئے جانے تک پھیلی ہوئی تاریخ کی ہر جنبش کے عینی گواہ سری نگر کے گلی کوچے‘ سڑکیں شاہراہیں اور سبک رفتار جہلم ہمیشہ بنے رہے ۔ غرض پندرہویں صدی کے اختتام سے لے کر آج تک سری نگر مختلف آندھی طوفانوں کا ہمیشہ چشم دید مشاہد اور اسی تناظر میں غیر معمولی تکالیف کا تختہ ٔمشق بنارہاہے۔ اور آج کی تاریخ میں جب آزادنہ اور منصفانہ انتخابات کی دستک سیاست ِزمانہ کے بند دروازے کو عدالت ِعظمیٰ کی ہدایت پر دی گئی اور زخم زخم اہل ِکشمیر کوحالات کے بپھرے سمندر میں ہچکولے کھارہے سفینے کو ساحلِ مراد تک لانے کےواسطے آئین ِجمہور نے خو اپنی دکمان سنبھالنے کا موقع دیا ‘ سری نگر کو آگے بڑھ کر اس پیش قدمی کا چار وناچار خیر مقدم کر نا ہوگا تا کہ وطن کی نیا پار لگے‘ دیرینہ زخموں پر پھاہا رکھاجاسکے‘ کھوئی شناخت کی بازیابی کے جمہوری راستے کی آبلہ پائی ممکن ہو سکے‘ لوگوں کے روزمرہ مسائل کافوری نپٹارا ہو ‘ عوام کو اپنے دبے کچلے جذبات و احساسات کا اظہار کر نے کا ایک بہترین جمہوری متبادل پلیٹ فارم میسر ہو۔
دوسرے راؤنڈ میں سری نگر میں ووٹروں کا ٹرن آؤٹ کم کیوں رہا،یہ سوال تجزیہ کاروں کے لئے دلچسپی کا موضوع بنا ہواہے اور ہونا بھی چاہیے۔ اس ضمن میں اصولی طور یہ بات گرہ میں باندھ لی جائے کہ سری نگر کے لوگوں میں سیاسی شعور کا کوئی فقدان نہیں‘ نہ وہ زمانے کی نبض شناسی کر نے کی صلاحیت سے عاری ہیں مگر پھر بھی کوئی چیز تو ضرور ہونی چاہیے جو اس بار بھی اہل سری نگر کوبدلی ہو ئی ہواؤں سے اپنی دیرینہ قنوطیت کا دامن جھاڑنے اور رجائیت کا راستہ پکڑنے میں آڑے آئی۔ شاید ہمیشہ رنگ بدلتے سیاست کاروں کی کارستانیوں اور ان کی روایتی سیاسی لن ترانیوں سمیت نو واردانِ سیاست کے نا معلوم عزائم کے حوالے سے شہر باش شکوک وشبہات اور تحفظات رکھتے ہوں۔ ایسا کرنے میں یہ لوگ حق بجانب بھی ٹھہرتے ہیں کیونکہ وہ دیکھ چکے ہیں کہ یہاں اکثر وبیشترلیڈر حضرات اور سیاست کے مہارتھی ووٹروں کو جھوٹےوعدوں دلاسے اور بے اصل خوابوں کی کچھ ایسی پٹی پڑھانے کے عادی رہے کہ سادہ لوح لوگ ووٹ کو جادوئی چھڑی ماننے لگتے جسے گھمایئے تو تمام مسائل حل ‘ سرکاری ملازمت کا من وسلویٰ نازل‘ دودھ کی ندیاں شہد کے نالے گھر آنگن میں حاضر۔ حالانکہ جونہی من کے سچے عوام اپنے ’’پسندیدہ‘‘ سیاسی ساحروں کے سر انتخابی جیت کا سہرا ووٹ کی شکل میں باندھ دیتے تو یہ بچارے سادہ لوح اگلے پانچ سال تک غالب کے اس شعر کی عملی تفسیر ہو کر بے گمان وادیوں سرگرداںرہتے؎
ہم کو اُن سے وفا کی ہے اُمید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
چونکہ اب جہلم سے کافی پانی بہہ چکا ہے ‘ شہری اوردیہی عوام یکساں طور سوشل میڈیا کی غیر معمولی تاثیر سے سیاسی شعور سے حتی الوسع آشنا ہوچکے ہیں ‘ اُنہیں اپنے سُود وزیاں کا بھی احساس ہونے لگا ہے ‘ وہ ’’اَلہ کرے گا وانگن کرے گا‘‘ کے اَندھ و شواسی نعروں سے بھی پلٹ رہے ہیں ‘ اُنہیں سیاسی لیڈروں کے نعروں سے زیادہ اب اُن کی کارکردگی کا محاسبہ کر نے کا فن آنے لگا ہے۔ بنابریں اس بار ایسےووٹروں کو دفعہ ۳۷۰ کی واپسی ‘ مفت بجلی کی فراہمی اور دوسرےسہانے خوابوں سے بہلایا نہیں جاسکا۔ ووٹر ان حسین وعدوں پر اعتماد کرتے بھی ہیں یا نہیں ‘ وہ ایک بحث طلب معاملہ ہے۔ البتہ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کشمیر میںلوگوں کے ووٹ کرنے کا سیاسی ہدف بہ حیثیت مجموعی یہ دِکھا کہ ۵؍اگست ۲۰۱۹ کو دفعہ ۳۷۰ ؍ پر خط ِ تنسیخ پھیرنے والی سیاسی قوت کا ’’بدلہ ووٹ‘‘ کی پرچی سے لیا جائے اور ووٹ کی طاقت سے ہی اپنی سیاسی شناخت کی بحالی کے اجتماعی مطالبے کو نجی خواہشات پرفوقیت دی جائے ۔ کشمیری عوام نے الیکشن کے دوسرے مرحلے پر بیک بینی ودو گوش یہی پیغام متعلقین کو دینے کی بھرپور کوشش کا اعادہ کیا ۔ یہ کاوش دشت کی سیاحی ثابت ہوگی یا کچھ نہ کچھ رنگ لائےگی ‘ آنے والے ماہ وسال اس کا فیصلہ کریںگے۔ ہاں‘ حق یہ ہے کہ خرابی ٔ بسیار کے بعد کشمیری عوام کا سوادِ اعظم تھک ہارکر سمجھ چکا ہے کہ دلی کے ساتھ خواہ مخواہ کی محاذ آرائی سے اُس کا آج تک کوئی بھلا ہو ا‘نہ آئندہ ہونے والا ہے بلکہ یہ صرف خسارے کا سودا ہے ‘ نیز یہ کہ وطن کے درد کا درماں انتہا پسندی نہیں بلکہ پُرامن سیاسی جدوجہد اور ووٹ کی پرچی میں پنہاں ہے۔ یہی سوچ سیکنڈ راؤنڈ میں بھی پہلے مرحلےکی طرح اپنی من پسند پارٹیوں اور چہیتے اُمیدواروں کو جتانے میں قوتِ محرکہ بنی رہی ۔ سری نگر کا اس مستحسن کا وش سے تھوڑی بہت عد م دلچسپی بر تنا سیاسی طور کوئی مثبت عمدہ اور مفید سوچ نہیں ۔ اسے آج نہیں تو کل اس تبدیلی کا ہم قدم اور ہم سفر بنا ہوگا۔
