اِکز اکبال
جماعت اسلامی کشمیر کی سب سے بڑی اور پرانی نظریاتی اسلامی احیائی تحریک ہے۔ جماعتِ اسلامی ایک پیچیدہ تحریک والی تنظیم ہے جس کو اگر کھول کر دیکھا جائے تو بہت سی پرتیں ملیں گی۔ عسکریت پسند گروہوں کے ساتھ مبینہ روابط کی وجہ سے تنظیم پر پابندی ہے’ تاہم تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے موجود جماعتِ اسلامی کو ہندوستان میں بھارت مخالف اسلامی تنظیم اور کشمیر میں انتہا پسند و کشمیر کی سیاست میں لچک لانے والی تنظیم کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔ ابھی حال ہی میں جموں وکشمیر میں ایک دہائی طویل وقفے کے بعد اسمبلی انتخابات کرائے گئے۔ اور جماعتِ اسلامی پر پابندی میں مسلسل توسیع کے باوجود جماعت خود کو سیاسی عمل میں شامل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ اور ہندوستان کے آئین اور اس کی جمہوری اقدار کی قسم کھا کر انتخابی میدان میں کود پڑے ہیں۔ لیکن انتخابات میں حصہ لینے کا یہ جماعت کا پہلا موقع نہیں ہے ۔
برصغیر میں جماعت کی بنیاد 1941 میں بیسویں صدی کے اسلامی مفکر سید ابوالاعلیٰ مودودی، جو عصر حاضر میں اسلام کے احیاء کی جدوجہد کے مرکزی کردار مانے جاتے ہیں’ نے متحدہ ہندوستان کے لاہور میں رکھی تھی ۔ مولانا سعد الدین تارابالی نے 1946 میں کشمیر میں جماعت یونٹ کا آغاز کیا ۔ 1947 میں تقسیم ہند کے بعد کشمیر دونوں ملکوں کے درمیان تنازعہ کی ہڈی بن گیا۔ اس دوران وادی میں مقیم جماعت’ جماعتِ اسلامی ہند کے ساتھ جڑی رہی مگر جماعتِ اسلامی کشمیر کے ارکان جماعت اسلامی ہند سے الگ ہونا چاہتے تھے ۔
جماعت اسلامی کشمیر کے رہنما مرحوم مولانا احرار کے مطابق ، اس وقت کی جماعت اسلامی ہند کے صدر مولانا ابو اللیث ندوی نے ان سے کہا: ‘جاؤ ، ہم نے تمہیں آزاد کر دیا ہے’ ۔ اور اس طرح 2 نومبر 1953 کو جموں و کشمیر میں ‘جماعتِ اسلامی کشمیر’ کے نام سے ایک آزاد اور خود مختار جماعت وجود میں آئی ۔
جماعت اسلامی کشمیر نے 1969 سے سیاست میں اپنا قدم رکھا اور انتخابات لڑنے لگی-پہلے پنچایت انتخابات’ پھر 1971 میں پارلیمانی انتخابات ۔ اور پھر 1972 میں ، تنظیم نے ریاستی اسمبلی کے انتخابات لڑے اور پانچ نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی- جیتنے والے اُمید واروں میں اننت ناگ سے علی محمد ڈار اور عبد الرزاق میر ،نوشہرہ سری نگر سے قاری سیف الدین اور غلام نبی اور سید علی گیلانی نے بارہمولہ سے اپنی اپنی نشست جیتی۔
1977 کے ریاستی اسمبلی انتخابات میں صرف سید علی گیلانی شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ کے حلقہ سوپر سے جیتنے میں کامیاب ہوئے ۔ اور 1983 کے ریاستی اسمبلی انتخابات میں جماعت کوئی بھی جیت درج کرنے میں ناکام رہی ۔
اس دوران آنے والے کئی برسوں تک ، گیلانی صاحب نے جماعت کے سیاسی قیادت اکیلے سنبھالی ۔ وہ ہندوستان ، شیخ عبداللہ یا فاروق عبداللہ کے خلاف سرزنش اور بات کرنے اور کشمیر کو ” متنازعہ” قرار دینے کا کوئی موقع نہیں گنواتے تھے ۔ اور ساتھ ہی ساتھ انتخابات میں حصہ لینے اور ہندوستانی آئین کی پاسداری کرنے کے تنظیم کے فیصلے کا بھی دفاع کرتے رہے۔ وہ اپنی جماعت کے اس موقف کا دفاع کرنے کے لیے قرآن پاک کی سورۃ النحل آیت 106 سے حوالہ دیتے کہ انتخابات میں جماعت کی شرکت ‘ مجبوری میں’ ہے ۔
” جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ سے کفر کرے بجز اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو مگر جو لوگ کھلے دل سے کفر کریں تو ان پر اللہ کا غضب ہے اور انہی کے لئے بہت بڑا عذاب ہے ۔ ” (القران، النحل 106)
اس دوران جماعت نے اپنا سماجی و مذہبی کام جاری رکھا جیسے اسکولوں کا نظام شروع کرنا اور درس و تدریس اور خطبات دینا وغیرہ۔ مگر ان سب سماجی ‘ مذہبی و فلاحی کاموں کے درمیان جماعت کو اُن کا اسمبلی میں واحد نمائندہ گیلانی صاحب ایک رکاوٹ بنتا دکھ رہا تھا جو شائد بعد میں ان کے لیے ایک مسئلہ بن سکتا تھا ۔ منوج جوشی کی کتاب دی لوسٹ ریبلین: کشمیر ان دی نینٹیز ( The Lost Rebellion : Kashmir in the 90s ) کے مطابق ، ’70 کی دہائی کے وسط سے سید علی گیلانی جماعت کے غالب سیاسی رہنما رہے ہیں ، جو کہ کشمیر کو پاکستان کے ساتھ ضم کرنے کی ہمیشہ سے حمایت اور وقالت کرتا آیا تھا اور ایک وقت میں جماعت نے اسے ہندوستان کے خلاف “امیر جہاد” مقرر کیا تھا۔’
سید علی گیلانی جماعت کی طرف سے نمائندگی کر رہے تھے ، اور ان کی بیان بازی نے 27 دسمبر 1983 سے شدت پسندی اختیار کی ، جب انہوں نے کہا: “کشمیری اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے چاہے ہمیں پرتشدد ہونا ہی کیوں نہ پڑے ۔” 6 فروری 1985 کو ، شمالی کشمیر کے سوپر کے اقبال مارکیٹ میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ، انہوں نے کہا: “میری پارٹی نے اس ملک کو آزاد کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، اور ہم اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے” ۔
23 مارچ 1987 کو جموں و کشمیر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کو کشمیر کی تاریخ کا ایک اہم موڑ سمجھا جاتا ہے ۔ان انتخابات میں مبینہ طور پر دھاندلی ہوئی تھی۔
اس سال جماعت اسلامی، حریت اور دیگر علیحدگی پسند اور اسلامی جماعتوں کے گروپ مسلم متحدہ محاذ (یونائیٹڈ فرنٹ)کے تحت الیکشن لڑ رہے تھے۔ جماعت اس محاذ کا ایک کلیدی جزو تھی ۔ مسلم متحدہ محاذ نے 43 نشستوں پر الیکشن لڑا لیکن صرف چار نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئے ۔ منتخب ہونے والوں میں گیلانی بھی شامل تھے ۔
اس وقت کی نیشنل کانفرنس اور کانگریس حکومتوں پر انتخابات میں دھاندلی کے الزام لگے تھے۔ 1987 کی اس سیاسی ناکامی نے کشمیر کی سیاست یکسر تبدیل کرکے رکھ دی۔ مسلم یونائیٹڈ فرنٹ کے قائدین کی گرفتاریاں ہونے لگیں۔ کئی رہنما گرفتاریوں سے بچنے کے لیے سرحد پار پاکستان فرار ہو گئے۔ اس سے وادی میں کشیدہ صورتحال پیدا ہوگئی۔ انتہا پسندی نے جنم لیا۔ اس بات پر وسیع پیمانے پر اتفاق کیا جاتا ہے کہ 1987 کے انتخابات میں دھاندلی نے “عسکریت پسندی کو جنم دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
جماعت کے امیدوار محمد یوسف شاہ ، جو سری نگر کے حلقہ امیرہ کدال سے ہار گئے تھے ، بعد میں حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر سید صلاح الدین بن گئے ۔ ان کے ووٹوں کے گنتی کے ایجنٹوں میں سے ایک ، محمد یسین ملک نے جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ JKLF کی کمان سنبھالی ۔ ایک اور سرگرم کارکن ، اعجاز ڈار ، جسے 1988 کے آخر میں اس وقت گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا جب وہ کشمیر پولیس افسر وٹالی کو گولی مار کر ہلاک کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ وہ بھی صلاح الدین کا گنتی ایجنٹ تھا ۔
جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ نے اُس کے وزیر داخلہ مفتی سعید کی بیٹی روبیہ سعید کو اغوا کر لیا گیا۔ اور اسکی رہائی کے بدلے اپنے پانچ کارکنوں کو رہا کرانے میں کامیاب ہوگئے ۔
یہ کشمیر میں مایوسی کا دور تھا۔ انتخابات میں دھاندلی کے بعد کشمیر میں ‘اون لی ون سولیوشن ، گن سولیوشن – گن سولیوشن‘ ( Only One Solution: Gun Solution ، Gun Solution) کے نعرے لگائے جاتے تھے۔ عسکریتی تحریک کو ہر طبقے کی حمایت حاصل تھی۔ اس کی حمایت کرنے والوں میں جماعت اسلامی ایک بڑی تنظیم تھی۔ سید علی گیلانی جو کہ جماعت کے سیاسی بیورو تھے نے اس دوران مسلم نوجوانوں کو جہاد کی طرف راغب کرنے کی مہم’ شروع کی اور ساتھ ہی ساتھ قانون ساز اسمبلی کے اندر مسلم متحدہ محاذ کی مؤثر طریقے سے قیادت کرنے کا مورچہ سنبھالا۔ بعد میں محاذ کے منتخب رہنماؤں نے اسمبلی سے استعفی دے دیا اور باضابطہ طور مذکورہ مسلح مزاحمت کی حمایت میں عوام میں شامل ہویے ۔
اور اس طرح جماعت نے اعلانیہ طور انتخابی سیاست سے اپنے آپ کو علحیدہ کیا اور عسکریت پسندی کا راستہ اختیار کیا اور کھلے جہاد میں داخل ہو گئی ۔ اگرچہ جماعت اسلامی کشمیر کے اُس وقت کے رہنما مولانا سعددین نے پاکستان کے فوجی صدر جنرل محمد ضیاء الحق کو کشمیر میں کسی بھی مسلح مہم جوئی کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا ۔ جوشی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ، “ہندوستانی انٹیلی جنس کی رپورٹوں کے مطابق ، مولانا نے واضح کیا کہ وہ ریاست کو پاکستان میں ضم کرنے کی خاطر کشمیریوں کو مرنے دینے کے لیے تیار نہیں تھے ۔”
کے سنتھانم اور اس کے ساتھیوں نے اپنی کتاب “جموں و کشمیر میں جہادی” ( Jihadis in Jammu and Kashmir: A Portrait Gallery By K۔ Santhanam، Sridhar، Sudhir Sexana، Manish، )
میں لکھا ہے کہ حزب المجاہدین (ایچ ایم) نے وادی میں نوجوان ذہنوں کو راغب کرنے کے لئے جماعت کے پہلے سے اثر و رسوخ والے نیٹ ورک اور آلات کا فائدہ اٹھایا ۔جماعت اسلامی کے نظریے سے متاثر ہوکر حزب المجاہدین نے کشمیر میں جدوجہد آزادی شروع کی تھی۔
جماعت کا اثر و رسوخ صرف ایچ ایم تک محدود نہیں رہا ۔ “جموں و کشمیر میں جہادی” کتاب کے مطابق ، پانچ عسکریت پسند گروہوں-حزبِ المجاھدین، الجہاد فورس ، تحریک المجاہدین ، حرکت النسار ، اور عمر مجاہدین-نے جموں و کشمیر میں عسکریت پسند کارروائیوں کی کمان اور کنٹرول کے لیے ایک مشترکہ تنظیم ” شوریٰ جہاد “وجود میں لائی ۔ اگرچہ ایس حامد ” شوریٰ جہاد ” کے بانی چیئرمین تھے ، لیکن یہ تنظیم اصل میں حزب المجاہدین اور جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر کے زیر کنٹرول تھی ۔ ” ایس حامد کو اپریل 1998 میں ماراگیا تھا۔
عسکریت سے جموں وکشمیر کے حالات تناؤ پر رہے اور پھر 1998 میں جماعتِ نے ایک اور موڈ لے لیا۔ نومبر 1998 میں ایک پریس کانفرنس میں ، جماعت کے اس وقت کے سربراہ ، غلام محمد بٹ نے اعلانیہ طور پر عسکریت پسندی کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ جماعت “بنیادی طور پر ایک آئینی جمہوری تنظیم” ہے۔
جماعت نے اب عسکریت پسند سے براَت کا اظہار کیاتھا ۔ لیکن اس نے اسلام اور سیاست پر اپنی گرفت کو مضبوط بنایے رکھا جو کہ جماعت کے بانی سید ابوالعلا مودودی کا نظریہ تھا ۔ لیکن اس تبدیلی کی وجہ سے جماعت کے اندر دراریں پیدا ہونے لگی جن سے اس کی ساخت کو خطرہ لاحق تھا ۔
جماعت کے کارکنوں کے اندر دو طرح کے خیالات اُبھر کر سامنے آئے-ایک کا خیال تھا کہ تنظیم کو مسئلہ کشمیر کی ایک اہم تحریک کے طور اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ؛ دوسرے گروہ کا خیال تھا کہ مسئلہ کشمیر جماعت کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک قومی مسئلہ ہے لہذا یہ تنظیم صرف بڑے گروہ کا حصہ بنے گی اور اپنا کردار ادا کرے گی ۔ (وُلر کنارے : جلد 3 , صفحہ 374).
سید علی گیلانی مسئلہ کشمیر حل کرنے کے حامی تھے۔ اسلئے 2004 میں جماعت نے ایک معاہدے کے ذریعے گیلانی کو الگ چھوڑ دیا ۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اپنی نئی پارٹی “تحریک حریت ” کا آغاز کیا ۔
گیلانی نے انتخابات میں بائیکاٹ کرنے کی مہم چلائی اور اس سياسی عمل میں شرکت کو ‘مقصد کے ساتھ دھوکہ دہی’ قرار دیا ۔
جماعت نے گیلانی کے سخت گیر نقطہ نظر سے کنارہ کشی اختیار کی اور دعوت کے کاموں پر زور دیا اور دینی کاموں پر اپنی گرفت مضبوط کی۔ جماعت بظاهر آزاد خیال مگر بنیادی طور شدت پسند تنظیم بن کر اُبر آئی.
اگرچہ جماعت سیاست میں فعال طور پر حصہ لینے سے دور رہی ، اور انتخابات کا بائیکاٹ اس حد تک کیا کہ جماعت کے کارکنوں میں سے ووٹ ڈالنے والے کسی بھی شخص کو پارٹی سے باہر نکالنے کی دھمکی دی گئی’ ۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، جماعت نے اشارہ دیا کہ وہ انتخابی میدان میں داخل ہونے کے خلاف نہیں ہے ۔
2015 میں ، اس وقت کے جماعت کے سربراہ ، محمد عبداللہ وانی نے کشمیر لائف ( Kashmir Life ) کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا: “جماعت اسلامی کو انتخابات لڑنے کے لیے پرامن ماحول کی ضرورت ہے” ۔
28 فروری 2019 کو مرکزی وزارت داخلہ ( MHA) نے جماعت کو غیر قانونی تنظیم قرار دیا ۔ اس کی قیادت کو گرفتار کر لیا گیا ، جائیداد ضبط کر لی گئی اور اس سے وابستہ اداروں پر چھاپے مارے گئے ۔ فروری 2024 میں پابندی کو مزید پانچ سال کے لیے بڑھا دیا گیا ۔
2022 میں کالعدم جماعت نے پابندی کے ساتھ اپنے مسائل سے نمٹنے کے لیے ایک پینل تشکیل دیا ۔ پینل نے مبینہ طور نئی دہلی کے ساتھ خفیہ بات چیت کی اور پابندی ہٹائے جانے کی صورت میں انتخابی سیاست میں واپس آنے پر آمادگی کا اظہار کیا ۔
جنوبی کشمیر سے غلام قادر وانی اور شمال سے غلام قادر لون پینل کے نمائندے ہیں ۔ جب گیلانی کو پارٹی سے نکال دیا گیا تھا تو غلام قادر وانی اُس وقت جماعت کے جنرل سکریٹری تھے ۔ غلام قادر لون کے بارے میں ، گیلانی لکھتے ہیں کہ لون نے جماعت کے سیاسی میدان میں ان کے ساتھ کام کیا لیکن ‘ دونوں کے خیالات مختلف ہیں’ ۔ اس بات کا اشارہ دیتے ہوئے کہ لون اس گروہ میں شامل تھا جو مسئلہ کشمیر حل کرنے پر زیادہ زور نہیں دیتے تھے۔
2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد ‘ کشمیر میں ایک دہائی بعد 2024 میں وادی میں اسمبلی انتخابات کرائے گئے ۔ جماعت اسلامی ایک کالعدم تنظیم ہونے کی باوجود آزاد امیدوار کھڑے کیے۔ ایک کالعدم تنظیم، جس کی تاریخ اس قدر متنازعہ رہی ہے، اس کی فعال سیاست میں واپسی کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ جماعت اسلامی کے اندر یہ تبدیلی کیوں آئی؟ کشمیر میں جس پراسرار طریقے سے ایجنسیاں کام کرتی ہیں ، کہیں جماعت اسلامی کے ذریعے وادی میں ایک متوازی سیاسی متبادل تو نہیں پیدا کیا جارہا ہے؟ آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے۔
تاہم جماعتِ کے ساتھ ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ شوریٰ کی مدد سے جماعت کی قیادت بار بار تبدیل ہوتی رہتی ہے ۔ قیادت میں تبدیلی بہت سے چیلنجز پیدا کر سکتی ہے ۔ پرانی قیادت تبدیل ہونے اور نئی قیادت کے وجود سے مسئلہ یہ ہے کہ کیا نئی قیادت پرانی قیادت میں لیے گئے فیصلوں پر قائم رہے گی یا دوبارہ کچھ نیا کرنے کا فیصلہ کرے گی؟ ۔ یہ کہنا مشکل ہے ۔
سری نگر میں جماعت کا ایک رہنما کا ماننا ہے کہ” جماعت کے پاس یہاں سے اب دو راستے ہیں ۔ ایک یہ ہے کہ ، ہم کچھ نہ کریں اور اپنے مٹنے کا انتظار کریں ، اور پھر تاریخ میں ہمارا نام ہوگا اور لوگ کہا کریں گے کہ جماعتِ اسلامی نامی ایک جماعت ہوا کرتی تھی ۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ جماعت اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں ، اور ان نظریات کے لیے جیئیں جن کا ہم دعویٰ کرتے آئے ہیں ۔ ” دوسرا راستہ زیادہ مناسب ہے ، اگر ہمیں اپنی پالیسیوں پر نئے سرے سے غور کرنے کی ضرورت ہے تو ہمیں کرنا چاہیے ۔ ”
ونسٹن چرچل نے روس کے بارے میں کہا تھا کہ یہ “ایک پہیلی ہے جو ایک مخمصے کے اندر ایک سر میں لپٹی ہوئی ہے” ۔ جماعت اسلامی بھی کشمیر میں روس کی طرح ہے ۔ جماعت کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ کب کیا کریں گے کوئی نہیں جانتا ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دہلی میں مقیم مبصرین حکومت کو جماعت سے محتاط رہنے کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔
کیا جماعت ایک بار پھر اپنا رخ بدلے گی ؟ یا جماعت کی یہ تبدیلی مستقل ہے ؟ یہ صرف وقت بتائے گا!!!