جہاں زیب بٹ
آسمان ابر آلود تھا زبردست دھند تھی جہاز جموں میں اتر نہ سکا لیکن یو ٹی کے وزیراعلی عمر عبداللہ نے سڑک کا راستہ اختیار کیا اور سرمایی سیکرٹریٹ جموں سے شاندار استقبال کے بیچ کام کاج شروع کیا۔ ہر حال میں اور کسی حیلے بہانے یا جواز کے باوجود عمر عبداللہ نے گیارہ نومبر کو جموں دفتر پہنچ کر جہاں جموں والوں کو پیغام دیا کہ عبداللہ حکومت دربار مو کی منتقلی کے بارے سنجیدہ اور مخلص ہے وہیں اب یہ بات واضح ہے کہ جموں کشمیر انتظامیہ کا ٹاپ براس سرما کے دوران جموں میں ہی مقیم رہے گا ۔اس سلسلے میں جنرل ایڈمنسٹریٹو ڈیپارٹمنٹ نے ایک حکمنامہ جاری کردیا ہے جس کے مطابق سرما کے دوران سینیر وزراء اور انتظامی سیکرٹری جموں می خیمہ زن رہیں گے۔ ایل جی منوج سنہا پہلے ہی جموں میں
موجو د ہیں جہاں سے وہ اپنے انتظامی اختیارات
کے مطابق ذمداریاں نبھاءیں گے۔اگرچہ اعلیٰ انتظامی عہدیدار وں اور آفیسر وں کی جموں منتقلی تاریخی دربار مو کی روایتی صورت سے ملتی جلتی ہے پھر بھی دعویٰ کیا جارہا ہے کہ یہ اس سالم دربار کی منتقلی نہیں ہے جس کا الیکشن مہم کے دوران وعدہ کیا گیا تھا۔
دربار مو کی روایت بہت پرانی ہے۔اس کا آغاز 1872 میں مہاراجہ رنبیر سنگھ کے زمانے میں ہوا جو متضاد موسمی حالات کا نتیجہ تھا ۔یہ روایت برسہا برس تک قابل قبول رہی مگر جب دربار کی منتقلی سے خزانہ عامرہ پر پڑنے والے مالی بوجھ کا تخمینہ لگایا گیا تو مختلف حلقوں نے دربار مو کو خزانہ خور دیو قرار دیا اور اس روایت کو ختم کر نے کی وکالت شروع کردی۔جمہوری طور منتخب حکومتیں آییں اور گییں آزاد ،محبوبہ ،عمر کی حکومتی اننگس آییں اور گییں مگر کسی نے دربار مو روایت سے تعرض کی جرت نہ کی۔لیکن 2021میں جب سرکاری ریکارڑ کی ڈیجیٹل میپنگ ممکن ہو یی تو ایل جی انتظامیہ نے دربار مو کی روایت کو معطل کردیا ۔اس سے قدرتی طور پر ملازمین ،سایلین اور گرم علاقے میں سرما کاٹنے کے شایقین کی جموں آمد کا سلسلہ معطل ہوگیا ۔اس کا نقصان دہ پہلو بس یہ تھا کہ جموں کا کاروباری طبقہ معاشی طور متاثر ہوگیااور وہاں سے دربار مو کی بحالی کا مطالبہ پیدا ہو نے لگا ۔جب الیکشن کا وقت آیا تو سیاستدانوں نے جموں والوں کی خواہش کا خیال رکتھے ہو یے اس کو انتخابی وعدوں کی فہرست میں شامل کردیا ۔توقع کے برعکس جموں کے راے دہندگان نے دربار مو وعدے پر ووٹ نہیں دیا اور باجپا
امیدواروں کو کامیاب کردیا جو جموں کشمیر کی کلچرل شناخت کے روادار ہیں اور نہ ہی دربار مو کی بحالی سے دلچسپی رکھتے ہیں۔بایں ہمہ عبداللہ حکومت دربار مو کی بحالی کو اولین اور اہم ترجیحات کا حصہ بنارہی ہے۔ اس نے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی دربار منتقلی کی روایت بحال کر نے کا بیڑا اٹھایا اور اس جانب ٹھو س قدم بھی اٹھایا۔ دریں اثنا ء سی پی ایی ایم نے جموں میں احتجاج کیا اور مکمل دربار مو کی بحالی کا مطالبہ کیا ۔مکمل دربار مو کی تعریف کیا ہے سمجھ میں نہیں آتا ۔اس کی تعریف جتنی مشکل ہے اتنا ہی اس کی پرانی روایت کے مطابق بحالی اب کارے دارد والا معاملہ ہے ۔ عمر عبداللہ کا جموں میں دفتر سنبھالنے کی کاروایی کی تعریف کرتے ہویے این سی لیڈر اجے سدھو ترا نے دعویٰ کیا کہ اس قدم سے جموں کی دوریاں اور خدشات ختم کر نے کی عبداللہ حکومت کی لگن کا اظہار ہوتا ہے۔اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ دربار مو جموں والوں کی تسکین اور خوشنودی پر مبنی قدم ہے جس کے بد لے سیاستدانوں کو ٹنل کے پار ووٹ بینک پیدا ہو نے کی امید ہے۔ گویا یہ ایک سیاسی مجبوری ہے ورنہ اس کا عقلی جواز باقی رہا ہے اور نہ اس کی ناگزیر ضرورت اور نہ ہی پرانی صورت میں اس کی مکمل بحالی ممکن نظر اتی ہے۔کیوں کہ ٹیکنالوجی زندگی ہی کی طرح گورننس میں بھی گھس گیی ہے۔یہ ای گورننس ،ای فایلنگ اور ای میل کا زمانۂ ہے ۔قلم اور کاغذ کی جگہ کی بورڈ اور لیپ ٹاپ نے لی ہے۔دستاویزات کا سفر اور دفاتر کا چکر کاٹنے کی مشق انٹرنیٹ سہو لیت کے حوالے ہو چکی ہے۔اب درخواستوں اور دفتری کارواییوں کے لیے ای فایلنگ کا نظام رایج ہو گیا ہے۔لہزا دربار مو کی اہمیت اور مدلل جواز جدید ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کے ہاتھوں ختم ہوچکا ہے اوراس کی مکمل بحالی کی باتیں کرنا مردہ
گھو ڑے کو چابک مارنے کے مترادف ہے۔ جموں
کے لیے پہلا جیسا فایدہ بخش اور کاروباری
اہمیت کا دربار مو بحال کر نا شاید ممکن نہیں ہے
جس کے لیے جدید ٹیکنالوجی مورد الزام ہے۔
