از : محمد انیس
تقریباً بارہ سال قبل کا واقعہ ہے ۔ ایک انتہا پسند ہندو لیڈر شہر پہنچا ۔ وہاں اس کی تقریر ہوئی ۔ اس نے اپنی تقریر میں کہا کہ مکہ کا کعبہ اصل میں بتوں کا مندر تھا ۔ مسلمانوں نے قبضہ کرکے اس کو اپنی مسجد بنالیا ۔ اس تقریر پر وہاں کے مسلمان مشتعل ہوگئے ۔ انہوں نے وہاں احتجاجی جلوس نکالا، پرجوش نعرے لگائے ۔ اس کے نتیجے میں وہاں ہندو مسلم فساد ہوگیا ۔ مقامی لوگوں کو جان و مال کا کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ بہت سے مسلمان گرفتار ہوئے ۔ کئی دنوں تک دکانیں بند رہیں، کاروبار ٹھپ رہا ۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب 610 عیسوی میں توحید کا مشن شروع کیا تو اس وقت کعبہ میں 360 کی تعداد میں بت رکھے ہوئے تھے ۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر مشتعل نہیں ہوئے، بلکہ پرامن اور مثبت انداز میں آپ ؐلوگوں کو توحید کی دعوت دیتے رہے۔
اس طرح سیرت رسول میں ہمارے لئے واضح رہنمائی موجود ہے کہ توہین مذہب یا توہین رسالت کے معاملے میں ہمیں کس طرح کا عمل کرنا چاہئے ۔ دعوت و تبلیغ کا کام کرنا چاہئے یا مشتعل ہوکر احتجاج و مظاہرہ کرنے چاہئے ؟ مشرکین مکہ نے اپؐ کو کاہن، مجنون اور نہ جانے کیا کیا کہا مگر آپ کبھی مشتعل نہیں ہوئے، بلکہ بدستور کارنبوت انجام دیتے رہے ۔ مدینہ کے سب سے بڑے منافق عبداللہ بن ابی کا رویہ بھی ہمیشہ توہین امیز رہا ، مگر رسولِ خدا نے اس کے خلاف کبھی تادیبی کارروائی نہیں کی ۔
اسوہ حسنہ اور قرآن کریم دونوں سے واضح رہنمائی مل رہی ہے کہ ایسے معاملوں کو نظرانداز کردیا جائے ۔ اس لئے کہ شرپسندوں کا منشاء ہی یہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں فساد برپا کیا جائے ۔ خواہ ناشک (مہاراشٹر) میں کسی پنڈت رام گیری کا بیان ہو یا غازی آباد والے یتی نرسنگھانند کی بدزبانی ، سب کا مقصد فساد برپا کرنا اور سستی شہرت حاصل کرنا ہوتا ہے ۔ ہمارا کام ایسے بیانات کو سوشل میڈیا میں فارورڈ کرنا نہیں بلکہ ان کے منصوبے کو ناکام کرنا ہے۔ اور یہ کام تبھی ہوسکتا ہے جب ہم اسے اہمیت نہ دیں، شہرت نہ دیں۔ صرف مقامی سطح پر پولیس F.I.R پر اکتفا کریں۔ پولیس معاملہ درج نہ کرے تو judicial magistrate کے یہاں بھی معاملہ درج کیا جاسکتا ہے ۔
یہ تو بڑی بےوقوفی کی بات ہے کہ کوئی آدمی سستی شہرت کیلئے یا فتنہ پیدا کرنے کے ارادہ سے توہین رسالت کا ارتکاب کرے اور اس کے ردعمل میں ہم سڑکوں پر جلوس نکالیں اور نعرہ بازی کرنے لگیں، یہانتک کہ بعض اوقات معاملہ تشدد کی شکل اختیار کرلے اور وہ آدمی مشہور ہوجائے ۔ اس سے تو فرقہ پرستوں کے منصوبے پورے ہوتے ہیں ،نہ کہ مسلمانوں کے ۔ ایسے طریقوں سے توہین رسالت کے معاملے کم نہیں ہوتے ہیں بلکہ بڑھتے ہیں۔
جاننا چاہئے کہ انڈیا میں توہین مذہب کا قانون موجود ہے جس میں تین سال تک کی قید کا بندوبست ہے ۔لیکن ہندو دھرم میں توہین مذہب کا نظریہ نہیں ہے ۔ اس لئے یہاں توہین مذہب کی بابت حکومتی سطح پر توجہ نہیں ہے ۔ حکومت کے نزدیک یہ معاملہ صرف لااینڈ آرڈر تک محدود ہے ۔ لہذا توہین رسالت پر یہاں اس حد تک کارروائی نہیں ہوسکتی جس حد تک کسی مسلم ملک میں توقع کی جاسکتی ہے ۔مغرب کے قریب قریب تمام ممالک میں توہین مذہب کے قانون کو ختم کردیا گیا ہے ۔ لہذا ایسے معاملوں میں صرف ایک ہی اوپشن ہے کہ ان چیزوں کو نظرانداز کردیا جائے جو کہ قرآنی طریقہ ہے ( اور جاہلوں سے اعراض کرو۔ سورہ اعراف: 199)۔
قرآن میں کئی ایتیں ہیں جو ایسے معاملوں پر محتاط عمل کی رہنمائی کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک آیت یہ ہے ۔۔۔
"یقیناً تمہارے مالوں اور جانوں سے تمہاری آزمائش کی جائے گی اور یہ بھی یقینی ہے کہ تمہیں ان لوگوں کی جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے اور مشرکوں کی بہت سی دکھ دینے والی باتیں بھی سننی پڑیں گی اور اگر تم صبر کرو اور پرہیز اختیار کرو تو یقیناً یہ بہت بڑی ہمت کا کام ہے ” ( آل عمران: 186)۔
جو لوگ قرآن کے صبر اور پرہیز کی تعلیم کو بزدلی سے تعبیر کرتے ہیں انہیں خدا سے ڈرنا چاہئے کہ خود قرآن تو اسے ایک ہمت کا کام ( عزم الامور) بتا رہا ہے۔ یاد رہے اپنے آپ کو عاشق رسول کہنے سے کوئی عاشق رسول نہیں ہوجاتا ،بلکہ سچا عاشق رسول وہ ہے جو اسوۂ رسول کی اتباع کرے ، نہ کہ مشتعل ہوکر سڑکوں پر جلوس و مظاہرہ کرے اور ‘سر تن سے جدا ‘ کا نعرہ لگائے۔ کسی نے درست کہا ہے کہ اگر آج کے یہ عاشقانِ رسول کچھ نہ کریں، صرف خاموش رہیں تو یہ اسلام کی ایک بڑی خدمت ہوگی۔ اس لئے کہ اسلام میں اتنی کشش ہے کہ وہ اپنے دم پر دنیا میں پھیل جائے، بشرطیکہ اس کے نام لیوا رکاوٹیں پیدا نہ کریں۔ چنانچہ آج ہمارے لئے صرف یہ جاننا کافی نہیں ہے کہ کسی ملی اور مذہبی معاملہ میں کیا کرنا چاہئے بلکہ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کیا نہیں کرنا چاہئے ۔
مخلوط قومی زندگی میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دوسری قوموں کی طرف سے ناخوشگوار باتیں پیش آتی ہیں ، اشتعال انگیز الفاظ کانوں میں پڑتے ہیں ۔ ان مواقع پر قرآنی صبر ہی معاملے کو دفع کرسکتا ہے جس کی رہنمائی اوپر کی آیات میں واضح طور پر موجود ہے ۔ اسوۂ رسول سے بھی یہی رہنمائی ملتی ہے ۔لیکن بعض لوگ جذبات سے مغلوب ہوکر ایسا طرزعمل اختیار کرتے ہیں جو صبر و تحمل اور اسوۂ رسول سے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ اس سے جو نقصانات ہوتے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ اس لئے صبر کے سبق کو بار بار دہرانے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اور شاید اسی لئے قرآن کریم میں 70 بار سے زیادہ صبر اور اس مفہوم کے الفاظ کا ذکر ہوا ہے تاکہ لوگ اسے اچھی طرح ذہن نشین کرلیں۔
آج ہندوستان کے حالات پوری طرح قرآنی صبر وتحمل کے متقاضی ہیں۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔” جان لو کہ ناپسندیدہ چیزوں پر صبر کرنے میں بڑی خیر ہے اور مدد صبر کے ساتھ ہے ، کشادگی تنگی کےساتھ، اور آسانی مشکل کےساتھ”( مسند احمد، حدیث نمبر 192). اس حدیث کے مطابق تمام ناپسندیدہ باتوں پر صبر کا طریقہ اختیار کیا جائے گا۔ یہ صابرانہ طریقہ نیکی کے بعد کشادگی لائے گا اور مشکل کو بالآخر آسانی میں تبدیل کردیگا۔
