از:اشفاق پرواز
دس سال بعد یعنی سال 2014 کے بعد 2024 میں جب انتخابات ہوئے تو عوامی حلقوں میں ایک نیا ہی جوش و جذبہ دیکھنے کو ملا۔ اس بار جب الیکشن کمیشن نے جموں کشمیر کے انتخابات کے لئے نوٹیفکیشن جاری کیا تو سیاسی حلقوں کی گہما گہمی کے ساتھ ساتھ عوامی حلقوں میں بھی کمیشن کے اس اقدام کی حوصلہ افزائی کی گئی اور پرجوش انداز میں اسکا استقبال کیا گیا۔ جموں کشمیر کے لوگ گذشتہ دس سال سے جمہوری طرز عمل سے چنی گئی عوامی حکومت کے منتظر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار سبھی عوامی حلقوں نے خصوصاً جوانوں کی ایک کثیر تعداد نے انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
اس بار کم و بیش ہر انتخابی نشست پر کانٹے کی ٹکر تھی۔ کسی امید وار کی جیت کا قیاس کرنا قبل از وقت سمجھا جاتا تھا۔ حلقہ انتخاب گلمرگ میں اپنی پارٹی کے جناب غلام حسن میر اور نیشنل کانفرنس کے جناب فاروق احمد شاہ کے درمیان زبردست مقابلہ تھا۔ الیکشن ختم ہوتےہی اب ہر امیدوار کے چاہنے والے کی نظر آٹھ اکتوبر پر مرکوز تھی اور اس دن کا بے صبری سے انتظار تھا۔ حالانکہ میر صاحب کے ووٹروں نے الیکشن ختم ہوتے ہی یقین دلایا تھا کہ حلقہ انتخاب گلمرگ سے میر صاحب ہی ووٹوں کی بھاری اکثریت سے جیت درج کریں گے۔ اب سبھی سیاسی جماعتوں کی نظریں آٹھ اکتوبر پر مرکوز تھیں۔ آٹھ اکتوبر کو صبح سے ہی سبھی سیاسی و غیر سیاسی افراد کی نظریں ٹی وی اور انٹرنیٹ پر جمی ہوئی تھیں۔ ہر گھنٹے کے بعد مختلف جماعتوں سے وابستہ کارکنان کی دھڑکنیں تیز ہوتی جارہی تھیں۔
بحثیت قلمکار میرے نذدیک حلقہ انتخاب گلمرگ سے میر صاحب کی جیت یقینی تھی کیونکہ زمینی سطح پر میرصاحب قابل ستائش کام کیا ہے۔ تین بار حلقہ انتخاب گلمرگ سے جیت درج کرنے والے غلام حسن میر صاحب نے اپنے حلقہ انتخاب کو کم و بیش ہر سہولیت دستیاب رکھی ہے۔ بجلی پانی اور سڑکیں میرصاحب کے لئے عام باتیں ہیں وہ انہیں ہر انسان کی بنیادی ضرورت سمجھتے ہیں اور ان چیزوں پر سیاست کرنا ان کے رتبے کو زیب نہیں دیتا۔ بلکہ طبی اور تعلیمی سہولیات میں بھی میر صاحب نے کمال کا کام کیا ہے۔ آپ لوگوں کے دلوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور ایسی صورت حال میں آپ کا جیت درج کرنا ایک یقینی امر تھا۔
قارئین کرام کی دلچسپی کے لئے یہاں غلام حسن میر صاحب کا الیکشن مینفسٹو لکھنا مناسب سمجھتا ہوں تاکہ عوام بھی جان لے کہ انہوں نے کس کو ووٹ نہیں دیا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ میر صاحب نے اپنے مینفسٹو کی شروعات اس لفظ سے کی تھی ”سیاست نہیں خدمت“ گویا سیاست میں آکر میر صاحب سیاست نہیں بلکہ عوام کی بھرپور خدمت کرنا اپنا شعار سمجھتے تھے۔
ہار یا جیت مقدر کی بات ہونے کے ساتھ ساتھ عوامی حلقوں کو بھی ضرور سوچنا چاہیے کہ آیا اگر میر صاحب ہار جاتا ہے پھر دوسرے سیاسی رہنما نے علاقے میں کتنی ترقی کی۔ گذشتہ دس سال گواہ ہیں کہ میر صاحب نے چھوٹے بچے سے لیکر جوان اور بزرگ شخص تک کسی کا فون نہیں کاٹا ہوگا۔ خواہ دن ہو یا رات میر صاحب چوبیس گھنٹے اپنے عوام کے لئے ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں۔ حالیہ اسمبلی انتخابات میں ہار کے بعد میر صاحب کا یہ سوشل میڈیا پوسٹ سیاسی بالغ نظری کے ساتھ ساتھ عوام کی آنکھیں کھولنے والا پوسٹ تھا۔ لکھا کچھ یوں تھا۔”
میں ہار تسلیم کرتا ہوں اور این سی کے فاتح فاروق شاہ کو مبارکباد دیتا ہوں۔ میں این سی اور کانگریس قیادت کو ان کی زبردست جیت کے لیے مبارکباد دیتا ہوں۔“ اسکے کچھ گھنٹے بعد میر صاحب نے لکھا ” جموں کشمیر کے ووٹرز کا شکریہ جنہوں نے انتخابی عمل میں حصہ لیا۔ انتخابی عمل میں حصہ لینے کے لیے حلقہ گلمرگ کے ووٹروں کا شکریہ۔ میں اپنے حلقے کے اپنے قائدین، اپنے کارکنوں اور ان تمام لوگوں کا خصوصی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے مجھے ووٹ دیا۔ میں ہمیشہ کی طرح اپنے لوگوں کے ساتھ ہوں“۔ گویا میر صاحب کے دروازے آج بھی اپنے عوام کے لئے کھلے ہیں۔
میر صاحب ایک عظیم لیڈر ہیں۔ ان سے محبت ہماری رگ رگ میں شامل ہے۔ خدائے تعالی موصوف کا سائہ تادیر قائم و دائم رکھے۔
اس تحریر کے ذریعے میں فاروق شاہ صاحب کو بھی مبارکبادی دیتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ عوام کے ساتھ کئے گئے وعدوں پر اتر آئیں۔
