از:ڈاکٹر جی ایم بٹ
قانون ساز کونسل کے لئے ہورہے انتخابات میں کھڑا امیدواروں میں جو مضبوط امیدوار بتائے جاتے ہیں ان میں یوسف تاریگامی کا نام بھی شامل ہے ۔ تاریگامی جنوبی کشمیر کے کولگام حلقے سے الیکشن لڑرہے ہیں ۔ اس سے پہلے انہوں نے لگاتار چار الیکشن جیت لئے ۔ آج وہ پانچویں بار الیکشن جیتنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ تاریگامی کیمونسٹ پارٹی کے امیدوارہیں اور ان کا انتخابی نشان ہتھوڑا اور درانتی ہے ۔ انہیں انڈیا بلاک کی حمایت حاصل ہے ۔ اس وجہ سے ان کے مقابلے میں این سی اور کانگریس کا کوئی امیدوار کھڑا نہیں ہے ۔ پچھلے انتخابات میں تاریگامی نے این سی کے علاوہ پی ڈی پی کے امیدواروں کو ہراکر بڑی جیت درج کی ۔ آج بھی مبصرین کا خیال ہے کہ تاریگامی کولگام کی نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا ۔ تاہم انہیں پہلی بار سخت مقابلے کا سامنا ہے اور بعض اندازے اس سیٹ پر ایک آزاد امیدوار کی جیت کا امکان ظاہر کررہے ہیں ۔ جو آزاد امیدوار تاریگامی کے مقابلے میں ایک وسیع الیکشن مہم چلانے میں کامیاب رہا اس کا نام یاسر ریشی ہے جسے جماعت اسلامی کی حمایت حاصل ہے ۔ ریشی کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ پیشے سے استاد ہے اور اپنے شاگردوں کی مدد سے نوجوان طبقے کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہاہے ۔ اس کے انتخابی جلسوں میں زیادہ تر نوجوان اور بزرگ جماعتی نظر آئے ۔ کولگام حلقے پر این سی کا کوئی امیدوار میدان میں نہیں ہے۔اس وجہ سے پارٹی کے بیشتر ووٹر مایوس ہوکر تاریگامی کے بجائے یاسر ریشی کے حق میں ووٹ دینے پر آمادہ ہوئے اور بہت سے دیہات میں نیشنلیوں نے ریشی کے حق میں ووٹ ڈالے ۔اسی طرح دوسری جماعتوں سے بھی بہت سے کارکن نکل کر ریشی کے جلسوں میں دیکھے گئے ۔ اس کے برعکس یہاں ایک نئی بات بھی سامنے آئی کہ وہابی فکر کی ترویج کرنے والے بہت سے لوگوں نے تاریگامی کے حق میں ووٹ ڈالے ۔ ایسے لوگوں میں اہل حدیث اور تبلیغی جماعت کے بیشتر کارکن شامل بتائے جاتے ہیں جنہوں نے ریشی کے انتخابی نشان لیپ ٹاپ کے بجائے ہتھوڑے کو ووٹ دینا پسند کیا ۔ اس بات پر بڑی حیرانی کا اظہار کیا جاتا ہے کہ ان دین پسند حلقوں نے جماعت اسلامی کے حمایت یافتہ امیدوار کے بجائے کمیو نسٹ پارٹی کے یوسف تاریگامی کے حق میں ووٹ ڈالنے کو ترجیح دی ۔ اسی طرح علاقے میں پھیلے قادیانیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یوسف تاریگامی کے سپورٹ میں بڑے متحرک تھے ۔ کولگام میں جہاں کمیونسٹ بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں وہاں اس علاقے میں اہل حدیث ، بریلوی اور تبلیغی جماعت کے کارکن جنہیں عرف عام میں اللہ والے کہا جاتا ہے بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ یہاں بریلوی فکر کی تریج کرنے والے مبلغ مولوی دائودی کا بھی بڑا حلقہ پایا جاتا ہے ۔ یہ سب لوگ یوسف تاریگامی کے مضبوط حمایتی بتائے جاتے ہیں ۔ ان سب کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ہتھوڑے کو ووٹ دے کر انہوں نے تاریگامی کو مضبوط پوزیشن پر لاکھڑا کیا ۔ یہ پہلا موقعہ نہیں ہے کہ ان حلقوں کی حمایت تاریگامی کو ملی ہے ۔ بلکہ پچھلے الیکشنوں میں جب یہاں پی ڈی پی امیدواروں کو کافی حمایت حاصل تھی وہابی ، بریلوی اور قادیانی ووٹروں نے یک جٹ ہوکر تاریگامی کو بڑے پیمانے پر سپورٹ کیا ۔ اسی حمایت کی وجہ سے تاریگامی یہاں الیکشن جیتنے میں کامیاب رہے ۔ 2014 کے اسمبلی انتخابات میں جماعتی ووٹروں نے بائیکاٹ کی کال کو نظر انداز کرتے ہوئے پی ڈی پی کو ووٹ دئے ۔ اس کے باوجود تاریگامی 300 ووٹوں کے معمولی فرق سے کامیاب قرار دئے گئے ۔ ان کی کامیابی میں انہی حلقوں کا ہاتھ رہا ہے جو آج اس کے ساتھ کمر بستہ ہیں ۔
کولگام میں کئی فرقوں کے لوگ آباد ہیں ۔ کشمیر میں اس علاقے کو قادیانیوں کا مضبوط گڑھ بتایا جاتا ہے ۔ کئی دیہات جن میں یاری پورہ ، شرتھ ، وٹو، چک وٹو وغیرہ شامل ہیں اس حوالے سے بہت ہی مشہور دیہات ہیں ۔ وٹو کا علاقہ دمہال اسمبلی نشست میں شامل ہے ۔ تاہم باقی علاقوں کے قادیانی کولگام نشست کا حصہ ہیں ۔ ان دیہات سے مبینہ طور تاریگامی کو ووٹوں کا بڑا حصہ حاصل ہوا ہے ۔ کچھ گنے چنے ووٹ پی ڈی پی کے کھاتے میں بھی گئے ۔ تاہم زیادہ حصہ ہتھوڑے کے حق میں ہی بتایا جاتا ہے ۔ اسی طرح شرتھ کے آس پاس کے دیہات میں تاریگامی کا پلڑہ بھاری بتایا جاتا ہے ۔ تاریگام اور بازلو جو کہ تاریگامی کے اپنے آبائی علاقے ہیں وہاں کے ووٹ تاریگامی اور جماعتی امیدوار میں تقسیم ہوئے ہیں ۔ بلکہ یہاں سے بھی زیادہ تر دیندار لوگوں نے تاریگامی کے حق میں ہی اپنی رائے دی ہے ۔ اسی طرح شیخ العالم کے آبائی اور اعتقادی حلقوں نے جماعتی امیدوار کے مقابلے میں تاریگامی کی کیمونسٹ پارٹی کو ہی اپنے ووٹ کا حقدار سمجھا ۔ تبلیغی جماعت کے کارکنوں اور اس دائرہ میں شامل سب ہی لوگ تاریگامی کے معتقد نکلے اور اسی کو اپنا ووٹ دیا ۔ الیکشن نتائج کیا ہونگے اس بارے میں سخت تذبذب پایا جاتا ہے ۔
الیکشن کے حوالے سے یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ ووٹ کا دین یا اعتقاد سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ لوگوں کے مسائل اور ان کی ضروریات کا معاملہ ہے ۔ اس موقعے پر لوگ دوسروں کے وعظ یا نصیحت کے بجائے اپنے لئے زیادہ فائدہ مند ثابت ہونے والے امیدوار کا انتخاب کرتے ہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تاریگامی کو نام نہاد دیندار حلقوں کا کافی ووٹ ملا ۔ بلکہ جماعت اسلامی کے گڑھ سمجھے جانے والے دیہات سے بھی تاریگامی کو بڑی تعداد میں ووٹ ملنے کا تاثر پایا جاتا ہے ۔ تاہم ایک بات ذہن میں رہے کہ اہل حدیث ، دیوبندی ، بریلوی ، قادیانی اور کیمونسٹ ایسے پنج پیارے ہیں جن کی اول روز سے جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کے ساتھ براہ راست دشمنی رہی ہے ۔ پورے برصغیر میں ان طبقوں کو جماعت اسلامی سرے سے قبول نہیں اور اس کو ختم کرنا ان کا بنیادی مشن ہے ۔ دیوبندی کسی بھی صورت میں ایسے کسی گروہ کو اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیتے ۔ بریلویوں کا ان کے ساتھ فکری تضاد ہے جس میں کوئی سمجھوتہ دونوں گروہوں کو قبول نہیں ۔ قادیانی اور مودودی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں ۔ کیمونسٹوں کے لئے مودودی ایک بڑی سد راہ ثابت ہوئے ہیں ۔ بلکہ ان کے قلم نے کمیونسٹوں کے لئے تلوار کا کام کیا ۔ دونوں میں اتحاد ممکن نہیں ۔ ان تمام باتوں کا ثبوت کولگام کے حالیہ اسمبلی انتخابات کے دوران ملا ۔ اس تناظر میں یہاں کیمونسٹ پارٹی کے یوسف تاریگامی اور جماعت اسلامی کے یاسر ریشی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ بتایا جاتا ہے ۔
